ایک درخت اور کئی گلہریاں

شاعرمشرق کے کلام کے پہلے مجموعہ کا نام ہے بانگ دِرا۔ اس کی پہلی نظم کا موضوع ہے۔ کوہ ہمالیہ (جسے اقبال نے ہمالہ لکھا)۔ دُوسری کا ایک پھول (جو رنگین بھی تھے)۔ تیسری نظم کا موضوع بچپن (لگتا ہے کہ اقبال کے ذہن میں ہمارے جیسے عام لوگوں کا نہیں بلکہ اپنا بچپن تھا۔ بچپن اور بادل (اقبال کے الفاظ میں ابر کوہسار) کے موضوعات کے درمیان مرزا غالب کا قصیدہ جغرافیائی اعتبار سے غیر موزوں جگہ پر لکھی ہوئی نظمیں ہیں۔اگلی تین نظموں کے عنوانات پڑھ کر آپ شاید دم بخود رہ جائیں۔ایک مکڑا اور مکھی۔ ایک پہاڑ اور گلہری۔ ایک گائے اور بکری۔ کئی سال گزر گئے جب اقبال کو بانگ درا کے دُوسرے حصہ کی آٹھویں نظم لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ انہوں نے بلی دیکھ لی۔ اس سے زیادہ عامیانہ موضوعات اور کیا ہو سکتے تھے جس پر آنے والے دور کے شاعر مشرق نے طبع آزمائی کی اور خوب کی۔ مگر بانگ درا کا دُوسرا حصہ پہلے کے مقابلہ میں اور تیسرا حصہ دُوسرے کے مقابلہ میں شاعرانہ تخیل کے کمال کے عمودی سفر کی گواہی دیتا ہے۔ 
بانگ درا کی ساتویں نظم میں پہاڑ اور گلہری کے مکالمہ کو منظوم کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ کا یہ کالم نگار اس قسم کا کمال نہیں دکھا سکتا۔ وہ ٹوٹی پھوٹی نثر ہی لکھ لے تو آپ صبر شکر کر کے پڑھ لیں اور اگرآپ کے دل میں ہمدردی کے جذبات (بجا طور پر) پیدا ہوں تو آپ پھر (بذریعہ ای میل) دبی زبان میں کالم نگار کی حوصلہ افزائی کرنے سے ہر گز غافل نہ ہوں۔ آج کے کالم اور اقبال کی نظم میں ایک اور بڑا فرق یہ ہے کہ اس میں گلہری ایک نہیں بلکہ ہزاروں ہیں اور پہاڑ کی بجائے درخت ہے۔ جو ہونا بھی چاہئے چونکہ گلہری کی زندگی کا محور پہاڑ نہیں بلکہ درخت ہوتا ہے۔ شاید گلہری (اقبال کی نظم کے برعکس) آپس میں ہم کلام بھی نہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک دُوسرے سے سینکڑوں میل دُور ہیں۔
اقبال کا پہاڑ ہو یا آج کے کالم کا درخت۔ گلہری بہرحال ان لوگوں کے سامنے کمزور اور دُوسرے درجہ کی مالکہ اور مسکین ہے۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ بات درخت سے شروع کریں ۔ درخت بھی شاہ بلوط کا جو کئی صدیوں سے Wales کی سرزمین کے ماتھے کا جھومر ہے۔ اسے بچانے کے لئے ایک بڑی شاہراہ کا راستہ بدلنا پڑا۔ ہر سال یوروپ کے سب سے شاندار درخت کا انتخاب درختوں کی دلدادہ انجمن (اراکین کی تعداد دس ہزار ہے) کرتی ہے۔ برطانوی درخت نے یہ اعزاز (Europen Tree of the Year) پولینڈاور چیک (Czech) جمہوریہ کے دو درختوں کو شکست دے کر حل کیا۔ برطانیہ کا ایک غیر سرکاری ادارہ Woodland Trust جنگلوں اور پرانے درختوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اس ادارہ نے ویلز (Wales)کی صوبائی اسمبلی کی توجہ اپنے اس مایۂ ناز درخت کی طرف دلوائی تو اُس نے اس کے حق میں مہم چلانے کی سرکاری قرار داد منظور کی۔ مذکورہ اعزاز ملنے کی دیر تھی کہ یہ درخت یوروپ کے سارے (خصوصاً برطانوی) اخباروں کے صفحہ اول پر اس طرح جلوہ گر ہوا ۔ جس طرح فلمی ستارے اور زرق برق قسم کے مشہور افراد یعنی Celebrities لالچ کی طرح تعصب بھی برُی بلا ہے بلکہ سب بلائوںکا سردار ہے۔ جب سے امریکہ ایک بڑی طاقت بن کر اُبھرا ہے وہ باقی دُنیا پر صرف فوجی اور معاشی نہیں بلکہ تہذیبی اور ثقافتی غلبہ حاصل کرنے کے لئے سو جتن کرتا ہے۔ امریکہ سے جو شے بھی دُوسرے ملکوں میں آجائے وہ آکاس بیل کی طرح پھیل جاتی ہے۔ اس کالم نگار کی امریکی پالیسی اور امریکی برآمدات (ماسوائے علم و ہنر کے) امریکی تسلط اور امریکی یلغار کی مخالفت کی عمر 65 سال کے قریب ہو گی۔ یعنی عمر بھر میں نے جو کچھ بھی کہا اور لکھا وہ امریکی بالادستی اور قبضہ گروپ بن جانے کے خلاف تھا۔ بدقسمتی سے عقلی دلائل اور تعصب کے درمیان اتنی چھوٹی دیوار ہے کہ اُسے عبور کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ کالم نگار شاہ بلوط درخت کو محبت بھری نظروں سے دیکھنے کے بعد اُس پر چڑھنے والی بلکہ رہنے والی گلہریوں کی طرف متوجہ ہوا تو پتہ چلا کہ ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں اہل برطانیہ نے یہ فاش غلطی کی کہ امریکہ سے خاکستری رنگ کی گلہری (غالباً بطور تبرک) لے آئے۔ جس کا علم حیاتیات میں نام ہے۔ Scirus Carolinensis ۔ اس مہمان نے میزبان (سرُخ رنگ کی مقامی گلہری) پر دھاوا بول دیا اور اُس کا تقریباً صفایا کر دیا۔ ماہرین نے گنتی کی (ہمیں اپنے ملک میں رہنے والے انسانوں کی گنتی کرنا بڑا مشکل کام لگتا ہے) تو پتہ چلا کہ امریکی خاکستری گلہریوں کی تعداد 25 لاکھ سے بڑھ چکی ہے اور مقامی سرُخ گلہریوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم ہے۔ غیر ملکی جارحیت نے ان کا وجود خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ ان کو بچانے کے لئے جنگلی حیات کے ادارہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پانچ ہزار رضا کاروں کی فوج بنائی جائے تاکہ وہ مقامی گلہریوں کو امریکی گلہریوں اور ایک مہلک بیماری (جو Pox Viros سے لگتی اور پھیلتی ہے) سے بچائیں۔ یہ مہم صرف دفاعی نہیں بلکہ کافی تشدد پسند اورخون آشام۔ خون ریز اور بے رحم ہے اور وہ یوں کہ ہزاروں رضا کار خاکستری گلہریوں کو پکڑ کر پنجروں میں بند کر کے ہلاک کر دیں گے۔ یعنی جو برُا حال امریکی فوج کا پہلے ویت نام اور پھر افغانستان میں ہوا وہ امریکی گلہریوں کا برطانوی جنگلوں میں ہوگا۔ یہ ہوتا ہے دُوسرے کے گھر میں بن بلائے جانے اور وہاں قبضہ جمانے کی کوشش کا عبرتناک حشر۔
یہ کالم اپنا نصف سے زیادہ سفر طے کر چکا تھا کہ جی چاہا کہ آپ کو ایک ایسی خبر سنائوں کہ آپ کا دل خوش ہو جائے۔ جس دن امریکہ میں بہترین فلموں اور بہترین اداکاروں کو Oscar انعامات دینے کی تقریب کا انعقاد ہونا تھا۔ اُسی دن (اتوار 26 فروری) لندن کے دل ٹریفامگر سکوائر میں 20 ہزار افراد نے ایرانی ڈائریکٹر کی بنائی ہوئی اعلیٰ درجہ کی فلم (جو آسکر انعام کے لئے نامزد کی جانے والی فلموں میں شامل تھی)The Salesman دیکھی۔ اس تاریخی بے مثال اور قابل صد تعریف تقریب کا اہتمام لندن کے پاکستانی نژاد میئر صادق خان نے کیا تھا۔ کرکٹ کی زبان میں (وہ کرکٹ جسے پاکستان میں گھر والوں نے خود ہی گھر سے نکال دیا) صادق خان نے چھکا لگا دیا۔ سکوائر ٹریفلگر میں ایک بڑی اچھی فلم (اور وہ بھی مفت میں) دیکھنے کا موقع کوئی کیوں گنواتا؟اتنے بڑے چوک میں تِل رکھنے کی جگہ نہ رہی۔ صادق خان نے زبردست تقریر کی جس کا پہلا جملہ یہ تھا کہ امریکی صدر مجھے خاموش نہیں کر سکتا (چاہے وہ کتنا بڑا پاٹے خان یا تیس مار خان ہو) سامعین نے تقریر کے ہر جملہ پر تالیاں بجائیں۔ تالیوں کی آواز نے صادق خان سے (جو عام طور پر زیادہ اچھی تقریر نہیں کرتے) اُن کی سیاسی زندگی کی سب سے پرُ جوش اور فصیح و بلیغ تقریر کروائی مگر جو بات اس تقریر سے بھی زیادہ قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا ایرانی فلم کے ڈائریکٹراصغر فرہادی Video Link کے ذریعہ (اُنہوں نے یہ فن غالباً ایم ۔کیو۔ایم کے الطاف حسین سے سیکھا ہوگا) لندن میں اپنے مداحوں کے جم غفیر سے مخاطب ہوئے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی نسل پرستانہ اور انسان دُشمن پالیسی کے خلاف بطور احتجاج آسکر تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ Oscar کا انعام دینے والی کمپنی نے جن دستاویزی فلموں کو نامزد کیا تھا اُن میں The White Helmet بھی شامل تھی۔ اس کے Cinematographer خالدخطیب (عمر صرف 21 برس) کو بھی امریکہ جانے کا ویزا دینے سے آخری وقت پر انکار کر دیا گیا۔ نفرت اور خوف کے ساتھ انسان دُشمنی اور بقائے باہم کے زریں اُصول کی خلاف ورزی ہر عذاب۔ ہر بحران اور ہر خونی تصادم کی ذمہ دار ہے چاہے 1947 ء میں تقسیم ہندوستان ہو یا 1971 ء میں تقسیم پاکستان یوگو سلاویہ کا ٹوٹنا ہو یا سوویت یونین کا۔ واقعات کئی مگر وجہ ایک۔ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ نوم چومسکی۔ روزن برگ جوڑے (جن کا نوحہ فیض صاحب نے لکھا) مارٹن لوتھر کنگ اور ابراہیم لنکن کی سرزمین پر ایک ایسا شخص تخت نشین ہوا کہ 20 جنوری کے بعد امریکہ میں روشنی کم ہوئی اور اندھیرا زیادہ۔ صرف امریکہ میں نہیں پڑوسی ملک بھارت میں نریندر مودی۔ مصر میں جنرل SISI دُوسرے کئی بدنصیب ممالک کی حالیہ تاریخ میں یہ سبق سکھاتی ہے کہ اگر انسان دوست اور ترقی پسند قومیں ناکام ہو جائیں تو پھر اقتدار رجعت پسندوں اور فسطائی عناصر کو ملتا ہے۔ دُور نہ جائیں۔ آپ اپنے ملک کو دیکھیں۔ جناب بھٹو صاحب کی سیاسی ناکامی نے جس بڑے بحران کو جنم دیا وہ آج تک ختم نہیں ہوا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں