کھول آنکھ اور فضا دیکھ

بانگ درا میں اقبال کی ایک کمال کی نظم کے پہلے شعر (مطلع) کے پہلے مصرع کا آدھا حصہ آج کے کالم کا عنوان بنا۔ (باقی آدھے حصہ کا تعلق زمین اور فلک دیکھنے سے ہے) اقبال نے آنکھ کھولنے کا مشورہ اس لئے دیا کہ ہم نہ صرف زمین اور فلک اور اُس فلک پر مشرق کی طرف سے اُبھرتے ہوئے سُورج کو دیکھ سکیں۔ جب اقبال نے دیکھا تو اُنہیں پتہ چلا کہ اُن کی قوم نہ زمین کو دیکھتی ہے اور نہ آسمان کو تو اُنہوں نے اس کی وجہ ڈھونڈی۔ پتہ چلا کہ لوگوں کی آنکھیں ہی بند ہیں۔ وہ دیکھیں تو کیونکر؟ اقبال نے بڑا ساد ہ مگر کار آمد اور زود اثر مشورہ دیا کہ بھائی۔ اپنی آنکھیں کھولو اور دیکھو۔ اندھا، بہرا اور گونگا بن جانے سے تو کام نہیں چلے گا۔ اُن کی ذہنی طور پر معذور قوم نے پوری نہیں، آدھی بھی نہیں، زیادہ سے زیادہ ایک چوتھائی آنکھیں کھولیں تو ایک شاندار ملک حاصل کر لیا۔ ملک تو بن گیا مگر وہ جس طرح چل رہا ہے آپ کے سامنے ہے۔ ہمارا ملک بنے صرف 23 سال گزرے تھے کہ وہ ٹوٹ گیا اور وہ بھی اس طرح کہ کئی ہزاروں بے گناہوں کے خون کے دھبے چار سو بکھر گئے۔ اب ہم باقی ماندہ تین چوتھائی آنکھ کھولیں تو باقی ماندہ ملک کو بچائیں۔ اس کالم نگار کی نہ ختم ہونے والی فریاد اس بات سے شروع ہو کر اس بات پر ہی ختم ہو جائے گی۔ ہم نے برطانوی راج سے آزادی حاصل کر کے انگریز (جسے ہم سخت الفاظ میں یاد کرنے سے کبھی نہیں تھکتے) کے بنائے ہوئے تعلیم، صحت، مواصلات اور نظم و نسق کے نظام کو جس طرح تباہ برباد کیا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہ کالم پڑھنے والے اس کے صرف چشم دید گواہ نہیں بلکہ اس ابتری کے شکار بھی ہیں۔ میں ماسوائے اقبال کے مشوہ کو من و عن دُہراتے ہوئے اور کیا کر سکتا ہوں، اسی درخواست پر اکتفا کروں گا کہ بھائی جان! میری نہیں،اقبال کی بات مان لیں اور اپنی تین چوتھائی بند آنکھیں کھولیں۔ زمین تو آپ کو جلد نظر آجائے گی چونکہ آپ کا تعلق اُس بے زبان اور بے بس رعایا سے ہے جو زمین پر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ آپ 70 سال پہلے غیر ملکی راج سے آزاد ہوئے تو آپ نے ضرور سوچا ہوگا کہ اب آپ غلام نہیں رہے بلکہ ایک خود مختار اور آزاد ملک کے شہری بن جانے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ 70 سال گزر گئے۔ ابھی آپ وہ دہلیز عبور نہیں کرسکے۔ بدقسمتی سے آپ کی ساری عمر اُس زمین کو گھور گھور کر اور حسرت سے دیکھنے میں گزر جائے گی جو آپ کو نہ حفظ و امان دے سکتی ہے اور نہ خیر و عافیت۔ ہمارے ملک کے بے چارے عوام کے لئے 65 سال پہلے تیسری دنیا کے سب سے بڑے انقلابی مفکر Franz Fannonنے اُفتادگان خاک کی ترکیب بجا طور پر استعمال کی تھی۔ یہ تو تھا اُس زمین کا قصہ جس کی مٹی میں ہم ایک نہ ایک دن خود مل جاتے ہیں۔ بقول انجیل مقدس Dust to Dust ۔ اب چلتے ہیں اقبال کی مذکورہ بالا شعر کے مطلع کے پانچویں لفظ (فلک) کی طرف جو میں نے جان بوجھ کر کالم کے عنوان سے نکال دیا۔ وجہ؟ فلک ذرا دُورہے۔ جو لوگ زمین کو نہیں دیکھ سکتے۔ وہ بھلا فلک پیمائی کس طرح کریں گے؟ مناسب ہوگا کہ اسے ہم اگلے مرحلہ آنے تک ملتوی کر دیں۔
جب سے ہمارے ہاں اُدھارپر خریدی ہوئی کاروں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، صنعتی ترقی ہوئی ہے، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ہر قسم کی زہریلی گیس ہماری فضا کا جزو لانیفک بن چکی ہے۔ جس قوم کا یہ ایمان ہو کہ زندگی موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں اس میں دخل دینے والے۔ وہ بھلا فضائی آلودگی کو کم کرنے کے غیر شرعی کام کی طرف کیوں توجہ دے؟ظاہر ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے اس کالم نگار کا سارا وقت وطن عزیز کی صورت حال اور آب و ہوا پر سوچنے، لکھنے پڑھنے اور کُڑھنے پر گزر جاتا ہے۔ برطانیہ کے روزنامہ گارڈین (وہ معیاری اخبار جس کا میں اکثر حوالے دیتا ہوں) کا بھلا ہو کہ اُس نے اس جنوری کی اشاعت میں ایک چونکا دینے والی خبر ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے بارے میں شائع کی تو یہ خیال دامنگیر ہوا کہ ہمارے ملک میں فضائی آلودگی کا جائزہ لیا جاتا تو بھارت کے مقابلہ میں ایٹمی قوت بن جانے والا ملک اس میدان میں پیچھے کیوں رہتا؟خلاصہ یہ ہے کہ فضائی آلودگی، بھارت میں ہر سال دس لاکھ افراد کی موت کا باعث بنتی ہے۔ بین الاقوامی تنظیم Green Peace نے رپورٹ شائع کی ہے کہ شمالی ہندوستان میں ایک بھی ایسا شہر نہیں جو فضائی آلودگی سے پاک و صاف رہنے میں بین الاقوامی معیار پر پورا اُترتا ہو۔ بھارت میں فضائی آلودگی نہ صرف ہر سال دس لاکھ افراد کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے بلکہ کل قومی آمدنی میں تین فی صدی کمی کی بھی۔ پچھلے پانچ سالوں میں (2010-2015 ) میں بھارت میں فضائی آلودگی میں13% اضافہ ہوا جبکہ انہی پانچ سالوں میں چین، امریکہ اور یورپ میں فضائی آلودگی 15% سے کم ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فضائی آلودگی کے باعث مرنے والوں کی تعداد تمباکو نوشی سے مرنے والوں کی تعداد کے تقریباً برابر ہے۔ جن 20 شہروں میں اُس ہوا کا جس میں کروڑوں افراد سانس لیتے ہیں۔ تجزیہ کیا گیا ہے تو پتہ چلا کہ وہ دھوئیں، گردو غبار اور کیمیائی عناصر کے زہریلے امتزاج کی وجہ سے صحت کی عالمی تنظیم WHO کے بنائے ہوئے معیار سے کم از کم سو فیصدی زیادہ زہریلی ہے جبکہ دہلی کے قریب غازی آباد کا شہر چار سو فی صد زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ سال نو کے پہلے دن دہلی کی ہائی کورٹ نے حکومت پنجاب کو حکم دیا کہ وہ اپنی ریاست میں فصلوں کو جلانے پر پابندی عائد کرے تاکہ اُن کی وجہ سے دھوئیں کے بادل دہلی کو اپنی لپیٹ میں نہ لیں۔ موضوع کو بدلتے ہوئے اب ہم برما پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جہاں کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے بارے میں اس کالم میں پہلے بھی لکھا جا چکا ہے۔ عام طور پر میں کسی بھی ایسے فرد کی تعریف کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا ہوں اور ہچکچاتا ہوں جو اہل مغرب کی آنکھ کا تارا ہو۔ مشتبہ افراد کی اس فہرست میں ملالہ یوسف زئی بھی شامل ہے مگر روزنامہ گارڈین کی 31 دسمبر کی اشاعت میں اس بچی کا ذکر پڑھ کر میرا بوڑھا دل کچھ نرم ہوا اور اس میں تشکر کے جذبات پیدا ہوئے۔ ملالہ نے جنوبی افریقہ کے Archbishop Desmond Tutu اور دوسرے نوبل انعام یافتہ افراد (جن کی تعداد بارہ سے زیادہ ہے) کے ساتھ مل کر برما کی سب سے معروف سیاست دان خاتونAung San Suu Kyi پر کڑی تنقید کی ہے کہ وہ برما کے مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے نہ ایک لفظ بولتی ہے اور نہ اپنی چھوٹی انگلی ہلاتی ہے۔ مذکورہ بالا معزز افراد نے بالکل کھلے الفاظ برما کی فوج کو ہزاروں مسلمانوں کے قتل اور ان گنت خواتین کی بے حرمتی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ابھی اس اخباری رپورٹ کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ بنگلہ دیش سے خبر آئی کہ وہ اپنی تمام تر غربت کے باوجود برما کے پچاس ہزار مہاجرین کو پناہ دینے پر مجبور ہو گیا ہے۔ برما کی خاتون سیاست دان کے سیاسی مفادات اُسے حق گوئی، سچ بولنے اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ گارڈین نے خبر کے متن کے ساتھ جو تصویر شائع کی ہے وہ یہ راز بھی افشا کر دیتی ہے کہ اس مجرمانہ خاموشی کی وجہ کیا ہے؟ یہ خاتون راہنما برما کی فوج کے سربراہ جنرل Min Aung Hiang سے ہاتھ ملاتی اور مسکراتی اور خوشی کی تصویر بنی نظر آتی ہے۔ کالم کی محدود جگہ اجازت نہیں دیتی کہ میں یہاں گارڈین کی ساری رپورٹ کا ترجمہ لکھوں۔ اگر آپ کے پاس Web کی سہولت موجود ہے تو آپ خود پڑھ لیں تاکہ میری طرح آپ کے دن کا چین اور رات کا آرام بھی حرام ہو جائے۔ اگر آپ اپنی بند آنکھ کھولیںگے تو آپ کو نہ صرف زمین، فلک اور فضا بلکہ مشرق سے اُبھرتا ہوا وہ سورج بھی نظر آئے گا جسے برما کے مسلمانوں کے خون نے معمول سے زیادہ سرخ بنا دیا ہے، براہِ مہربانی اپنی بند آنکھ کھولئے گا۔ ع
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں