علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے

وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کالم کو پڑھنے والا کوئی شخص بھی ایسا نہ ہوگا جس نے مذکورہ بالا حدیث مبارک نہ سنی ہو۔ مجھے مان لینا چاہئے کہ اپنی آنکھوں سے تو میں نے نہیں پڑھی۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ مجھے ای میل کر کے بتائیں کہ ہم آج کے کالم کا عنوان (مذکورہ بالا حدیث مبارک) کہاں پڑھ سکتے ہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ آنے والے سالوں میں اس کالم کو ایسے گل دستہ کی شکل دی جائے جس میں کالم نگار کے خیالات کے ساتھ ساتھ اُس کے کالم کے پڑھنے والوں کی رائے اور اُن کے تبصرے بھی پھولوں کی شکل میں اس میں شامل ہوتے جائیں۔ 
1815 ء میں (دوسو دو سال پہلے) ایرانی طلباء چین اس لئے نہ گئے کہ وہ اس وقت زوال پذیر تھا اور وہاں علم کا چراغ ایک عرصہ ٹمٹمانے کے بعد قریباً بجھ چکا تھا۔ ان چھ ایرانی طلباء نے مشرق کی بجائے مغرب کا سفر کیا اور برطانیہ میں کافی سال رہے اور یہاں سے بہت کچھ سیکھا۔
ایران کے ولی عہد عباس میرزا نے ان طالب علموں کی سرپرستی کی اور اُن کی خواہش تھی کہ وہ ایک اُبھرتی ہوئی صنعتی طاقت کی ترقی سے جڑے ہوئے علوم (مثلاً انجینئرنگ) سیکھ کر آئیں اور اہل وطن کو سکھائیں۔ ایک طالب علم نے برطانیہ میں قیام کے دوران نہ صرف سائنسی مضامین پڑھے بلکہ اپنے قیام کی یاد داشتیں بھی مرتب کیں وہ ایک امریکی دانشور اور محقق Nile Green کو مل گئیں تو (فارسی زبان پر عبور کی وجہ سے) اُسے اس دلچسپ سفر نامہ میں لکھی ہوئی معلومات کی بنیاد پر ایک اور اچھی کتاب لکھنے کا مواد مل گیا۔ اس کی نئی کتاب کا نام ''اجنبی لوگوں سے محبت کا رشتہ‘‘ (The Love of Strangers) 416 صفحات کی کتاب امریکہ کی نہیں بلکہ دنیا کی بہترین درسگاہوں میں سے ایک Princeton University نے شائع کی ہے اور امریکہ کے حساب سے بڑی مناسب قیمت فروخت (صرف 35 ڈالر) مقرر کی ہے۔ کرسمس آئے تو سارے یورپ میں قیمتوں میں نمایاں کمی کرنے (جسے عرف عام میں Sale کہتے ہیں) اور فروخت کو کئی گنا بڑھانے کا رواج اس قدر پختہ اور پائیدار ہو چکا ہے کہ لندن کی شہرہ آفاق دُکانوں (مثلاً Harrods، Selfridges اور Debenham ) کے باہر فٹ پاتھ پر لوگ سخت سردی کے باوجود رات گزارتے ہیں تاکہ صبح جب دُکان کے دروازے کھلیں تو وہ گاہکوں کی قطار میں اتنے پیچھے نہ رہ جائیں کہ جب وہ ناقابل بیان افراتفری اور بھیڑ بھاڑ اور ہنگامہ کی حالت میں اپنی پسندیدہ دکان کے اندر مطلوبہ چیز فروخت کرنے والے کا ئونٹر تک پہنچیں تو یہ خبر اُن پر بجلی بن کر گرے کہ کم (یا بہت کم) قیمت پر فروخت ہونے والے مال تو اُن سے پہلے پہنچنے والے لوگ لے کر گھر جا چکے ہیں۔ میرا مذکورہ بالا تمہید کا مقصد یہ ہے کہ میں آپ کو بتا سکوں کہ میرا ان کتابوں سے تعارف کہاں اور کن حالات میں اور کب ہوا؟
دوسوسال پہلے برطانیہ میں Jane Austen نامی خاتون نے Pride and Prejudice کے نام سے کمال کا ناول لکھا۔ (جناب شاہد حمید نے تکبر اور تعصب کے نام سے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ اسے آکسفورڈ یونیورسٹی نے شائع کیا تو میں نے اس ادارہ کی سربراہ محترمہ امینہ سید کو شکریہ کا اچھا سا کارڈ بھیجا)۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا کتاب کے نام کے نیچے ایک اور سطر کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ''چھ مسلمان طلباء نے جین آسٹن کے لندن میں کیا دیکھا۔‘‘ دو سال کی بات ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو یورپ کے علمی حلقوں میں اس وجہ سے بڑی پذیرائی ملی کہ اُس نے عالم اسلام کے بدلتے ہوئے منظر نامہ پر Terrains of Exchange کے نام سے بڑی تجزیاتی اور تحقیقی کتاب لکھی۔ جس میں یہ بیان کیا گیا کہ اب مشرق و مغرب کے درمیان پرانی دیواریں اور فصلیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔ قدیم خندقوں میں مفاہمت اور بقائے باہم کا پانی بھر گیا تو وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ اب مغربی ممالک میں مشرقی ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد پچاس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یورپ میں مشرقی موسیقی ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے۔ مشرقی کھانوں سے اہل یورپ کی رغبت نے اسے کروڑوں پائونڈ کا بزنس بنا دیا ہے۔ (پاکستانی )پنجاب کے برعکس برطانیہ کے درجنوں سکولوں میں پنجابی پڑھائی جاتی ہے۔ فرانس میں ہر سال ہزاروں طلباء نہ صرف عربی پڑھنا بلکہ عربی زبان بولنا سیکھتے ہیں۔ مغربی یورپ کی کوئی بھی ایسی اچھی درسگاہ نہیں جہاں مشرقی زبانیں اور فلسفہ اور تاریخ نہ پڑھائی جائے۔ اگر تمام اسلامی ممالک میں شائع ہونے والی عالمانہ کتابوں کو ہر سال اکٹھا کیا جائے تو وہ مل کر بھی ہالینڈ کے اُس چھوٹے سے قصبہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے جہاں بے مثال اور بلند پایہ اور مستند اسلامی انسائیکلوپیڈیا کو شائع کرنے والا ادارہ کام کرتا ہے اور ہر سال اُس میں اضافے (Update)اور ترامیم کا ضروری کام بھی۔ Tudor بادشاہ ہنری ہشتم کے زمانہ میں برطانیہ نے نہ صرف رومن کیتھولک عقیدہ کو خیر باد کہا بلکہ Protestant نام سے ایک نیا سرکاری مذہبAnglican Church کو اپنا لیا جس کی رُو سے برطانیہ کا بادشاہ (یا ملکہ) ہی اس عقیدہ کے پیرو کاروں کا سربراہ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں یہ نظام آئینی اعتبار سے ہماری تاریخ کے خلفائے راشدین کے عہدسے ملتا جلتا ہے مگر آپ یہ نہ سمجھیں کہ سارا Protestant عقیدہ Anglican Church تک محدود ہے۔ اس کی اور بھی شاخیں ہیں۔ ایک ایرانی طالب علم کے لکھے ہوئے سفر نامہ کے مطابق اُسے جن تین بڑی شاخوں کے پیرو کاروں سے تفصیلی ملاقات اور گھل مل جانے کا موقع ملا۔ ان کے نام ہیں۔ Unitarians/ Quakers/ Methodist خود نوشت لکھنے والے صالح نوجوان اور اُس کے ساتھیوں کو سب سے زیادہ اول الذکر پسند آئے چونکہ وہ عام عیسائیوں کے برعکس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صرف پیغمبر مانتے ہیں اور اُنہیں کوئی ایسا روحانی درجہ نہیں دیتے جو اُنہیں دُوسرے پیغمبروں سے ممتاز کر دے۔ Quakers کا اصل اور سرکاری نام Religious Society of Friends ہے اس کے بانی کا نام جارج فاکس تھا۔ اس فرقہ نے 17ویں صدی میں برطانیہ میں جنم لیا۔ اس کے پیرو کار گرجا گھروں کی عبادت میں شریک نہیں ہوتے۔نہ ہی اس کے احتماعات میں انجیل مقدس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ عبادت گزار خاموشی سے اور دل ہی دل میں آیات پڑھتے ہیں اور یُسوع مسیح کی مقدس روح کی برکت سے اپنے دل و دماغ کو روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ عدالت میں جائیں تو اُن کا عقیدہ اُنہیں خدائے ذوالجلال کے نام کی قسم اُٹھانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اُن کے لئے ہتھیار رکھنا اور ہتھیار استعمال کرنا سختی سے ممنوع ہے۔ اس لئے وہ کسی جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ جب بھی جبری بھرتی ہوئی ان لوگوں نے وردی پہننے سے انکار کر دیا اور اس کی سزا (جرمانہ یا قید کی صورت میں) بخوشی بھگتی۔ اس فرقہ میں کوئی شخص پادری نہیں ہوتا۔ اس فرقہ نے برطانیہ میں تعلیم اور سماجی خدمت کے ہر شعبہ میں شاندار عملی کام کئے ہیں۔ انسان دوستی اُن کے ایمان کا بنیادی جزو ہے اور آج وہی یورپ میں سیاسی پناہ گزینوں اورمہاجرین کے بہترین دوست ہیں۔ برطانیہ میں ایک وقت ایسا آیا کہ اس فرقہ کے لئے یہاں زندہ رہنا مشکل ہو گیا۔ تو Williams Penn کی سربراہی میں اس کے بہت سے پیرو کار امریکہ نقل مکانی کر گئے جہاں وہ بڑی تعداد میں امریکہ کی سب سے چھوٹی ریاست Rhode Island اور ملحقہ ریاست Pennsylvania میں رہتے ہیں۔ ان کے عقائد کے پیش نظر یہ نتیجہ نکالنا زیادہ مشکل کام نہیں کہ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات میں ان لوگوں نے Trump کو ووٹ نہیں دیئے ہوں گے۔ یقینا ہمارے وطن میں بھی وہ مبارک دن ضرور آئے گا۔ جب عوام کے اخلاقی معیار اور اخلاقی قدریں اُن کی سیاسی مصلحتوں پر غالب آجائیں گی اور ہم موجودہ دلدل سے نکل آئیں گے جس میں (بقول ٹالسٹائی) قیدیوں کو صرف اتنا حق دیا جاتا ہے کہ وہ اپنا نیا جیلر چن سکتے ہیں۔ نام نہاد آزادی کے 70 سال گزر گئے۔ مگر ہمارے عوام رعایا سے شہری کب بنیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں