تذکرہ تین کتابوں کا …(قسط اوّل)

میں جی کڑا کر کے اپنے قارئین کو یہ خبر سنانا چاہتا ہوں کہ میں نے اُنہیں نو نئی کتابوں سے متعارف کرانے کی تیاری کر لی ہے۔ ہر کالم میں (جگہ کی کمی کی وجہ سے) صرف تین کتابوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہوتا ہے مجھے Easter کی تعطیلات کا فائدہ اور میرے اُن قارئین کا نقصان جو لوڈشیڈنگ (برقی دہشت گردی) سے پیدا ہونے والی پریشانی سے پیدا ہونے والے بیزاری اور خفگی کو کم کرنے کے لئے یہ کالم اس موہوم اُمید پر پڑھتے ہیں کہ وہ اُتنا دلچسپ ہوگا کہ اُسے مصالحہ دار کہاجا سکے۔ اُن کی دل جوئی کے لئے میں نے جس کتاب پرسے پہلے نظر ڈالی وہ غالباً مذکورہ معیار ِ پسندیدگی پر پورا اُترتی ہے۔ 
کتاب کانام ہی خطرات کی گھنٹی بجاتاہے۔ مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا نام انگریزی میں لکھا جائے اور پھر محتاط ترین الفاظ میں اُس کا اُردو ترجمہ کیا جائے۔ اب آپ اپنا دل تھام لیں چونکہ کتاب کا نام ہے۔Erotic Stories for Punjabi widows بالی کور جسوال نے 309 صفحات کی کتاب لکھی جو برطانیہ کے چوٹی کے پبلشر Harper Collins نے شائع کی۔ میں نے حسب معمول آکسفورڈ لغات (مرتبہ شان الحق حقی) کے صفحہ نمبر528 سے رُجوع کیا۔ کتاب کے نام کا پہلا لفظ دائیں کالم میں دسویں نمبر پر ہے۔ ترجمہ ہے شہوت انگیز۔افسوس کہ میں آپ کو ان الفاظ کا مطلب سلیس زبان میں بتانے سے قاصر ہوں۔ آپ خود لُغات دیکھیں یا اپنے دوستوں سے پوچھیں مگر اس بوڑھے کالم نگار کو کانٹوں میں نہ گھسیٹیں۔ اگر مصنفہ کا تعلق سکھ مذہب کے علاوہ جاٹ قبیلہ سے نہ ہوتا تو وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس قسم کی کتاب لکھنے کی جرات نہ کرتیں۔ مدت ہوئی کہ میں نے پڑھاتھا کہ بابائے اُردو نے Explosive کا کمال کا ترجمہ یوں کیا۔ ''بھک سے اُڑ جانے والا مادہ‘‘ مذکورہ بالا کتاب کا اس سے زیادہ موزوں تعارف نہیں کر ایا جا سکتا۔ اس کتاب میں بیان کی گئی کہانی شروع ہوتی ہے ایک بھارتی لڑکی Nikki سے جو اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر مغربی لندن کی ایک بستی (Southall) میں عمر رسیدہ سکھ عورتوں کو لکھنا پڑھنا
سکھانے کا کام شروع کرتی ہے جو بالکل ان پڑھ ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی مادری زبان (پنجابی) بھی نہ لکھ سکتی ہیں او رنہ پڑھ سکتی ہیں۔ یہ خواتین پڑھانے والی بی بی کے علم میں جو چٹخارے دار اضافہ کرتی ہیں۔ وُہ ناقابل اشاعت مگر قابل بیان قصے کہانیوں کی صورت میں پنجاب کے دیہات میں صدیوں نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔ سائوتھ آل کی سکھ بیوگان کو اس راز کا بھی علم تھا کہ تین سکھ لڑکیوں (کرنیا۔ گلشن اور مایا) کو کس نے اور کیوں قتل کیا؟ ظاہر ہے کہ اُنہوں نے (اپنے بزرگوں کی نظر میں) اپنے خاندان کی عزت پر دھبہ لگایا تھا جس کی وجہ سے وہ برطانیہ میں Honour Killing کا شکار ہو گئیں۔ راتوں کی نیند اُڑا دینے والی اس کتاب کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ جس پنجاب نے ہیر رانجھا۔ اور سوہنی مہینوال جیسے لازوال اور سدا بہار قصوں کو جنم دیا وہاں یہ سوچ صریحاً جھوٹ بولنے کے مترادف ہوگی کہ عاشقانہ جذبات پر مردوں کی اجارہ داری ہے۔ بے وقوف کے خیال میں مردوں (جو اکثریت میں ہیں) اورخواتین کے سینوں میں دل نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو اُس دل میں عشقیہ جذبات یا اس سے آگے بڑھ کر جنسی دلچسپی ممنوع اور ناقابل تصور ہے۔ اُردو نثر میںعصمت چغتائی اُردو شاعری میں فہمیدہ ریاض نے اس دقیا نوسی اور رواجی نکتہ نظر کی دھجیاں اُڑا دیں۔ 
اب جو دو کتابیں رہ گئیں اُن دونوں کا موضوع پاکستان ہے۔ آپ پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت (جو ہمارے باہم دست و گریباں اور ہر وقت بگڑے ہوئے بچوں کی طرح لڑنے جھگڑنے والے سیاست دان نہیں جانتے) کا صرف اس بات سے اندازہ لگالیں کہ قیام پاکستان کے پہلے پچاس سالوں میں اس پر جو کتابیں یورپ اور امریکہ میں شائع ہوئیں۔ پچھلے بیس سالوں میں شائع ہونے والوں کی تعداد اُن سے کہیں زیادہ ہے۔
کالم میں تذکرہ کی جانے والی دُوسری کتاب کا موضوع پاکستان کی ISI (Inter Services Intelligence)ہے۔ صفحات288 ۔لندن کے بڑے ناشر Hurst (جس نے میرے ایک بیٹے فاروق کی 1965میں پاک بھارت جنگ پر کتاب شائع کی تھی) نے اسے زیورِ طباعت سے آراستہ کیا۔ مصنف کانام ہے (جو میں نے پہلی بار پڑھا) Hein Kiessling کتاب شروع ہوتی ہے اکتوبر 2016 ء میں کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی سکول پر دہشت گردوں کے حملہ سے جس نے 60 نوجوانوں کی جان لی اور سو کو شدید زخمی کیا۔ مصنف کی رائے میں دہشت گردوں کا تعلق لشکر جھنگوی سے تھا۔ 9/11 کے واقعات کے بعد امریکہ کے لئے ممکن نہیں رہا کہ وہ پاکستان کو نظر انداز کر دے یا پہلے سے زیادہ اہمیت نہ دے۔ ظاہر ہے کہ کتاب کے کئی صفحات پاکستان میں (وُہ بھی ایبٹ آباد میں) اُسامہ بن لادن کی کئی سالوں پر محیط موجودگی اور پھر اُسکی امریکی کمانڈوکے ہاتھوں ہلاکت اور اس سنسنی خیز ڈرامہ میں ISI کے کردار پر تبصرہ اور تجزیہ کے لئے وقف کر دیئے گئے۔ یقینا یہ بیانیہ متنازعہ نوعیت کا ہے مصنف قابل معافی ہے کہ اُس نے معلومات اور قیاس کو ایک دُوسرے کے ساتھ ملا کر کتاب لکھی۔ ISI پر لاٹھی چارج کرنیوالوں کا حدود اربعہ افغانستان کی وزارت دفاع۔ امریکہ کی CIA اور برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین سے لے کر پاکستانی اخباروں کے چند کالم نگاروں (جو میرے مقابلہ میں ٹیپو سلطان جتنے بہادر تو ضرور ہوں گے) تک پھیلا ہوا ہے۔ مصنف نے انکشاف کیا ہے کہ ایک آسٹریلین فوجی افسر Major General Walter Joseph Cawnthorn نے ISI کی بنیاد رکھی۔ اس کتاب میں 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کو ISI کی سب سے بڑی ناکامی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ذکر ہو ISI کا اور بات افغانستان تک نہ پہنچے۔ اس کتاب میںISI کے کردار کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا۔ خصوصاً اس حقیقت کو نمایاں جگہ دی گئی کہ پاکستانی فوج کے 500 تجربہ کار (اور امریکی ڈالروں سے پیدا ہونے والے جذبہ جہاد سے سرشار) فوجی افسروں نے رُوسی فوج کے خلاف لڑنے والے اسی ہزار ''مجاہدین‘‘ کو جنگی تربیت دی۔ یہ کتاب اُن بہت سی کتابوں میں ایک ہے جو رُوس کے خلاف لڑی جانے والی خانہ جنگی (امریکی زبان میں جہاد) کے بارے میں اتنی تعداد میں لکھی گئی ہیں کہ کسی بھی لائبریری کا ایک چھوٹا شیلف بھرنے کے لئے کافی ہیں۔ مصنف نے بلا کم و کاست کھل کر لکھا ہے کہ امریکی سرپرستی میں جنم لینے والے مجاہدین کے کئی کمانڈر آگے چل کر جنگجو سردار۔ (دوستم کی طرح Warlord ) مجرموں کے ٹولوں کے سربراہ یا دہشت گردوں کے راہنما بن گئے۔ 
پاکستان پر لکھی گئی دُوسری (اور اس کالم میں بیان کردہ تیسری) کتاب بہت سے معیاری اور سنجیدہ۔ فکر انگیز اور تجزیاتی مضامین کا کمال کا مجموعہ ہے۔ نام ہے پاکستان چوراہے پر (Pakistan at the Cross Roads) ان الفاظ کے نیچے ایک دُوسرا عنوان بھی ہے۔ Domestic Dynamics and External Pressures کتاب کے مصنف کا نام ہے۔ Christopher Jafferlot ۔ 346 صفحات کی کتاب کی قیمت 44 پائونڈ یعنی 60 امریکی ڈالر ہیں۔ کتاب کی قیمت میری قوت خرید سے زیادہ ہے۔ غالباً قیمت اس لئے زیادہ رکھی گئی کہ اسے امریکہ کے چوٹی کے پبلشر کولمبیا یونیورسٹی پریس نے بڑی سج دھج سے شائع کیا ہے۔ ابھی تک یہ کتاب میری دسترس سے باہر ہے۔ اس لئے میں اس کے مندرجات پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔ کتاب کے بیانیہ کے دو ستون ہیں۔ داخلی حرکیات اور بیرونی دبائو۔ میں دُوسرے ستون (یعنی بیرونی دبائو) کی صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کروں گا۔ جاپان پر گرائے جانے والے دو ایٹم بموں کے بعد دُنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا بم (وزن 22 ہزار پائونڈ) وسط اپریل میں امریکہ نے افغانستان پر گرایا۔ جس کا ایک مقصد پڑوسی ملک پاکستان پر دبائو ڈالنا تھا۔ اگر ہمارے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں نے اس بم دھماکہ کی آواز سن لی ہے اورانہیں بڑھتے ہوئے خطرہ کا احساس ہے تو اُنہیں فی الفور فوج اور تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت بنانی چاہئے۔ اس کالم نگار کو اجازت دیں کہ وہ چھوٹے بچوں کی طرح اقتدار کی ہر لحظہ پگھلتی ہوئی آئس کریم پر لڑنے جھگڑنے والوں کو یاد کرائے کہ (بقول اقبال) : ؎
کھول آنکھ زِمیں دیکھ ، فلک دیکھ، فِضا دیکھ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں