جگمگاتا ہوا چاند اور جواہرات

باقی باتوں سے پہلے آج کا کالم شروع کیا جاتا ہے اسلام آباد میں محمد اشرف انصاری صاحب (سابق براڈ کاسٹر) کے شکریہ کی ادائیگی سے جنہوں نے بکمال محبت ایک حوصلہ افزا ای میل ارسال فرمایا۔ ٹینا ثانی اپنی لاثانی آواز میں ایک گیت کے بول ہمیں گا کر نہ بھی سناتیں تو اپنی زندگی کے تجربے کی بنیاد پر یہ حقیقت ہم سب کے علم میں تھی کہ ایک بار آپ کا انوکھا بچہ آپ کے بے جا لاڈ کی وجہ سے بگڑ جائے تو پھر وہ جس قسم کے فضول اور ناممکن مطالبات کی فہرست آپ کی خدمت میں پیش کرے گا اُس میں کھیلنے کے لئے چاند کی فراہمی بھی شامل ہوگی۔ ظاہر ہے اس مطالبے کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوگا تو بگڑا ہوا بچہ مزید ہنگامہ کرے گا۔ اتنا شور مچائے گا کہ اس کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر دینے کے علاوہ اور کوئی علاج نہ ہوگا۔ اگرشورکی آواز عدالت پہنچ گئی تو خطرہ ہے کہ وہ اسے پاناما سکینڈل کی تفتیش میں دخل انداز ی کی مذموم کوشش اور توہین عدالت قرار دے دے۔ 
پاکستان میں کروڑوں عوام پر حکمرانی کرنے والی اشرافیہ مذکورہ بالا گیت میں بگڑے ہوئے بچے کی مانند ہے۔ اگر اُسے یہ خطرہ محسوس ہوگا کہ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں اربوں ڈالر تو بآسانی کمائے جا سکتے ہیں مگر اربوں ڈالروںکو (روپے نہیں ڈالروں پر مشتمل) خزانے حفاظت سے نہیں رکھے جا سکتے تو وہ اپنے خزانوں کو بیرون ملک (پاناما اُن درجنوں محفوظ مقامات میں سے صرف ایک ہے) جا کر چُھپا دے گی۔ اشرافیہ کو کھیلنے کے لئے جو چاند چاہیے وہ اگر اپنے ملک میں نہیں مل سکتا تو شاید ان کی قسمت کا ستارہ پاناما یا جنیوا یا بہاماس(Bahamas) یا کسی اور دور دراز گمنام جزیرہ میں چمک اٹھے اور خزانوں کی ذمہ دارانہ حفاظت کا مسئلہ بخوبی حل ہو جائے۔ جس قوم نے 70 سال اپنے حکمران طبقہ کو لاڈلہ بچہ سمجھ کر اُس کے بگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، وہ اب اپنی عدالت عالیہ کو ابن مریم سمجھ کر اُس سے یہ گزارش کر رہی ہے ع
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
ہمارے ملک میں جو کام ایک ادارے کا ہو وہ کوئی اور ادارہ کرتا ہے (یا کرنے کی کوشش کرتا ہے) اور اس سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ دُنیا بھر کی مروجہ اور مستند قانونی روایات کا تقاضا یہ تھا کہ پاکستان میں پاناما سکینڈل کی تفتیش پارلیمنٹ کا بنایا ہوا آزاد کمیشن کرتا۔ آپ اس کالم نگار سے بہتر جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایسے کمیشن کئی بار بنے۔ حمود الرحمن کمیشن سے لے کر میمو گیٹ سیکنڈل تک مگر بات کبھی نہ بنی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اُن 70 سالوں میں اپنی عدالت عالیہ کو سیاسی دنگل لڑنے کا اکھاڑہ بنا دیا ہے۔ بہرحال20 کروڑ لوگ جانیں اور اُن کی پارلیمنٹ، اُن کی سیاسی جماعتیں اور اُن کے رہنما، ہم اُن کا رونا کافی رو چکے۔
اب ہم زمین سے آسمان کی طرف چلتے ہیں، جہاں 14نومبر کی رات کو چودھویں کا چاند اس آب و تاب سے چمکا کہ دُنیا بھرکی اخباروں میں اس کا تذکرہ اور تصویریں شائع ہوئیں۔ خاص بات یہ تھی کہ کرہ ارضی پر رہنے والوں کو 68 سال کے بعد اتنا روشن چاند نظر آیا۔ یہ نہ بھولنے والا منظر دو شرائط کا محتاج تھا۔ چودھویں کا (یعنی پورا) چاند ہو اور وہ اُس مقام پر ہو جسے ماہر فلکیات اپنی زبان میں Perigee کہتے ہیں، جو زمین اور چاند کے درمیان سب سے زیادہ قربت کا نشان ہے، یعنی چاند کی ماہانہ گردش کا Elliptical مقام۔ بے مثال شہرت کے مالک امریکی خلائی ادارہ ناسا کے بیان کے مطابق1948ء کے بعد 16 نومبر کو چاند زمین سے اتنا قریب آیا جو غالباً 2034 ء تک دوبارہ رُونما نہ ہوگا۔ معمول سے زیادہ روشن چاند چین اور بھارت کے زیادہ تر حصوں میں نظر آیا، مگر اہل دہلی فضائی آلودگی سے باعث اس خوشی سے محروم رہے۔ غالباً اہل لاہورکو بھی اس کشتی میں سوار ہونے کی وجہ سے یہی سزا بھگتنی پڑی۔ چاند کی روشنی بڑھ جانے سے ساحلی علاقوں میں جوار بھاٹا کی شدت میں اضافہ ہوا جو سمندری لہروں پر کشتی پر سوار ہو کر Surfing کرنے والوں کے لئے غیر معمولی خوشی کا باعث بنا۔ آسٹریلیا اور جاپان میں بلند عمارتوں کے مالکوں نے 16 نومبرکے چاند کا تاریخی منظر دیکھنے کے خواہش مند لوگوں کو بالائی منزل پر مہنگے ٹکٹ فروخت کر کے کافی رقم کمائی۔ تھائی لینڈ کے جوتشی دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک گروپ اس چاند کا ظہور خوش بختی اور دُوسرا بدنصیبی کی علامت قرار دیتا تھا۔ ظاہر ہے کہ آنے والے وقت میں ان دونوں میں سے ایک گروپ کی پیش گوئی سچ نکلے گی اور دوسرا گروپ اپنی خفت پر پردہ ڈالنے کے لئے انواع و اقسام کی بہانہ سازی کرے گا۔ 
مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ تھائی لینڈ کے نجومیوں کا سردار Soraja Nuan-Yoo (جس نے بارہ سال پہلے سونامی کی پیش گوئی کر کے عالمی شہرت حاصل کی تھی) نے اپنی پیش گوئی کو دُوسرے گروپ کے پلڑے میں اتنے فیصلہ کن انداز میں ڈال دیا ہے کہ تھائی لینڈ کے لوگ خوف سے سہم گئے ہیں۔ اس نجومی کے الفاظ میں چاند کے زمین کے قریب آجانے کا صرف ایک ہی مطلب ہوتا ہے اور وہ ہے زمین میں نئی نئی آفتیں اور نئی مصیبتیں۔ 
کالم کے دُوسرے حصہ میں (جگمگاتے ہوئے چاند کو ایک نظر دیکھنے کے بعد) ہم چمکتے ہوئے جوہرات کی طرف چلتے ہیں۔ بظاہر یہ دونوں بالکل مختلف چیزیں ہیں، مگر ان میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے آب و تاب۔ جس وقت یہ سُطور لکھی جا رہی ہیں سوئزر لینڈ کے ایک معروف کاروباری مرکز جنیوا میں ان ہیروں کی نیلامی کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جو تین سو سال پہلے یورپ کی برسر پیکار طاقتوں کے درمیان جنگ کا خطرہ کم کرنے اور پُرامن بقائے باہم کا باعث بنے۔ اگر یہ کارے ہائے مذکورہ بالا ان دنوں سرانجام دیے جاتے تو کچھ عجب نہیں کہ انہیں امن کا نوبل انعام دیا جاتا۔ جنیوا کی شہرۂ آفاق جھیل کے کنارےFour Seasons Hoter DS Berguts میں برطانوی نیلام گھرChristie اپنا سٹال سجا رہا ہے جبکہ جھیل کی دُوسری طرف (میں جنیوا جائوں تو جھیل سے زیادہ اس سے چلنے والے فوارہ پر نظریں جمائے رکھتا ہوں)Hoter Bean Rivage میں دُوسرے بڑے برطانوی نیلام گھر Sothe By's اُن ہیروں کی نیلامی کا اہتمام کر رہا ہے جو صدیوں قبل رُوس کے بادشاہ (جو زار کہلاتے تھے) پیٹر دی گریٹ نے اپنی بیوی کیتھرائن اوّل کو بطور تحفہ دیے تھے۔
1711ء میں (305 سال پہلے) رُوس کی ملکہ (کیتھرائن) کو پختہ یقین تھا کہ سلطنت عثمانیہ کے ساتھ جنگ رُوس کے لئے اتنا بڑا خطرہ جنم دے گی جو ممکن ہے کہ رُوس کی سالمیت کے لئے مہلک ثابت ہو۔ وہ اسی سوچ میں غلطاں تھیں کہ دن ڈھل گیا اور شام رات میں بدل گئی۔ آدھی رات ہوئی تو ملکہ کا صبر جواب دے گیا اور اُنہوں نے اپنے سوئے ہوئے خاوند کو جگا کر اُسے حکم دیا کہ وہ فی الفور سلطنت عثمانیہ کے ساتھ امن کا معاہدہ لکھے اور اُس پر اپنے دستخط ثبت کرے۔ یہ ضروری کام کر کے بادشاہ پھر سو گیا۔ ملکہ نے اسے غنیمت سمجھا اور اپنے خاوند کے دوبارہ جاگنے کا انتظار کئے بغیر امن معاہدہ اور اُس کے ساتھ اپنے جواہرات سلطنت عثمانیہ کے سربراہ (سلطان احمد سوئم) کو بھیج دیے۔ ترک سلطان اس بیش قیمت تحفہ اور اپنے پڑوسی کے ساتھ امن معاہدہ کی وُصولی پر خوش ہو گیا۔ اُس نے بھی امن معاہدہ پر دستخط کر دیے اور مورخین کی ماہرانہ رائے کے مطابق رُوسی سلطنت شکست و ریخت سے بچ گئی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق مذکورہ بالا جواہرات تین اور پانچ ملین ڈالر (دس لاکھ کا ایک ملین) کی درمیانی قیمت میں نیلام ہوںگے۔ ہیروںکا بنا ہوا ایک ہار بھی نیلام کیا جائے گا جو 1762ء سے لے کر 1796ء ( 34 سال ) تک رُوس پر حکومت کرنے والی ملکہ کے گلے کی زینت بنا رہا۔ صرف اس ہار کی قیمت (پچاس لاکھ ڈالر لگائی گئی ہے۔) Suthe By's کا مدّ مقابل نیلام گھرChristie اس دور میں پیچھے رہنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ وہاں پچاس پچاس قراط وزن کے دو ایسے ہیرے ہیں جن کی قیمت کا اندازہ 30 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ ابھی صرف چھ ماہ گزرے ہیں جب اس نیلام گھر نے 14.62 قیراط کاOppenheimer Blue نامی ہیرا 39.5 ملین ڈالرکا فروخت کیا تھا۔ مگر عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا اعزاز پچھلے سال ہانگ کانگ کے ایک ارب پتی سوداگرJoseph Lau نے 12.03 قیراط کا مقابلتاً چھوٹا ہیرا 48.04 ملین ڈالر کا خریدا۔ ہیرے کا نام Blue Moon تھا (اب آپ کو کالم کے عنوان میں چاند اور جواہرات کے الفاظ میں رشتہ کا پتہ چل گیا ہوگا۔) یہ ہیرا بھی تاریخی پس منظر کا مالک تھا چونکہ نپولین کی داشتہ (داشتہ نما بیوی یا بیوی نما داشتہ) کے ذاتی خزانے میں سب سے نمایاں مقام رکھتا تھا۔ کالم ختم کرتے ہوئے میں بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر کے جذبہ محبت کو سلام کروں گا کہ اُن کی رفیقہ حیات نے وفات پائی تو اُن کے ہاتھ کی ایک انگلی پر پہنی ہوئی انگوٹھی میں لگے ہوئے ہیرے کی قیمت پانچ لاکھ پائونڈ (قریباً سات کروڑ پائونڈ) تھی۔ اُنہوں نے تجہیز و تکفین کرنے والوںکو سختی سے ہدایت کی کہ یہ انگوٹھی نہ اُتاری جائے اور اُن کے ساتھ دفن کی جائے۔ یہ تھا مرحومہ کی خدمت گزاری اور وفا شعاری کا وہ اعتراف جس کی عصر حاضر میں مثال نہیں ملتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں