اقبال کے شاہین کی لمبی پرواز

یہ ممکن نہیں کہ شمالی پنجاب کے شہری متوسط طبقے کا ایک پڑھا لکھا شخص شاہین کا لفظ پڑھے یا اس کی تصویر دیکھے تو اُس کے ذہن میں فوراً شاعر مشرق علامہ اقبال کے اشعار نہ آئیں۔۔۔۔ آبشار کی پھوار کی طرح، گھاس کے مخملی فرش پر گرنے والی شبنم کی طرح، صحرا میں چلنے والی باد نسیم کی طرح! مگر جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور پختونخوا کے پڑھے لکھے لوگوں (اور وُہ خوش نصیب جو زیور علم سے آراستہ ہونے سے بچ گئے)کا ذہن نظریات، تصورات، خواب و خیال کی دُنیا اور Sensibilities شمالی پنجاب کے لوگوں سے جداگانہ و منفرد ہیں اور ہونی بھی چاہئیں۔ اقبال کے اشعار نے ہمیں شاہین سے متعارف کرایا۔ میرے پاس شواہد تو نہیں مگر پورے نہیں تو آدھے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اقبال نے شاید اپنی زندگی میں جیتا جاگتا اور آن بان سے اُڑتا ہوا شاہین کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ شاہین سے متعارف ہوئے تو کب اور کس طرح؟ ایک امکان یہ ہے کہ اقبال کئی سال جرمنی میں زیر تعلیم رہے۔ اُنہوں نے وہاں کی ایک بہترین یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اعلیٰ درجے کا تحقیقی مقالہ (ایران میں مابعد الطبعیات فلسفہ کے دقیق موضوع پر) انگریزی زبان میں لکھا مگر زبانی امتحان جرمن زبان میں دیا۔ لاہور میں میرے دستِ راست عروج احمد صاحب کی دی گئی معلومات کے مطابق اقبال کے سرپرست پروفیسر آرنلڈ نے اپنے ہونہار شاگرد کو انگریزی میں مقالہ لکھنے کی رعایت لے کر دی تھی۔ 
اپنے قارئین کو دعوت مداخلت دے کر ہم اگے بڑھتے ہیں۔ جرمنی کے سرکاری نشان میں ایک شاندار عقاب بیٹھا نظر آتا ہے۔ عقاب کی تصویر کو جرمن پارلیمنٹ میں وُہی مقام حاصل ہے جو ہماری پارلیمنٹ میں قائداعظم کی تصویر کو۔ عقاب جتنی بھی خوبیوں کا مالک ہو وہ اپنی تصویر کے کاپی رائٹ کے قانون سے واقف ہونے کا دعویٰ ہر گز نہیں کر سکتا۔ اگر ہوتا تو بے حد و حساب دولت کما سکتا تھا۔ جرمن حکومت کو ہی عقابی تصویر کی اشاعت کا اتنا زیادہ معاوضہ ادا کرنا پڑتا کہ اُسے نانی یاد آجاتی۔ مگر رقم موصول کرنے والا پرندہ شاہین کی بجائے شاہ عالمی بازار لاہور کا ایک دکاندار بن جاتا اور ظاہر ہے کہ وہ شاہین (جو آشیاں بندی کو بھیکسر شان سمجھتا ہے) اتنی نچلی سطح پر نہیں اُتر سکتا۔ آپ چاہے جو کر لیں، اس پرندے کو قصر سلطانی کے گنبد پر بیٹھ جانے پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہیرو کا نام اقبال ہے اور اقبال کے ہیرو کا نام ہے شاہین۔
آج آپ ذرا اپنا تخیل کھلا چھوڑ دیں۔ اگر تقریباً سو سال پہلے لاہور کے ایک عام سے مکان کی سادہ سی بیٹھک میں چارپائی (پلنگ نہیں چارپائی) پر دراز، تہبند اور بنیان ( وہ بھی سوراخ دار) پہنے ہوئے، حقہ نوشی کرتے ہوئے، آنکھیں بند کر کے لیٹے ہوئے سوچ و بچار میں گم بلند مرتبہ درویش صفت شخصیت کو یہ خیال آجاتا کہ میں اپنی شاعری میں جس پرندے کا بار بار ذکر کرتا ہوں، میں نے تو آج تک اُسے دیکھا ہی نہیں، چلو اب یہ کام بھی کر لیتے ہیں، تو وہ شخص کہاں جاتا؟ کدھر کا رُخ کرتا؟ اگر یہ کالم نگار یا قارئین میں سے کوئی خوش قسمتی سے اقبال کا ہم عصر ہوتا تو وہ اُنہیں براستہ چین یا روس شمال مشرقی ایشیا کے ایک لق و دق کوہستانی ملک منگولیا جانے کا مشورہ دیتا چونکہ وہاں شاہین اتنی بہتات سے ہیں کہ ان کے میزبان اپنے معزز مہمان کی اس معزز پرندے سے ملاقات کا اہتمام بآسانی کر لیتے۔ 
مناسب ہوگا کہ آپ کا شاہینوں کے قبیلہ کے سردار اور اُس کے مسکن دونوں سے مختصر تعارف کرایا جائے۔ آج ہم جس ملک کو منگولیا کہتے ہیں وہ دراصل Outer Mongolia ہے۔ اس کا دُوسرا حصہ (Inner Mongolia) چین کا حصہ بن چکا ہے۔ تیرہویں صدی کے وسط میں چنگیز خان نے ایک دُوسرے سے سارا وقت لڑنے والے قبائل کو بزور شمشیر ایک قوم بنا دیا۔ قراقرم نامی دارالحکومت سے منگولوں کی عسکری فتوحات کا ایسا سیلاب شروع ہوا، جس نے 1260ء تک مشرق وسطی، چین اور یورپ کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خون کی ندیاں بہا کر اور انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا کر ترک عناصر کی آمیزش سے نام تبدیل کر کے تاتاری بن گیا۔ چودہویں صدی میں تیمور لنگ(Tamer Lane) نے ایک بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 1382ء میں چین سے منگولوںکے اخراج کے بعد ان کی وسیع و عریض سلطنت کا زوال شروع ہوگیا۔1691ء سے لے کر 1911ء تک (جب چین میں Qing بادشاہت ختم ہوئی) منگولیا پر چین کا تسلط رہا۔ ملک کا رقبہ ساڑھے چھ لاکھ مربع میل اور کل آبادی صرف 30 لاکھ (لاہور سے تقریباً ایک تہائی) ملک کا بیشتر حصہ اتنا پہاڑی کہ پانچ ہزار فٹ سے زیادہ اونچا مگر جنوب مشرق میں وسیع و عریض گوبی نامی صحرا۔ قیمتی معدنیات کی دریافت نے اس ملک کو بڑا بنا امیر دیا ہے مگر آج بھی آبادی کی اکثریت کا سو پشت سے پیشہ گلہ بانی ہے۔ یعنی بھیڑوں، بکریوں، گھوڑوں، اُونٹوں سے لے کر Yak تک کو پالنا اور بطور جنس فروخت کرنا۔ دارالحکومت کا نام اتنا انوکھا ہے کہ آپ کو ضرور بتانا چاہیے اور وہ ہے Ulan Bator ۔ اس ملک کو اشتراکی نظام بہت راس آیا جس کی بدولت اس نے کمال کی ترقی کی اور صدیوں کا سفر عشروں میں طے کیا۔
اب ہم عقابوں کی طر ف چلتے ہیں جو کئی قسموں کے ہیں مگر خاندانی عقاب کی یہ پہچان ہے کہ اس کی ٹانگیں بھی بالوں سے ڈھکی ہوتی ہیں۔ اقبال غالباً جس شاہین کی اعلیٰ صفات بیان کرتے ہیں وہ سنہری عقاب کہلاتا ہے جو جسامت کے اعتبار سے اپنے نزدیکی اور دُور کے رشتہ داروں میں سب سے بڑا ہوتا ہے۔ جسمانی لمبائی ڈھائی فٹ اور جب اُڑے تو پروں کی کل لمبائی چھ فٹ۔ شکار اور مار دھاڑ موصوف کا واحد مشغلہ ہی نہیں زندہ رہنے کا اور اپنی خوراک حاصل کرنے کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ ایک طرف منگولیا کے ایک دُور افتادہ پہاڑی مقام پر ایک چٹان پر کھڑی سُرخ گالوں والی تیرہ سالہ لڑکی کے بازو پر پھڑ پھڑاتا ہوا عقاب، دوسری طرف سات سمندر پار نیو یارک کی ایک مصروف سڑک پر بلند و بالا عمارت کی ساتویں منزل کے ساتویں کمرہ میں بیٹھا ہوا 35 سالہ Ottr Bell، نہ کام نہ کاج، وقت گزاری کے لئے Web پر دُنیا بھر کی تصاویر دیکھ رہا تھا۔ اچانک اور اتفاقاً اُسے مذکورہ تصویر کیا نظر آئی، اُس کی زندگی کا رُخ بدل گیا۔ دُنیا بھر میں رقبہ کے حساب سے سب سے کم آبادی والے ملک کے Altai نامی پہاڑوں پر ایک بچی کا اپنے پالتو عقاب کے ساتھ خوش وقتی کا منظر اُسے ایسے بھایا کہ اس موضوع پر ایک گم نام فلمساز کی بنائی ہوئی دستاویزی فلم وسط دسمبر میں امریکہ اور برطانیہ کے سنیما گھروں میں بڑے ذوق و شوق سے دیکھی جا رہی ہے۔ بچی کانام ہے Al-shorpan ۔ اُس کا قبیلہ جنگلی عقابوں کو پکڑ کر شکار کے لئے سدھانے کا فن صدیوں سے جانتا ہے۔ ہر سال شکاریوں کے مقابلے ہوتے ہیں جن میں صرف مرد حصہ لیتے ہیں۔ مذکورہ بچی نہ صرف اس مقابلے میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے بلکہ اُس کی کامیابی کے امکانات اتنے روشن ہیں کہ وہاں کے بڑے بوڑھوں نے عقابوں کی شکاری صلاحیتوں کے مقابلہ میں ایک لڑکی کی شرکت کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور کھلم کھلا کہا ہے کہ لڑکیوں کا کام گھر کے اندر رہنا اور گھر گرہستی کا کام کاج سیکھنا ہوتا ہے۔ اُنہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ مردانہ مشاغل اپنائیں۔
اہل منگولیا شکار کے لئے مادہ عقاب کو ترجیح دیتے ہیں چونکہ اُن کا حجم زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ یہ بچی کافی عرصہ (اپنے والد کی ٹوٹی ہوئی دوربین کے ذریعہ) ایک عقاب کے گھونسلہ کا جائزہ لیتی رہی۔ یہ مرحلہ طے ہوا تو وہ وہ اپنی کمر کو ایک مضبوط رسی سے باندھ کر ایک عمودی چٹان سے نیچے اُتر کر گھونسلہ کا قریب سے مشاہدہ کرنے لگی۔ جب عقابی بچے کے اغوا کی واردات آخری مرحلہ تک پہنچی تو بچے کی ماں غصے کے عالم میں ملزمہ کے اردگرد منڈلانے لگی۔ آخر کار بچی اپنی پر خطر مہم میں کامیاب رہی۔ اس کامیابی پر سب سے زیادہ فخر بچی کے باپ کو ہے جس نے قدم قدم پر اپنی بہادر بیٹی کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ خود شکاری عقابوںکا مقابلہ دو بار جیت چکا ہے اور اب اُسی مبارک دن کا منتظر ہے جب یہ اعزاز اُس کی بیٹی کو ملے گا۔
امریکی فلمساز کے خیال میں فلم بندی کا جو کام تین دن میں مکمل ہو جانا تھا، اُس نے تین ہفتے لیے۔ درجہ حرارت (بلکہ درجہ انجماد) صفر سے پچاس درجہ کم (50) مگر عقاب پالنے والی لڑکی نے فلم میں بہترین کردار ادا کیا۔ کسی قسم کی گھبراہٹ کے بغیر وہ کئی فٹ گہری برف میں دس کلو گرام کا وزنی عقاب اپنے بازو پر بٹھا کر ادھر اُدھر بھاگتی نظر آتی ہے۔ فلمساز اس وجہ سے بھی اپنی فلم کی باکس آفس پر کامیابی سے خوش ہے کہ یہ فلم منگولیا میں سیاحت کو فروغ دے گی۔ عقاب پرور بیٹی اور اُس کا سارا گھرانہ اس سال امریکہ جانے کا منصوبہ بنا ہا ہے تاکہ فلم ساز کی شادی کی تقریب میں شریک ہو سکے۔ آپ ذرا سوچیے کہاں منگولیا کے ویران پہاڑوں پر خیموں میں رہنے والے اور عقابوں کی مدد سے شکار کر کے اپنا رزق حاصل کرنے والے اور کہاں نیویارک کے کسی شاندار ہوٹل میں ہونے والی زرق برق تقریب میں شرکت اور عالمی شہرت کے فلمی ستاروں سے قربت۔ اس فلم نے ہماری نو خیز ہیروئن کو منگولیا کے بہترین سکول کا داخلہ اور وظیفہ دلوا دیا جو اُس کے بچپن کاخواب ( ڈاکٹر بننے کا) پورا کرنے کی طرف ایک بڑا قدم ثابت ہوگا۔ ہم اس سے کیا سبق سیکھیں؟ آپ اُونچی فضائوں میں اُڑنے والے عقاب کو اپنے بازو پر شوق سے بٹھائیں مگر اپنے پائوں مضبوطی سے زمین پر جمائے رکھیں ورنہ آپ اپنا توازن کھو بیٹھیں گے اور آپ کا ہاتھ باگ پر ہوگا اور نہ پائوں رکاب میں۔ آپ کا وہی حال، بلکہ وہی حشر ہوگا جو ان دنوں پاکستان کے حکمران سیاسی طبقہ کا ہو رہا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں