برطانوی راج کی برکتیں…(قسط دوئم)

مجھے اجازت دیںکہ میں اپنی یہ رائے ظاہر کروں کہ پاکستان میں شاید ہی کسی دانشور نے ہندوستان پر برطانیہ کی دوسو سال لمبی حکومت (جسے راج کہتے ہیں) کے معروف فائدوں کے مقابلہ میں زیادہ نقصانات کے موضوع پر کتاب لکھی ہو۔ میں اپنے قارئین کو دعوت دیتا ہوںکہ وہ مجھے بذریعہ ای میل اُن کتابوں اور ان کو لکھنے والوں کے اسمائے گرامی بتائیںجو راج کے خلاف یعنی اُس کے شدید اور غالباً ناقابل تلافی نقصانات اور ہمہ گیر منفی اثرات بیان کرتے ہوں۔ ان 70 سالوں میں کئی پاکستانی دانشور عالمی اُفق پر اُبھرے ہیں۔ جو سامراج دُشمن اور عوام دوست تھے۔ مثلاً حمزہ علوی۔ اقبال احمد۔ طارق علی مگر مجھے ہمت کر کے یہ مان لینا چاہئے کہ میری نظر سے اُن کی برطانوی راج کی مذمت کرنے والی کوئی تحریر نہیں گزری۔ اگر میرا یہ تاثر درست ہے تو یہ صورتِ حال ہر گز قابل رشک نہیں۔ اُمید کی جانی چاہئے کہ آنے والے دور میں ہمارے نوجوان مورخوں کی اگلی نسل اس بے حد افسوس ناک خلا کو پرُ کر ے گی۔ جب تک یہ نہ ہوگا ہم اپنا ذہنی قبلہ درست نہ کر پائیں گے۔ ماضی قریب تک بھارت کا تقریباً یہی حال تھا مگر بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں (لوک سبھا) کے جانے پہچانے رُکن Shashi Tharoor نے ایک کمال کی کتاب Inglorious Empire)) لکھ کر اُس کام کو آگے بڑھایا جو Pankaj Mishra نے شروع کیا تھا۔ ان دونوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہوگی۔ کتنا اچھاہو کہ پاکستان میں کوئی اچھا سا ناشر ان دونوں کی کتابوں کا اُردو ترجمہ شائع کر دے تاکہ وہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کی روشنی طبع کا باعث بن سکیں۔ اگر ترجمہ کا بھاری پتھر نہ اُٹھایا جاسکے وہ انگریزی میں ہی شائع کر دیں مگر برائے مہربانی کچھ نہ کچھ تو کریں تاکہ ہمارے ذہنوں پر چھایا ہوا اندھیرا کم ہو اور ہمارا اجتماعی شعور خزاں سے بہار اور اندھیرے سے روشنی کی طرف بڑھ سکے۔ چاہے کتنا ڈگمگاتا ہوا‘ چاہے ہزار لڑ کھڑاتا ہوا اور مغرب زدہ مگر اہم بات یہ ہے کہ آگے کی طرف بڑھتا رہے۔اُفتاں و خیزاں۔
میرے قارئین کی اکثریت شاید یہ نہ جانتی ہوگی کہ صدیوں تک ہندوستان کو عالمی معیشت میں بڑا نمایاں مقام حاصل تھا۔ اتنا نمایاں کہ اپنے عروج پر پہنچی ہوئی سلطنت روم اور Han بادشاہت کے زمانہ کا چین اُس کے دُوسرے درجہ کے تجارتی معاون تھے۔ جب برطانیہ نے 1757 ء میں پلاسی کی جنگ میں فتح کے بعد ہندوستان کو فتح کرنے کی ایک صدی پر پھیلی ہوئی مہم شروع کی تو (آپ مانیں یا نہ مانیں) ہندوستان کی خوشحالی اس بلند درجہ پر تھی کہ وہ عالمی معیشت کا ایک چوتھائی تھی۔ برطانوی راج نے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی خوشحالی کو انہی آنکھوں کو اشکبار کر دینے والی غربت میں بدل دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دوسو سال طویل راج کے ستم زدگان کے دل میں برطانیہ کے خلاف غم و غصہ کی بجائے عفریت۔ احسان مندی اور تشکر کے جذبات موجزن ہیں۔ خصوصاً ہمارے نام نہاد اشرافیہ اور نو دولتیے غلامانہ طبقہ کے ذہن میں جس کو مغربی خوراک ( برگر) مغربی لباس (Jeans) مغربی موسیقی‘ مغربی زبان (انگریزی )اور مغربی مشروب وغیرہ جیسی پانچ مہلک اور ناقابل علاج دائمی بیماریاں لاحق ہیں۔ مناسب ہوگا کہ ہم انگریزی میں سوچنے والوں اور بقول اقبال فرنگی بتکدہ میں کھو جانے والوں اور شیشہ گران فرنگ کا احسان اُٹھانے والوں اور ہمارے قومی غرور کا سودا کرنے والوں کا ہاتھ اُٹھا کر فاتحہ پڑھیں۔ عرصہ ہوا کہ یہ طبقہ ذہنی طور پر مرچکا۔ اب کوئی ایسا مبارک لمحہ آئے گا اور ضرور آئے گاجب اُسے کوئی عوامی انقلاب اسی طرح دفن کرے گا جس طرح ایران میں ہوا اور عرب ممالک میں آئی ہوئی بہار کا جھونکا (اگر بدقسمتی سے وہ بن کھلے مرُجھا گیا) کر کے دکھا دیتا اور ہماری آنکھوں کے سامنے ترکی میں ہو رہا ہے۔
Dr. Tharoor نے2005 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک مباحثہ میں جو معرکہ کی تقریر کی وُہی اُن سے کتاب لکھوانے کا باعث بنی۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے ٹھوس حقائق کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ راج کی بنیاد ظلم و تشدد‘ استحصال اور لوٹ مار پر تھی۔ برطانوی حکمرانوں نے ہندوستان سے اتنی زیادہ دولت لوٹی کہ اُس کا حساب لگانا مشکل ہو گیا۔ مقامی صنعتوں خصوصاً کپڑا بنانے والی Textile صنعت کو تباہ برباد کر کے ہندوستانی کاشتکاروں کو مجبورکر دیا گیا کہ وہ سات سمندر پار لنکا شائر کی فیکٹریوں کو کپاس برآمد کریں اور پھر وہاں سے کپڑا درآمد کر کے کروڑوں ہندوستانی صارفین کی ضرورت کو پورا کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہے۔ 1940 ء کے عشرہ میں پڑنے والے قحط بنگال کے بارے میں تو آپ نے ضرور تھوڑا سا جانتے ہوں گے۔ جس میں 60 لاکھ افراد انتہائی درد ناک اور خون کے آنسو رُلا دینے والے حالات میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر کیڑے مکوڑوں کی طرح مر گئے۔ تمام مورخین کی رائے میں برطانوی حکومت کی سنگدلانہ اور سفاکانہ پالیسی اس مجرمانہ غفلت کی ذمہ دار تھی۔ یہ آخری قحط تو تھا مگر یہ پہلا قحط ہر گز نہ تھا۔ 1870 ء میں قحط پڑا تو ہندوستان کے وائسرائے اور گورنر جنرل Lord Lytton نے سرکاری طور پر یہ اعلان کیا کہ ہمیں قحط میں مرنے والوں کی جان بچانے کی کوئی کوشش نہیں کرنی چاہئے چونکہ Malthus کے نظریہ کے مطابق آفات کے ذریعہ قدرت انسانی آبادی میں اضافہ کا مسئلہ خود بخود حل کرتی رہتی ہے۔ قحط بنگال کی سب سے بڑی ذمہ داری برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل پر عائد ہوتی ہے جس نے غلہ سے بھرے ہوئے بحری جہازوں کو کلکتہ لنگرانداز نہ ہونے اور اُس کے بجائے یورپ کی بندرگاہوں کا رُخ کرنے کا چنگیزی حکم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے فرنگی اور دُوسرے یورپی حکمرانوں کے بارے میں بجا طور پر کہا تھا۔چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر۔ برطانوی راج کے خلاف نعرہ بازی کرنا اور سنی سنائی باتوں کو آگے چلا دینا سطحی اور غیر سنجیدہ کام ہے‘ ٹھوس مستند اور عالمانہ کتاب لکھنا دُوسرا کام ہے جو Dr. Throor نے کر دکھایا اور دُنیا بھر کے علمی حلقوں سے داد وصول کی۔ Dr. Tharoor نے ناقابل تردید حقائق اور ٹھوس دلائل سے ثابت کیا ہے کہ برطانوی راج نے ہندوستان پر تین بڑے ظلم کئے۔ اٹھارویں صدی میں دُنیا میں کپڑا بنانے والی سب سے بڑی صنعت۔ اُنیسویں صدی میں جہاز رانی کی صنعت اور بیسویں صدی میں Locomotive انجن بنانے والی صنعت تباہ و برباد کر دی۔ مذکورہ بالا کتاب اپنے پڑھنے والے کو وزنی دلائل کے ذریعے اس موقف کا قائل کردیتی ہے کہ ہندوستان کا خون چوسنے والی برطانوی حکمران اپنی حکومت کے اخراجات اپنی رعایا سے وُصول کرتے تھے اور اُوپر سے اُنہیں یہ جتانے میں بھی کامیاب ہوئے کہ وہ خوش نصیب ہیں کہ وُہ ہندوستان پر اتنی اچھی حکمرانی سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ برطانوی راج کے آخری پچاس سالوںمیں ہندوستان کی فی کس آمدنی صفر رہی۔ جب برطانوی راج1947 ء میں ختم ہوا تو ہندوستان میں آبادی کا 90 فیصد غریب تھا۔ خواندگی کا تناسب 16 فی صد تھا اور اوسط عمر 27 برس تھی۔ اگر ہم 1947 ء کا 2017 ء سے مقابلہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر ہندو پاک کے تینوں ممالک‘ کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں۔ ہزاروں خرابیوں اور خامیوں کے باوجود۔ نااہل اور بدعنوان حکمران اور پرلے درجے کے کرپٹ نظام حکومت کے باوجود کم از کم آپ ذرا سوچیں کہ اگر ڈیڑھ ارب انسانوں کے ہاتھوں میں یہ ہتھکڑیاں اور پائوں میں اتنی وزنی بیڑیاں نہ ہوتیں تو ہمارا اقوام عالم میں کیا درجہ ہوتا؟ کم از کم کوریا‘ ملائیشیا اور ترکی کے برابر! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں