زباں پہ بارے خدایا یہ کس کا نام آیا

آج کے کالم کا عنوان غالب کے ایک مشہور معروف شعر کا پہلا مصرع ہے۔ دُوسرے مصرع میں تو غالب نے مبالغہ آرائی کی حد کر دی اور جو بات دل میں تھی وہ کھلم کھلا بیان کر دی۔ ؎
کہ میرے نطق نے بوسے میرے زباں کے لئے 
آج میں آپ کو جس بالکل غیر معروف اور آپ کیلئے مکمل اجنبی نام سے متعارف کرانا چاہتا ہوں وہ ہے LauterPacht ۔ اب آپ بتایے میرا نطق میری زبان کے بوسے لے تو کیونکر چونکہ یہ لفظ بولتے وقت زبان کو ٹیڑھا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کھیر ٹیڑھی ہو تو وہ کھائی نہیں جا سکتی۔ آنگن ٹیڑھا ہو تو اُس میں رقص کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وقت ٹیڑھا ہو اُس کا ایک ایک لمحہ بوجھ بن جاتا ہے۔ ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ خدا نخواستہ بھینگے ہیں بلکہ یہ آپ کی ناراضگی کا اظہار ہے۔ ٹیڑھی چال چلنے والے کے دُشمن خوش ہوتے ہیں کہ جلد یا بدیر ضرور مارا جائے گا اور خیر خواہوں کا دل دُکھتا ہے کہ آخر یہ نیک بخت ہوا کے رُخ کے خلاف چلنے پر کیوں بضد ہے؟ اب ان تمہیدی جملوں کو مزید طول دیئے بغیر ہم پھر اُس لفظ Lauterpacht کی طرف واپس جاتے ہیں جس کو بولنے کے لئے زبان اتنی ٹیڑھی کرنا پڑتی ہے میرے لئے آکسفورڈ کی شائع کردہ اُردو انگریزی لغات کے صفحہ نمبر395 پر لکھے ہوئے تمام ٹیڑھے الفاظ کے معانی کا مطالعہ کرنا ضروری ہو گیا۔
مذکورہ بالا لفظ بین الاقوامی قانون کے سب سے بڑے ماہر کے نام کا دُوسرا اور آخری حصہ ہے۔ وہ چند روز قبل 88 برس کی عمر پاکر دُنیا سے رخصت ہوئے تو دُنیا بھر کی بڑی عدالتوں اور قانون کی درسگاہوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ دُنیا بھر کے اچھے اخباروں نے اُن کے اعزاز میں تعزیتی مضامین شائع کئے۔ نوے کی دہائی کے شروع میں یہ کالم نگار Nottinghamians یونیورسٹی میں (بین الاقوامی قانون کے میدان میںLL.M کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے لئے) دو برس زیر تعلیم رہا۔ میں نے ایک دن شعبہ قانون میں کسی مہمان کے استقبال کی اتنی زبردست تیاریاں دیکھیں کہ گمان گزرا کہ شاید شاہی خاندان کا کوئی فرد (جو عام طور پر برطانوی یونیورسٹیوں کا اعزازی چانسلر ہوتا ہے) اپنے معمول کے سالانہ دورہ پر آرہا ہے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ مہمان کا پورا نام ہے Professor Sir Elihu Lauterpacht میں نے سوچا کہ مہمان تکلفات کا مجموعہ ہوگا۔ اس لئے اُس سے دُور رہنا چاہئے۔ میں نے اُن کا لیکچر سننے کے لئے کمرہ کی آخری کرسی کو اپنی پناہ گاہ بنایا۔ جب معزز مہمان تشریف لائے تو اُنہوں نے کہا کہ عام طور پر اساتذہ لیکچر کے خاتمہ پر سوالوں کا جواب دیتے ہیں میں بسم اللہ ہی اُن سے کرتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ کیا کوئی بھی ملک اپنا پانی فروخت کرتا ہے اور ایک معاہدہ کر کے اپنے آدھے دریائوں (چھ میں سے تین) کے استعمال پر اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے محروم کر لیتا ہے۔ جواب ملا کہ وہ ملک پاکستان کے سوا اور کوئی نہیں اور نہ ہو سکتا ہے۔ بات آگے بڑھی تو وہ ہم دونوں کے درمیان دوستانہ مکالمہ کی شکل اختیار کر گئی۔ پھر اُنہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اُن کے سامنے پڑی ہوئی خالی کرسی پر آکر بیٹھوں۔ جب لیکچر دیا تو یوں لگا کہ علم کا دریا بہہ رہا ہے۔ سادگی‘ انکساری‘ وضع داری‘‘۔نرم گفتاری اور عام فہم گفتگو کرنے جیسی خوبیوں کو اکٹھا کیا جائے اُنہیں گوندھ کر انسانی شکل دی جائے تو یہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ایک عالم فاضل شخص کی تصویر بن جائے گی۔
یہ مختصر ملاقات25 سال پہلے ہوئی۔ پہلی اور آخری ملاقات۔ ان کی لکھی ہوئی ایک موٹی کتاب (جو تازی ہر گز نہ تھی) میں نے لاہور میں ایم۔ اے سیاسیات کی تعلیم کے دوران بمشکل پڑھی تھی۔ راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام کر کے۔ کتاب کا مطالعہ ختم ہوا تو پتہ چلا کہ سر کے اندر جانے کی بجائے اُوپر سے گزر گئی۔ مگر امتحان کا نتیجہ آنے پر یہ راز کھلا کہ کچھ نہ کچھ سمجھ تو ضرور آئی ہوگی ورنہ میں پاس نہ ہوتا۔
1993 ء میں (یوگو سلاویہ کی ریاست ختم ہونے پر وہاں خانہ جنگی چھڑ گئی جس میں Serbia کی نسل پرست اور فسطائی فوج نے Bosnia کی مسلمان آبادی پر بے پناہ ظلم و تشدد کیا۔ اس قتل عام کے خلاف The Hague (یہ دُنیا کا واحد شہر ہے جس کے پہلے The لکھا جاتا ہے) میں انصاف کی بین الاقوامی عدالت میں Bosnia نے قانونی چارہ جوئی کی تو Lauterpacht ہی اس کے وکیل استغاثہ تھے۔ اُنہیں یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ اٹھارہ برس (1980-98 )تک ورلڈ بینک کے انتظامی ٹربیونل کے رُکن رہے۔ 1995 میں نیوزی لینڈ کی حکومت نے فرانس کے جنوبی بحرالکاہل کے جزیروں میں ایٹمی تجربات کرنے کے خلاف فریاد کی تو موصوف نے یہ فیصلہ دے کر کہ ماحول کی حفاظت بین الاقوامی قانون کا حصہ ہے۔ ایک نیا سنگ میل نصب کیا۔ صرف برطانیہ نہیں بلکہ دُنیا کی چوٹی کی یونیورسٹی Cambrige نے 1983 ء میں بین الاقوامی قانون کے مطالعہ کا جو مرکز قائم کیا اُس کا نام ہی Lauter Pacht Ceritha رکھا گیا۔ موصوف ایک جرمنی زبان بولنے والے یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کی والدہ نے آسٹریلیا سے بھاگ کر برطانیہ میں پناہ لی۔ وہ پیانو بجا کر روزی کماتی تھیں۔ اُن کے والد پہلے لندن میں شہرہ آفاق LSE میں اور پھر کیمبرج یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر بنے۔ مگر مشہور اپنے بیٹے کی وجہ سے ہوئے (جو حال غالباً اس کالم نگار کا بھی ہوگا)۔مرحوم کے نام کا پہلا حصہ (انجیل مقدس سے پہلے) الہامی کتاب تورات سے لیا گیا تھا اور وُہ نام تھاELihu ۔ دُوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو لاکھوں برطانوی بچوںکی طرح تارکِ وطن والدین کے اس بچہ کو بھی امریکہ بھیج دیا گیا تاکہ وہ جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہیں۔ وہ 1945 ء میں واپس آیا تو مغربی لندن کے اُس مشہور پبلک سکول Horrow میں پڑھے جہاں پنڈت جواہر لال نہرو بھی زیر تعلیم رہے۔ وہاں کے ٹرینٹی کالج کیمبرج گئے۔ پہلے تاریخ پڑھی اور پھر قانون۔ 1953 ء میں وہ اس ادارہ کے فیلو بنے۔ اور61 سال کی تدریس کے بعد پروفیسر۔ آپ نے غور فرمایا کہ اتنے لائق فائق اُستاد کو بھی پروفیسر کی کرُسی پر بیٹھنے کیلئے 61 برس لگے۔ 2010 میں اُن کی لکھی ہوئی اپنے جلیل القدر باپ کی سوانح عمری شائع ہوئی۔1970 ء میں اُنہیں Quares recognition بنایا گیاا ور 1998 میں سر کا خطاب دیا گیا۔ ہیگ میں انصاف کی بین الاقوامی عدالت کا ایوان بنا تو شمالی انگلستان میں ایک گمنام گائوں میںسادہ سی بوسیدہ عمارت میں۔ وہ بے حد و حساب سے تیار کردہ موقف بڑی وضاحت اور فصاحت سے پیش کرتے تھے۔ وہ (اس کالم نگار کے برعکس) اکثر اپنے موکل کو خوش خبری سناتے تھے۔ کہ وہ کامیاب رہا اُنہیں بین الاقوامی قانون کے راستہ میں حائل ان گنت عملی مشکلات کا اتنا اچھا اندازہ تھا کہ اگر وہ اُردو زبان جانتے تو غالب کا یہ مصرع اکثر دُہراتے ۔ع
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور 
یہودی ہونے کے باوجود یہ بااُصول شخص اسرائیل کے ہاتھوں بین الاقوامی قانون کی تمام خلاف ورزیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے تھے۔ افغانستان اور عراق پر مغربی ممالک کی جارحیت کے بھی مخالف تھے۔ بڑھاپے اور خراب صحت کے باوجود وہ دس سال قبل قریباً دس لاکھ افراد کے اُس تاریخی مظاہرہ میں شامل ہوئے جس کا مقصد برطانوی حکومت کو عراق پر حملہ کرنے سے باز رکھنا تھا۔ امریکی اور برطانوی حکومت نے اپنے کروڑوں عوام اور Professor Sir Elihu Lauterpacht جیسے عظیم دانشوروں کی بات نہ مانی اور عراق پر حملہ کر دیا۔ جس کے نتیجہ کے طور پر وہاں ابھی تک خانہ جنگی کی آگ بھڑک رہی ہے اور ISIS (عرف عام میں داعش) اس جارحیت کے ردعمل کے طور پر ایک ایسی مسلح طاقت بن کر ابھری ہے جو مغربی قوتوں کے دُشمنوں کی فہرست میں سب سے اُوپر ہے۔ 
آج کے کالم کی آخری سطر لکھی جا چکی تھی کہ مجھے پاکستان سے ایک برُی خبر ای میل کے ذریعہ ملی۔تو میرے چالیس سالہ پرانے دوست افتخار حسین اور میرے قلمی دوست بریگیڈیئر حامد سعید سے اُن کی وفا شعار بیوی کا عمر بھر کا ساتھ ختم ہو گیا۔ وہ دونوں ہسپتال میں چند دن زیر علاج رہ کر اپنے رفیق حیات سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئیں۔ صد افسوس کہ جب میں مارچ میں لاہور جائوں گا تو اُن سے ملنے کی خوشی سے محروم رہوں گا۔ افتخار حسین اور جناب حامد سعید کو پہلے ہی بہت لوگوں نے صبر کرنے کاجو مشورہ دیا ہوگا میں اُس میں اپنا حصہ نہیں ڈالنا چاہتا۔ افتخار حسین اور جناب حامد سعید کو صبر آئے تو کیونکر؟ یہ تو تھا ایک ذاتی صدمہ۔ اب چلتے ہیں قومی منظر کی طرف ۔ وسط فروری میں پاکستان کے ہر حصہ میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات میں سینکڑوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ اپنے قارئین کی طرح یہ کالم نگار اس بڑے المیہ پر سوگوار ہے مگر مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ ہم جب تک اس مرض کی صحیح تشخیص نہیں کریں گئے۔ اس کا علاج نہ ہو سکے گا کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ سراسر غلط علاج کی وجہ سے ہماری یہ بیماری طول پکڑے گی اور دہشت گردی جاری رہے بلکہ اور بڑھ جائے گی۔ کتنا اچھا ہو کہ میرا اندازہ اور خدشہ غلط نکلے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں