غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

آئیے آج ہم وسطی ایشیا چلیں۔ وہی خطہ جہاں سے صدیوں قبل بابر آیا تھا اور پھر واپس نہ گیا۔ میں آپ کو جہاں لے جانا چاہتا ہوں وہاں ان دنوں سخت سردی ہے۔ شمالی پاکستان کی طرح کوہ ہمالیہ کے دونوں طرف یخ بستہ ہوائیں چل رہی ہیں۔ روئی کے گالوں اور فاختہ کے پروں کی طرح نرم برف آبشار کی طرح نہ نظر آنے والے آسمان سے گر رہی ہے۔ موسم گرما میں صحرائوں سے لے کر موسم سرما میں بلند و بالا پہاڑی علاقوں تک‘ درجہ حرارت کچھ بھی ہو‘ زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ لاکھوں‘ کروڑوں انسان روزی کمانے میں جُتے رہتے ہیں۔ اگر آپ ظہیرالدین بابر کی طرح ہوں‘ جسے نہ اپنے گھر (فرغانہ وادی) میں تخت نشینی نصیب ہوئی اور نہ پڑوسی ملک (افغانستان) میں تو پھر آپ کو بھاگ کر‘ ہندوستانی فوج کو شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھنے کا کٹھن کام کرنا پڑے گا۔ پانی پت کی لڑائی کے دوران پہلے مغل بادشاہ (بابر) کو غالباً یہ خیال تو کئی بار آیا ہو گا کہ اگر میں آرام سے اپنی خوبصورت وادی میں بیٹھا (یا لیٹا) رہتا تو بچا رہتا۔ بابر خوش نصیب تھا کہ اُسے ہندوستان کا تخت مل گیا ورنہ زیادہ امکان اس بات کا تھا کہ اُسے تختہ نصیب ہوتا اور آج ہم اُس کے نام سے بھی واقف نہ ہوتے۔ اگر آپ نے ابھی تک بابر کی لکھی ہوئی خود نوشت (تزکِ بابری) نہیں پڑھی تو میری سفارش پر پڑھ لیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ بابر کتنا شاندار شخص تھا۔ ایک مکمل ہمہ جہتی شخصیت‘ باغ و بہار شخصیت۔ ہندوستان میں ٹھنڈا پانی (اسی وجہ سے خوشاب کو اس کا نام ملا) اچھے پھل اور خوبصورت پھولوں کو تلاش کرنے والا۔ کاش کہ مغلیہ سلطنت عوام دوست ہوتی۔ ماسوائے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے اور مغربی ہندوستان میں رنجیت سنگھ کے زیرنگین علاقوں کے عوام کے‘ جو برطانوی راج کے سیلاب کے آگے بند باندھ کر بہادرانہ مزاحمت کرتے رہے‘ کوئی عوام دوست نہ تھا۔
پچاس کی دہائی میں‘ جب میں گورنمنٹ کالج لائل پور (موجودہ فیصل آباد) پڑھتا تھا تو‘ میرے بہت سے ہم عصر طلبا (اور یونین کے انتخابات میں مجھے ووٹ دینے والوں) میں سے ایک کا نام مختار تھا۔ اُس وقت سے پندرہ برس بعد برطانیہ پناہ گزین بن کر آیا تو اپنے مرحوم ماموں احسان صاحب کی وجہ سے مانچسٹر ڈیرہ لگایا۔ موسلادھار بارش ہو رہی تھی (نصف صدی گزر گئی مگر بارش ابھی تک نہیں تھمی) اس لئے گھر دبکا رہا۔ تھوڑی دیر کے لئے دھوپ نکلی تو قریبی پارک کی سیر کرنے نکلا۔ آرام کرنے جس بنچ پر بیٹھا وہاں مختار پہلے سے براجمان تھا اور لگتا تھا کہ میرا انتظار کر رہا ہے۔ میں شمالی برطانیہ سے جنوب کی طرف منتقل ہوا تو مختار نے بھی ایسا ہی کیا۔ اب وہ شمالی لندن میں رہتا ہے اور ان دنوں (بڑھاپے میں حملہ آور ہونے والی) بیماریوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ میں اور میرے اہل خانہ مسز مختار کو آپا جی کہتے ہیں۔ اُن کا بھائی (ہارون) ایک عرصہ سے تاشقند میں آباد ہے۔ سات سال پہلے وہاں ہمارا میزبان بنا اور ہمارے لئے (فیصل اور اُس کے والدین کے لئے) آنکھیں بچھا دیں۔ اُس نے ہمیں نہ صرف تاشقند بلکہ بخارا (جہاں احادیث تالیف کرنے والے امام بخاری اور صوفی سلسلہ نقشبندیہ کے بانی کے مزار ہیں) اور امیر تیمور والے سمرقند کی سیر کرائی۔ میں اُس کا ہمیشہ احسان مند رہوں گا کہ اُس کی بدولت ہم نے اُزبکستان کو اتنی اچھی طرح دیکھ لیا۔ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں پھر بخارا جانے اور مذکورہ بالا دونوں بزرگانِ عظیم کے مزاروں پر حاضری دینے کا موقع دے (اور میرے قارئین کو بھی)۔ ظہیرالدین بابر کی وادی (فرغانہ) اب مملکت اُزبکستان کا حصہ ہے۔ مقامی زبان کے کتنے ہی الفاظ مغل حملہ آوروں کے ساتھ سفر کرتے کرتے ہندوستان جا پہنچے اور اُردو کا حصہ بن گئے۔ قدم قدم پر حیرانی ہوتی ہے اور ایک خصوصی خوشی بھی۔ اپنائیت اور یگانگت کے احساس سے۔ جب ہم تاشقند پہنچے تو وہاں Islam Karimov کی آمرانہ حکومت اپنے عروج پر تھی‘ جو 1991 ء میں سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد برسر اقتدار آئی تھی۔ اس سال موصوف نے بصد مشکل وفات پائی۔ بے بس‘ بے زبان اور برُی طرح جکڑے ہوئے اور کچلے ہوئے عوام نے سکھ کا ایک ہی سانس لیا تھا کہ مرحوم کا وزیر اعظمMirza Shaukat Yoyev لپک کر اُن کی گدی پر جا بیٹھا۔ ووٹ دینے کا حق ایک کروڑ اسی لاکھ لوگوں کے پاس تھا۔ 88.6 فیصد ووٹ جیتنے والے کو ملے۔ لوگوں کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کے لئے تین نقلی اُمیدوار بھی کھڑے کئے گئے۔ (1965ء میں اُس وقت کے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے بھی یہ گھٹیا حربہ استعمال کیا تھا) وفات پا جانے والے صدر کے بعد
ایک سیاسی قیدی (Samandar Kukanov)کو 23سالوں کی قید کے بعد رہا کیا گیا تو اُفق پر روشنی کی ایک مدہم سی لکیر اُبھری۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے ساری دُنیا کو خبردارکیا ہے کہ وہ اس داغ دار اُجالے اور شب گزیدہ سمر پر زیادہ خوش نہ ہوں۔ ابھی تک اُس ملک کی جیلوں میں ہزاروں سیاسی قیدی سالہا سال سے گل سڑ رہے ہیں‘ اور مستقبل قریب میں اُن کی رہائی کا کوئی امکان نہیں۔ کئی سال ہوئے لندن میں اُزبکستان کے سفارت خانہ نے اپنے قومی دن پر ہونے والے جشن کی تقریب میں مجھے بھی بلایا تھا۔ یہ اُسی طرح کی تھکا دینے والی تقریب تھی جیسے ہر سرکاری تقریب ہوتی ہے‘ مگر مجھے ساری زندگی میں جو تین خواتین سب سے خوبصورت اور دلکش لگیں‘ اُن میں پہلی جے پور کی مہارانی۔ دُوسری نور جہاں کی بیٹی ظلِ ہما اور تیسری ازبکستان کے مرحوم صدر کی بیٹی گل نارا تھی۔ محض اُس کی چمک سے ایک تھکا دینے والی خواب آور سرکاری تقریب میں زندگی‘ حسن اور خوشبو کی لہریں دوڑ گئیں۔ غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق جب وہ اپنے باپ کی جانشینی کی اندرونِ خانہ جنگ میں ناکام ہو گئی تو اُسے وزیر اعظم (جو یہ جنگ جیت گیا) کے ایما پر ہلاک کر دیا گیا۔ گل نارا نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ وہ اپنی والدہ (Tatyana) اور چھوٹی بہن (Lola) سے برسر عام لڑ پڑی۔ بے چاری گل نارا (لگتا ہے کہ میں اُس کا اکیلا حامی ہوں) کو اُردو سے زیادہ شدبد نہ تھی ورنہ وہ اس محاورے سے واقف ہوتی کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ بدستور خیر خیریت سے زندگی گزارتی۔ گل نارا کا بیٹا لندن میں زیر تعلیم ہے۔ اُس کی معلومات کے مطابق اُس کی والدہ کے قتل کی افواہیں بے بنیاد ہیں‘ وہ صرف اپنے محل میں نظر بند ہیں اور غالباً بہت عرصہ رہا نہ ہو سکیں گی۔
آج کا کالم بھی اقبال کی ایک شعر کے دُوسرے مصرع سے لیا گیا ہے۔ سلیس زبان میں اس کا یہ مطلب ہے کہ غلامی کا مطلب صرف آہنی زنجیریں نہیں ہوتا‘ وہ ذہنی رویوں‘ ہوس کے طریقوں اور اخلاقی اقدار کی کمزوری یا غیر حاضری کا نام ہے۔ 70 سالوں کی غلامی نے سارے وسطی ایشیا (بشمول ازبکستان) کی آنے والی نسلوں کا ذہن اس حد تک متاثر کر دیا (جیسے صدیوں کے غیر ملکی راج نے ہمارا حلیہ بگاڑ دیا) کہ اب وہاں کے لوگ آزادی کے تصور اور مفہوم سے ناآشنا ہیں۔ اب وہ 25 سالوں سے اس طرح کے آمرانہ نظام کی بے رحم چکی میں پس رہے ہیں‘ جو اُنہیں لہنگاپور کی خوشحالی کا عشر عشیر بھی نہیں دے سکی۔ اُنہیں کیا ملا؟ غربت‘ بے حساب اور چار سُو غربت۔ سرکاری جبر و تشدد۔ شہری حقوق کا مکمل فقدان۔ احتساب اور شفافیت کے برعکس نظام۔ ہر سطح پر بدعنوانی اور اختیارات کا غلط استعمال۔ حکمران طبقہ کی بے حد و حساب کرپشن۔ عوام کی بیزاری کا بہتا ہوا دریا۔ نہ خوشی‘ نہ خوشحالی۔ عوام کی اکثریت خطِ غربت کے بالکل قریب زندہ رہنے کی جدوجہد میں سال کے 365 دن صبح سے شام تک جانوروں کی طرح جُتی رہتی ہے۔ جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے اگر وہ آزادی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تو قابل معافی ہیں اور ہمدردی کے حقدار بھی۔
میرے جو قارئین نیم حبشی‘ نیم فرانسیسی دانشور فرانزنستان کی لکھی ہوئی کمال کی کتاب The Wretched of the Earth سے یا جناب سجاد باقر رضوی صاحب کا لکھا ہوا بلند پایہ ترجمہ (افتادگانِ خاک) پڑھ چکے ہیں‘ وہ اس نقطہ نظر سے بخوبی واقف ہوں گے کہ جس طرح سالہا سال پنجرے میں رہنے والا پرندہ قوتِ پرواز کھو بیٹھتا ہے‘ اسی طرح صدیوں سے محکوم رہنے والی قوم کی خوئے غلامی اتنی پختہ ہو جاتی ہے کہ وہ ذہنی طور پر اس قابل نہیں رہتی کہ ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہونے کے تقاضے پورے کر سکے۔ اقبال نے اس شاہین کو جو کرگسوں (گِدھوں اور کوّوں) کے درمیان پل کر جوان ہوا ہو‘ فریب خوردہ شاہین ہونے کا طعنہ بجا طور پر دیا ہے۔ اقبال نے اس شعر کے دوسرے مصرع میں لکھا کہ اُس بے چارے کو کیا خبر کہ راہ رسمِ شاہبازی کیا ہوتی ہے؟
آخر میں اس کالم کے قارئین سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ میرے اس موقف کو پڑھ کر اس کی سچائی پر غور فرمائیں کہ کیا یہ تکلیف دہ بات سچ نہیں کہ 1947ء میں برطانوی راج کے قانوناً اور Technical خاتمہ کے بعد پاکستان کے متوسط اور حکمران طبقہ کی خوئے غلامی (پہلے کے مقابلہ میں) کئی درجہ بڑھ گئی ہے۔ یہ ہے وہ سچائی جو ہمارے قومی اور اجتماعی امراض کی ذمہ دار ہے۔ اُن زنجیروں اور ہتھکڑیوں کو توڑنا زیادہ مشکل ہوتا ہے جو نظر نہیں آتیں۔ ہم یہ معرکہ سر کریں تو کیونکر؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں