پانچ شخصیات کا تعزیت نامہ

آج کے کالم کے عنوان کے آخری دو الفاظ Obituary کا ترجمہ ہیں اور سند ہے آکسفورڈ لغات کے صفحہ نمبر1112 کے دایاں کالم کا لفظ نمبر9 ۔ مگر پانچ شخصیات کون سی؟ دو انگریز۔ ایک بھارتی ۔ ایک امریکی اور ایک اطالوی۔ جگہ کم ہے‘ اختصار سے کام لینا پڑے گا۔ شروع کرتے ہیں ایک برطانوی خاتون سے۔ نام ہے Clare Hollingworh ،عمر105 سال پائی۔پیشہ کے اعتبار سے صحافی اور مہارت تھی آگ برسانے والی جنگوں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے میں۔ نوے سال کی عمر تک بستر کی بجائے پتھریلے فرش پر سونے کی عادت تھی تاکہ اُن کا جسم آرام طلب اور آرام پسند نہ ہو جائے جس سے جنگی محاذوں پر سالہا سال رہنا مشکل ہو جاتا۔ وہ تیرنا، گھڑ سواری، برف پر SKI کرنا، جہاز اُڑانا۔ پیرا شوٹ سے چھلانگ لگانا اور آتشیں اسلحہ کا استعمال بخوبی جانتی ہیں۔ درختوں کا تو کیا ذکر وہ بجلی کے کھمبوں پر بھی چڑھ سکتی ہیں۔ بادشاہوں، جاسوسوں، وزرائے اعظم اور جرنیلوں کا ایک بڑی تعداد سے اُن کے دوستانہ مراسم تھے۔ شاہ ایران سے اُنہوں نے پہلا انٹرویو 1941 میں اور آخری انٹرویو1979میں کیا۔ اُنہوں نے آخری عمر تک اپنا پاسپورٹ قابل استعمال رکھا جس میں ہر اُس ملک کا ویزا لگا ہوتا تھا جہاں جنگ چھڑ جانے کا احتمال ہو اور اُنہیں دُنیا کا کوئی نہ کوئی بڑا اخبار وہاں بطور رپورٹر جانے کی ہدایت دے سکتا ہو۔ وہ (بقول اقبال) نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو جیسی بڑی خوبی کی زندہ تفسیر اور تصویر تھیں۔ مزاج اتنا جلالی تھا کہ جب یہ ''مصدقہ‘‘خبر ملی کہ اُن کا شوہر اُن سے زیادہ خوش شکل اور کم عمرخاتون سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے تو اُنہوں نی اپنی رقیبہ پر گولیوں کی بارش کر دی۔ غصہ کی شدت سے نشانہ چوک گیا اور وہ حسینہ قتل ہونے سے بچ گئی مگر اپنی جان کی بازی لگا کر اُنہوں نے اپنے ازدواجی رشتہ کو ٹوٹنے سے بچا لیا وہ دو T (یعنی ٹوتھ برش اور ٹائپ رائٹر) اور کپڑوں کے صرف دو جوڑوں کے ساتھ آناً فاناً سفر پر روانہ ہونے کا گُر جانتی تھی۔ فاقوں اور ہر طرح کی صعوبتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتی تھیں۔ اُن کی سوانح حیات پر جو کتاب لکھی گئی وہ ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ 
دوسرا نام بھی ایک انگریز کا ہے اور وہ مرد ہے ۔ Henry Hobh عرف عام میں ٹام صرف ٹام۔ 1985 میں ایک کتاب لکھی ''پانچ پودے جنہوں نے تاریخ بدل دی۔‘‘ اور وہ پودے تھے گنا۔ چائے۔ روئی۔ آلو اور کونین ۔ صحت مند زندگی کے باوجود وہ سینچری مکمل نہ کر سکے اور صرف 91برس عمر پائی۔ موصوف نہ مورخ تھے اور نہ ماہر نباتات۔ زندگی بحریہ سے شروع کی۔ پھر صحافی بنے۔ پھر کسان اور پھر سیاست دان۔ آج سے 35 سال پہلے تاریخ بڑے لوگوں کے حوالہ سے لکھی اور پڑھی جاتی تھی۔ ٹام نے اسی انداز میں انسانی تاریخ کو مذکورہ بالا پانچ پودوں کے حوالہ سے بیان کیا اور اتنے اچھے انداز میں کیا کہ یہ کتاب اُنہیں رہتی دُنیا تک زندہ رکھے گی۔ موصوف کے والد Sir Arthor Hobhouse ایک بڑے زمیندار اور رُکن پارلیمنٹ تھے مگر اُنہیں اپنی شہرت اپنے بیٹے کے علمی کارنامہ کی وجہ سے ملی۔ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو 500 ایکڑ کی بہترین زمین ورثہ میں چھوڑی جہاں اُس نے کاشتکاری اور ڈیری فارمنگ کے کمالات دکھائے۔ یہ تھا 91 برس لمبی عمر کا چند سطور میں خلاصہ۔ 
تیسری شخصیت بھارت کے آنجہانی اداکار اوم پُری کی ہے۔ وُہ بمبئی کی فلمی دُنیا کے اُفق سے اُبھر کر برطانیہ پہنچے تو 1999 میں ٹیلی ویژن کے بے حد کامیاب اور مقبول عام ڈرامہEast is East سے ہوتے ہوئے فلمی دُنیا کی معراج یعنی ہالی وڈ کی فلموں میں نام کمایا اور دولت بھی۔ صد افسوس کہ صرف66 برس کی عمر پائی۔ عارضہ قلب قبل از وقت وفات کا باعث بنا۔ مذکورہ بالا ٹیلی ویژن ڈرامہ سے دو برس پہلے (1997 میں) اُنہوں نے پاکستانی ڈرامہ نویس حنیف قریشی کے لکھے ہوئے My Son the Fanatic میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ پیدائش کے لحاظ سے وہ خالص پنجابی تھے۔ انبالہ اُن کی جنم بھومی تھی جو آج کل بھارتی پنجاب کی ملحقہ ریاست ہریانہ کا سب سے بڑا شہر ہے مگر برطانوی راج میں وہ سارے پنجاب کا حصہ تھا۔ برطانیہ میں رہنے والوں نے اُنہیں پہلی بار 1984 میں Chanel 4کے دکھائے جانے والے کمال کے سلسلہ وار ڈرامہ The Jewel in the Crown میں دیکھا تو اُن کے مداحوں کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچی۔ اس سے دو سال پہلے (1992میں) اُنہوں نے پہلی بار انگریزی زبان کی جس بڑی فلم میں مختصر کردار ادا کیا اُس کا نام ''گاندھی‘‘ تھا۔ 2007 ء میں بنائی جانے والی فلم Charlie Wilson War میں اُنہوں نے جنرل ضیاء الحق کا کردار ادا کیا۔ پچھلے سال اُنہوں نے بھارت کی مودی سرکاری کی نسل پرستانہ پالیسی اور پاکستان دُشمنی کی کھل کر مخالفت کی۔ اُن کی بے وقت وفات سے ہم بھارت میں اپنے ایک بہترین دوست سے محروم ہو گئے۔
چوتھی شخصیت کا نام ہے Garin Macfadyen پیدائش امریکہ میں ہوئی مگر زندگی کا بڑا حصہ برطانیہ گزرا اور پیشہ کے لحاظ سے صحافی اور وہ بھی چوٹی کے 76 برس کی عمر میں اس دُنیا سے رُخصت ہوئے تو ساری دُنیا کے اخباروں میں یہ بات خاص طور پر لکھی گئی کہ وہ تحقیقی اور تفتیشی صحافت کے ادارہ کے بانی اور ڈائریکٹر تھے۔ اور اس لحاظ سے کھوج نکالنے والے صحافیوں کے قبیلہ کے سردار تھے امریکی جاسوسی اداروں کے نظر میں امریکہ کے بدترین دُشمن Julia Assange کے قانونی دفاع کی کمیٹی کے بانی رُکن تھے اور اس کے لئے لاکھوں کروڑوں ڈالر اکٹھے کرنا (اور وہ بھی باضمیر اور بااُصول عامتہ الناس سے) اُن کی اور اُن کی ہم خیال اور اتنی ہی بہادر بیوی کی ذمہ داری تھی۔ اُنہوں نے برطانوی ٹیلی ویژن کے لئے پچاس سے زیادہ دستاویزی فلمیں بنائیں۔ وہ اشتراکی اور عوام دوست ذہن رکھتے تھے اور تمام مصیبتوں کو بہادری اور استقامت سے برداشت کرتے ہوئے اپنے آدرش پر ساری عمر قائم رہے وہ 1980 ء میں امریکہ جا کر ہالی وڈ کی فلمی صنعت سے اس طرح وابستہ ہو گئے کہMichael Mann جیسے بڑا فلم ساز اور ڈائریکٹر کے دوست اور دست ِراست بن گئے۔اُنہوں نے فلم کو سماجی انصاف کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کا ہتھیار بنایا۔ 
آج کا کالم جس پانچویں شخصیت پر ختم کیا جائے گا۔ وہ اطالوی تھے اور نام تھاDario Fo ۔ اٹلی خوش نصیب ہے کہ اُس سرزمین پر اُن کا مبارک سایہ 90 برس تک رہا۔ وہ کمال کے ادیب تھے جو طنز و مزاح کے ذریہ سماجی برائیوں اور خامیوں کو اُجاگر کرنے اور انسانی ضمیر کو بیدار کرنے کے فن کے اتنے بڑے ماہر تھے کہ اُنہیں۔ 1997 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ وہ بہت اچھے ادا کاربھی تھے۔ اُن کا تھیٹر اٹلی کے طول و عرض میں سفر کر کے عوامی دلچسپی کی ڈرامے پیش کرتا تھا۔ ان کی عمر بھر کی ساتھی کا نام Rame تھا۔ جو بائیں بازو کے اشتراکی خیالات کی شدت میں اپنے شہرہ آفاق خاوند سے کئی قدم آگے تھی۔ تین برس پہلے Rame کی اچانک وفات نے عمر بھر کی جوڑی ختم کر دی۔ اُنہوں نے اپنے پیچھے ایک بیٹا۔ ڈراموں کی بہت سی کتابیں اور کئی فن پارے چھوڑے۔ ان کی وفات سے اٹلی کی ادبی دُنیا یتیم ہو گئی۔ اُنہوں نے نوبل انعام کی وصولی کی تقریب میں اپنے اس بڑے اعزاز کا سہرا بجا طور پر Rame کے سر باندھا جو ساری عمر اُنہیں علیحدگی کی دھمکیاں دیتی رہی مگر لڑتے جھگڑے ساری عمر اُن کے ساتھ گزار دی۔ اگر Rame کو بیوہ ہو جانے کا موقع ملتا تو وہ بیشک و شبہ خوبیاں ضرور بیان کرتی۔جو اُسے اپنے پیارے شوہر کی زندگی میں کبھی نظر نہ آئیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بیوی سے پہلے وفات پاجانے والا شوہر اپنی بیوہ کی مبالغہ آمیز تعریف بھی نہیں سن سکتا۔ اگر سن سکتا تو پھر زندہ ہوجاتا مگر تعریف کی خوشی سے پھر مر جاتا۔ بشرطیکہ اُس کو اپنی تعریف کی سچائی کا یقین آجاتا۔ بقول غالب : ؎ 
مجھے کیا برُا تھا مرنا اگر بار با ر ہوتا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں