تاریخ کو مسمار اور استوار کرنے والے

ماہرین آثار قدیمہ کے قبیلہ کے سردار سر جان مارشل ہمارے ایک بہت بڑے محسن ہیں کیونکہ اُنہوں نے یکے بعد دیگرے ٹیکسلا، ہڑپہ اور موہنجوداڑو میں ہمارے ہزاروں سال پرانے شہروں کے کھنڈرات دریافت کئے اور ہماری تاریخ کے مطالعہ کو وہ گہرائی بخشی جس نے انسانی برادری میں ہمیں بے مثال عزت اور احترام کا درجہ دلوایا۔ اتنا بلند و بالا درجہ کہ دورِ حاضر میں ہماری ان گنت حماقتیں‘ ناقابل معافی نالائقیاں‘ ناقابل بیان رسوائیوں کی داستانیں‘ تھوڑے وقت میں زیادہ کی جانے والی کرپشن‘ لوٹ کھسوٹ‘ بے ایمانی اور امانت میں خیانت کے جانے پہچانے حقائق بھی اسے ملیامیٹ کرکے خاک میں نہیں ملا سکے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج کے پاکستان میں اس قومی ورثہ (جو ساری انسانیت کا سرمایہ ہے) کے بچائو اور حفاظت کا نہ کوئی جذبہ پایا جاتا ہے‘ نہ احساس اور نہ اُس پر وہ فخر کیا جاتا ہے جس کا یہ بجا طور پر مستحق ہے۔ پشاور (جو صدیوں پرانی گندھارا تہذیب کا وارث اور امین ہے) سے لے کر کراچی تک ہماری بے حسی‘ سنگدلی اور قومی ورثہ کی غارت گری (Vandalism) کا جو خون کے آنسو رُلا دینے والا سلسلہ 70 برس پہلے (یعنی ہمیں آزادی ملتے ہی) شروع ہوا تھا‘ وہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ پاکستان میں گنتی کے چند لوگ اس قومی ورثہ کی حفاظت کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اُن کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہو گا۔ اس کالم کی جگہ اور کالم نگار کی معلومات میں کمی آڑے نہ آتی تو اُن سب لوگوں کے نام لکھ کر اُن کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کیا جاتا اور اُن پر داد و تحسین کے پھول برسائے جاتے حالانکہ یہ تمام نیک دل اور روشن دماغ اور اعلیٰ درجہ کے باشعور لوگ ثقافتی محاذ پر جو جہاد کر رہے ہیں‘ اُنہیں نہ کسی تعریف کی ضرورت ہے‘ نہ ستائش کی پروا ہے اور نہ ہی وہ ہمارے زندہ باد کے نعروں کے محتاج ہیں۔ یہ تو روشنی طبع ہے جو اُن پر آسمانی بلا بن کر نازل ہوئی اور اُنہیں اس رضا کارانہ خدائی خدمت گاری کی (اور وہ بھی (Thankless مصیبت میں گرفتار کرنے اور رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ دل دُکھانے والی ایک اور برُی خبر کراچی سے آئی۔ جو لوگ کراچی کے شاندار اور درخشاں ماضی کی خبر رکھتے ہیں وہ سولجر بازار کے Jufelhurst سکول کو ضرور اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ اس کے وسیع و عریض سرسبز گرائونڈ‘ عالی شان مضبوط اور مستحکم عمارت (برطانوی راج کی نشانی) باداموں کے درخت۔ بھلا ہو کراچی میں مٹھی بھر باشعور اور محب وطن لوگوں کا‘ جو حکومت سندھ کی 2012 میں کئے جانے والے اس فیصلہ کو (تاریخی عمارت کو گرا کر وہاں رہائشی فلیٹ بنائے جانے کا فیصلہ ) معطل کروانے اور اسے تاریخی ورثہ کا درجہ دلا کر اس کی درازیء عمر کی قانونی صورت پیدا کرنے میں وقتی طور پر کامیاب رہے۔ صد افسوس کہ آخرکار لٹیروں اور غارت گروں نے بازی جیت لی۔ اس عمارت کو گرانے کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ وہ اب غیر محفوظ ہے اور استعمال کے قابل نہیں رہی۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ مگر تاریخی عمارتوںکو گرایا نہیں جاتا اُن کی مرمت اور ضروری دیکھ بھال کرکے پھر محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ آخر وہی ہوا جس کا کئی سالوں سے خطرہ تھا۔ مذکورہ بالا تاریخی عمارت کے سر پر لٹکنے والی تلوار ایک کچے دھاگے سے بندھی ہوئی تھی اُسے بدعنوان‘ رشوت خور اور Land Mafia کے حصہ دار سرکاری افسروں کے ہاتھوں ایک جنبشِ قلم سے کاٹ دینے میں کوئی رکاوٹ یا مزاحمت پیش آتی تو کہاں سے؟ سکول کی تاریخی عمارت گرا دی گئی اور وہ بھی سولجر بازار تھانہ کے افسروں کے بھرپور تعاون اور سرپرستی کی بدولت۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وفاقی پولیس (FIA) کے ایک انسپکٹر بھی عمارت گرانے کے جرم کے ارتکاب میں براہ راست ملوث تھا۔ صرف یہی نہیں سندھ بورڈ آف ریونیو کی چشم پوشی نے اس کے کردار کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ جس ملک میں مقتول لوگوں سے یہ پوچھتے پھریں: ع 
اقربا میرے کریں خوں کا دعویٰ کس پر
وہاں ایک سکول کی تاریخی عمارت کس باغ کی مولی ہے؟ جس ملک میں ہزاروں افراد گم شدہ ہوں (اب اس فہرست میں کراچی کے دو چوٹی کے عالم فاضل اساتذہ ڈاکٹر حسن ظفر حارث اور اُن کی رہائی کے لئے کوشش کرنے والے ڈاکٹر ریاض احمد بھی شامل ہو گئے ہیں) وہاں ایک گم نام‘ گردوغبار میں اٹی ہوئی تاریخی عمارت کس شمار میں ہے؟ میں یہ سطور پڑھنے والوں سے وہی کہہ سکتا ہوں جو ایک شاعر نے بلبل کو مخاطب کر کے لکھا تھا: ؎
اے عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلائوں حالِ دل
ایک اچھا شعر اپنی جگہ مگر میں یقینا آپ کی آہ و زاری پر آمادہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں آپ کو دعوت عمل دیتا ہوں۔ اگر آپ تھوڑی سی بھی توجہ فرمائیںتو پاک سر زمین کو واقعی پاک صاف بنایا جا سکتا ہے۔ اپنے تاریخی ورثہ کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔ جن لاکھوں افراد نے اپنے ہاتھوں سے کراچی میں گندگی پھیلائی ہے وہی اسے صاف کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے شہروں میں گندگی کے انبار آسمان سے بارش بن کر تو نہیں برستے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایمان کے پرچہ میں پہلے 50 فیصد نمبروں سے محروم ہو گئے۔ باقی پچاس فیصد نمبروں کا فیصلہ یومِ آخرت ہوگا۔ عقل سلیم کے مطابق روز قیامت لگنے والی میزان کا پلڑا اُن لوگوں کے حق میں جھکے گا جو 51 فیصد نمبر لیں گے۔ نصف سے کم از کم ایک نمبر زیادہ۔ اس سے آگے کا حساب آپ خود لگا لیں۔ 
اب ہم کراچی سے واپس لندن آتے ہیں جہاں 12 اپریل کو روزنامہ ٹائمز نے صفحہ نمبر56 پر پروفیسر مصطفی العبدی El-Abbadi پر تعزیتی مضمون شائع کیا۔ آج سے پندرہ سال پہلے مصر کے دُوسرے بڑے شہر اسکندریہ میں ایک بہت بڑی لائبریری کے قیام کا سہرا اُن کے سر باندھا جاتا ہے۔ وہ 88 برس کی عمر پا کر دُنیا سے رخصت ہوئے تو دُنیا بھر میں قدیم تاریخ کی درس گاہوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی (جہاں سے اُنہوں نے اور اُن کی اپنی جتنی عالم فاضل بیوی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی) سے لے کر امریکہ کی Harward اوPrinceton اور قاہرہ اور اسکندریہ کی یونیورسٹیوں تک۔ 1974ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن مصر کے دورہ پر گئے تو انہوں نے اسکندریہ جا کر اُس قدیم لائبریری کے آثار قدیمہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی‘ جسے 25 سال قبل مسیح روم کے حکمرانJulius Caesar نے جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ اس لائبریری کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ اُس میں یونانی تمثیل نگاروں (بشمول Euripides اور Sophocles) ہاتھوں کے لکھے ہوئے قلمی نسخے بھی رکھے گئے تھے۔ امریکی صدر کی مذکورہ بالا خواہش ہی اسکندریہ کی عالیشان لائبریری کے قیام کا باعث بنی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو شخص اس کا محرک اور رُوح رواں تھا‘ اُسے افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت تک نہ دی گئی۔ وجہ؟ پروفیسر مصطفی نے باآواز بلند شکایت کی تھی کہ کھنڈرات کی کھدائی کرتے وقت بھاری مشینری کا بے دریغ استعمال نہ کریں۔ چونکہ آثارِ قدیمہ کو شدید نقصان پہنچ جانے کا خطرہ ہے۔ اسکندریہ لائبریری کے بانی نے پرُنم آنکھوں سے لائبریری کی افتتاحی تقریب کو اپنے گھر کی بالائی منزل سے کلوپیٹرا نامی پالتو بلی کی رفاقت میں دیکھا۔ لائبریری کی تعمیر میں چودہ برس لگے۔ عمارت کا کل رقبہ سوا دو لاکھ فٹ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ UNESCO نے 220 ملین ڈالر کا مالی عطیہ دیا۔ نئی لائبریری کے دروازے پر لگی ہوئی مرمر کی سلوں پر یہ الفاظ کندہ ہیں: ''یہ وہ دانش گاہ ہے جہاں Euclid نے اپنے نظریات مرتب کئے اور (ایک یونانی ماہرِ ریاضی) نے ساری دُنیا کا کل رقبہ ماپا۔ مذکورہ بالا دعویٰ کی سچائی کے بارے میں یہ کالم نگار کچھ نہ کہے تو بہتر ہو گا۔ کئی سال پرانی بات ہے‘ جب میں چکوال کی سیر کرنے اپنے پیارے دوست راجہ منور احمد کے پاس جو چوہہ سیدن شاہ کے رہنے والے ہیں) پہنچا تو وہ مجھے بکمال مہربانی اس مقام پر لے گئے جہاں البیرونی نے اپنی عارضی رصد گاہ بنائی اور بڑی طویل کاوش کے بعد کرہء ارض کا جو قطر ماپا وہ جدید تر عالمی آلات سے ثابت ہونے والے اعداد کے اتنا قریب ہے کہ آپ البیرونی کی اس بہت بڑی علمی کاوش پر عش عش کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ وہ قوم جو سارا وقت رہائشی پلاٹوں کے رقبہ کی پیمائش میں غرق ہو اُسے نہ البیرونی کا پتہ ہے اور نہ یونانی حساب دانوں کی خبر۔ ہم خوش خوراکی اور پلاٹوں کے گرداب سے کب نکلیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں