تذکرہ تین کتابوں کا (آخری قسط )

قارئین کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ آج کے کالم میں کتابوں پر تبصرہ کی تیسری قسط ہی آخری ہوگی۔ Tim Marshall نے 266 صفحات کی جو کتاب لکھی جو Elliot and Thompson نامی مقابلتاً غیر معروف ناشرین نے شائع کی۔ اُس کا پورا نام ہے۔ Worth Dying for: The Power and Politics of Flags قومی پرچموں کی تاریخ ہی اس کتاب کا موضوع ہے۔ میں نے جونہی یہ سطر لکھی میرے کانوں میں ناہید اختر کی سریلی آواز میں گائے ہوئے گیت (ہمارا پرچم، پیارا پرچم) کے الفاظ گونجنے لگے۔ ابوالاثر حفیظ جالندھری نے ہمارا قومی ترانہ کیا لکھا اس میں ہمارا قومی نصب العین، ہماری منزل، ہمارے مقاصد، ہمارے خواب، ہمارے آورش اور ہماری تمنائیں، سب کی سب بیان کر دیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی کابینہ میں حفیظ پیر زادہ وزیر قانون تھے۔ ان کے والد پاکستان کی پہلی کابینہ کے رُکن تھے۔ وزیر تو وہ اُسی طرح کے (یعنی پرلے درجہ کے نالائق) تھے، جس طرح کے ہمارے دُوسرے وزیر ہوتے ہیں مگر اُن کی ایک خوبی یہ تھی کہ ستار بجانا جانتے تھے۔ سنی سنائی بات لکھتا ہوں کہ چھاگلا نامی موسیقار اُن کے اُستاد تھے اور ہمارے قومی ترانہ کی دُھن اُنہوں نے اپنے اُستاد سے مرتب کروائی۔ (قارئین سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس بارے میں مجھے مصدقہ معلومات دیں۔) مذکورہ بالا کتاب میں دُنیا بھر کے پرچموں کی مختصر تاریخ بیان کی گئی۔ پرچموں کی تاریخ کے علم کو انگریزی میں Vexillolog کہتے ہیں (یہ لفظ میں نے پہلی بار پڑھا)۔ آئی ایس یعنی داعش کے پرچم کا رنگ سیاہ ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ ہماری مذہبی روایات کے مطابق حضور ﷺ نے جس پرچم کے سایہ تلے غزوات میں حصہ لیا اُس کا رنگ سیاہ تھا۔ (کیا میں نے درست لکھا؟) اسلامی ریاست کے پرچم پر ہمارے پہلے کلمہ کا پہلا حصہ لکھا ہوتا ہے۔ جبکہ سعودی عرب کے پرچم پر پورا کلمہ اور اُس کے ساتھ تلوار کا نشان جو کہ وہ صحرائی تہذیب و تاریخ کی علامت ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ مسلمان ممالک کے پرچموں کا رنگ سبز ہوتا ہے اور اُن میں زیادہ تر چاند (اور وُہ بھی ہلال) اور تارا (یا تارے) نظر آتے ہیں اور یوروپی ممالک کے پرچموں پر مسیحی پس منظر کی وجہ سے صلیب کا نشان۔ یونین جیک انگلستان کا نہیں بلکہ سارے برطانیہ کا پرچم ہے اور جوں جوں انگلستان اپنے پڑوسی ممالک (سکاٹ لینڈ،ویلز اور آئر لینڈ ) پر قابض ہوتا گیا، اس کا پرچم بھی بدلتا گیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ (USA) 50 ریاستوں کے وفاق پر مشتمل ہے۔ اس لئے اُس کے پرچم پر ستاروں کی تعداد 13 سے بڑھ کر 50 تک پہنچ گئی ہے۔ رُوس میں اشتراکی انقلاب آیا تو قومی پرچم پر کمیونسٹ پارٹی کا نشان (درانتی اور ہتھوڑا) تھا ۔ پاکستانی پرچم پر سفید پٹی کا اقلیتوں سے وہی تعلق ہے جو بھارتی پرچم پر سبز پٹی کا۔ بھارتی پرچم کے وسط میں جو نشان نظر آتا ہے۔ اُسے اشوک چکر کہتے ہیں جو بھارت کی قدیم تہذیب کی علامت ہے۔ جو دلچسپ واقعہ اس کتاب میں نہیں لکھا گیا۔ وُہ میں آپ کو سناتا ہوں۔ ہر سال جب ایران میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ منائی جاتی ہے تو تہران میں ہونے والی پریڈ میں ایرانی فوج کے دستے جن شاہراہوں پر سے گزرتے ہیں اُن پر امریکی اور اسرائیلی پرچم بچھائے جاتے ہیں تاکہ فوجی دستے اُنہیںپائوں تلے روند سکیں۔ ایک اسرائیلی بزنس مین نے یہ منظراپنے ملک میں ٹیلی ویژن پر دیکھا تو اُس نے ایرانی حکومت سے رابطہ کر کے پوچھا کہ آپ اس پریڈ کے دوران جو اسرائیلی پرچم استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہاں تیار ہوتے ہیں؟ جواب ملا کہ ایران میں، اسرائیلی نے کہا کہ پھر تو وہ جعلی ہوئے۔ آپ مجھے مناسب قیمت دیں تو میں آپ کو اسرائیل میں تیار کردہ سو فیصدی اصلی پرچم فراہم کروں گا، سودا ہو گیا۔ اور اب ہر سال ایران میں روندے جانے والے پرچم خود اسرائیل برآمد کرتا ہے اور خوب مال کماتا ہے ۔
دس سال پہلے Ed Luce نے ایک اچھی کتاب (Inspite of the God's) لکھی۔ چھ سال پہلے بی بی سی کے دہلی میں مستقل نمائندئہMark Tully (جنہوں نے شادی بھی بھارت میں کی) کی اخباری فیچر کی طرح لکھی گئی دلچسپ کتاب India Non-Stop شائع ہوئی۔ مذکورہ کتاب اعداد و شمار سے بھری ہوئی ہے۔ 91,0000 بھارتی (جن کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے) امریکہ میں آباد ہیں۔ بھارت میں پچاس شہر ایسے ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس عشرہ میں ہر سال کے ہر ماہ بھارت میں ملازمت کے دس لاکھ نئے اُمیدوار اور طلبگار معاشی اُفق پر اُبھرتے ہیں۔ ایک بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں سرکاری محکموں نے (کم تنخواہ کے) کلرکوں کی 368 اسامیوں کا اشتہار دیا تو درخواست دینے والوں کی تعداد 23 لاکھ تھی۔ آسام میں چائے کے باغات میں کمر توڑ مشقت کرنے والے مزدُوروں کو بے حد معمولی خوراک اور رہائش کے علاوہ صرف پچاس روپے یومیہ ملتے ہیں۔ اگر یہی مزدور شمال سے سفر کرکے جنوبی ہند کی ریاست کیرالا چلے جائیں تو اُن کی آمدنی پانچ گنا بڑھ جائے گی۔ آندھراپردیش کے صرف ایک مندر نے پجاریوں کے سروں سے اُتارے ہوئے 500 میٹرک ٹن بال فروخت کر کے دو ارب روپے کمائے۔ مصنف کی رائے میں بھارت کی ترقی میں تین بڑی رُکاوٹیں ہیں۔ ایک تہائی آبادی کی غربت، ذات پات کا نظام اور مذہبی تعصب۔توقع کی جانی چاہیے کہ آنے والے وقت میں بھارت ان تینوں رکاوٹوں کو عبور کر لے گا۔ پولیس نے تامل ناڈو کی سابق وزیراعلیٰ آنجہانی جے للیتا کے گھر چھاپہ مارا تو 10500 ساڑھیاں، 750 بیش قیمت جوتے اور 660 ملین (آپ دس لاکھ سے ضرب دے لیں) روپے ملے۔ سب کا سب چوری کا مال، مصنف کی رائے میں بھارت کو دو محاذوں پر بڑی محنت کرنا ہوگی۔ خارجی محاذ پر اچھے سفارتی تعلقات جو دوستی اور تجارت کو فروغ دیں۔ داخلی محاذ پر سماجی استحکام مرکز گریز رُجحانات کی پسپائی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جس مذہبی تنگ نظری، کٹڑپن، اقلیتوں کے خلاف تعصب سستی اور کھوکھلی نعرہ بازی سے اُبھری ہے۔ وہ آگے چل کر بھارت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے، کتاب میں بمبئی کی مثال دی گئی ، جہاں کی کل آبادی کا پندرہ فی صد مسلمان ہیں، (یعنی ہر چھٹا شخص) لیکن حکومت اُن سے دُوسرے درجہ کے شہری کا سلوک کرتی ہے۔ کالم نگار صرف بمبئی پر لکھی جانے والی دو اچھی کتابوں کی سفارش کرنے کی اجازت چاہتا ہے۔Suketu Mehta کی لکھی ہوئی Maximum City اور Kataerink Booکی لکھی ہوئی Behind the Beautiful Forever ۔
اُنیسویں صدی نے بہت سے مہم جو پیدا کئے۔ مگر ان میں شاید ہی کوئی ایک Alexander Gardner سے زیادہ بڑا افسانوی کردار ہو۔ اُس پر جو کتاب حال ہی میں شائع ہوئی اُس کا نامThe Tartan Turban سر ورق پر شائع ہونے والی تصویر میں یہ کردار چار خانہ کی رنگین پگڑی پہنے بیٹھا نظر آتاہے۔ جانے پہچانے مورخJohn Key نے بڑی معلوماتی اور دلچسپ کتاب لکھی۔ آج تک یہ بھی پتہ نہیں چل سکا کہ وہ امریکی تھا یا آئرش؟ کہاں اور کب پیدا ہوا اور والدین کون تھے؟وہ کرایہ کا سپاہی ہونے کے ساتھ نئے مقامات دریافت کرنے والا (Explorer) بھی تھا۔ اُس نے عربی لباس پہن کر وسطی ایشیاء کے ممالک کا سفر کیا۔ راستہ میں ڈاکوئوں اور لوگوں کو پکڑ کر غلام بنانے والوں سے لڑتا اور تلوار چلاتا افغانستان کے پہاڑوں اور کافرستان جا پہنچا۔ اُس نے Oxus دریا اس طرح عبور کیا کہ وہ پانی جم کر برف بن چکا تھا۔ پشاور میں توپ خانہ کا کمانڈر بنا اور رنجیت سنگھ کی فوج میں بڑے عہدے پر فائز رہا۔ مرنے سے پہلے (اُس کا کوئی وارث نہ تھا) اُس نے یہ افواہ پھیلا دی کہ وہ ایک بڑے خزانہ کا مالک ہے جسے چھپادیا گیا ہے۔ ایک عرصہ تک بہت سے لوگ یہ خزانہ ڈھونڈتے رہے مگر کسی کو نہ ملا۔ الیگزنڈر کا سات برس رنجیت سنگھ کے توپ خانہ کا کمانڈر بنے رہنابھی ایک لطیفہ سے کم نہیں۔ وہ توپوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ مگر اپنی ذہانت سے سکھوں پر اپنی اہلیت کا نقلی رُعب ڈالنے میں کامیاب رہا۔ رنجیت سنگھ (کم از کم 32 بیویوں کو بیوہ بنا کر) دُنیا سے رُخصت ہوا تو مذکورہ کتاب کا ہیرو طرح طرح کی مصیبتوں میں گرفتار ہو گیا۔ اُس پر کئی آفتیں ٹوٹیں مگر وہ ہر بار بال بال بچ گیا۔ آپ یقین جانیئے کہ وہ سکھوں کے جنگجو اور مار دھاڑ کرنے والے گروپ کا فل ٹائم (جو نہنگ کہلاتے ہیں) رُکن بن جانے میں بھی کامیاب رہا۔ نہنگوں کا نیلا لباس پہنے، تلوار اور کرپان اُٹھائے، سر پر سکھوں والی پگڑی باندھے۔ سکھوں والی داڑھی کے ساتھ وہ سو فیصدی نہنگ (سکھ) لگتا تھا۔ صرف ایک خامی رہ گئی جو ناقابل علاج تھی اور وہ تھی پنجابی زبان بولنے میں کمزوری۔ (مگر یہ کمزوری آج کے پنجاب کے متوسط طبقہ کی بھی ہے ۔) اُس نے1877 ء میں وفات پائی۔ سکھ سلطنت کی ملازمت کے بعد اُس نے اپنی زندگی کے آخری سال بڑے آرام اور سکون کے ساتھ کشمیر میں گزارے۔ جہاں وہ سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنا رہا۔ وہ دُنیا سے یوں رُخصت ہوا کہ بستر مرگ کے ارد گرد اپنے وہ تمام لباس دیکھ سکتا تھا۔ جنہوں نے اسے بھیس بدلنے اور جان بچانے میں مدد دی تھی۔ جان بچانے کے لئے بھیس بدلنے کا یہ کوئی آخری واقعہ تو نہیں کہ آپ زیادہ حیران ہوں۔ آپ اپنے راہنمائوں کی طرف دیکھیں۔ اُن میں سے کئی ایک نے صرف اپنی جان بچانے اور عوام کو دھوکہ دینے کے لئے بھیس بدل رکھا ہے۔ بھیس تو سرکس کے بہروپیئے بھی بدلتے ہیں۔ مگر فرق صرف یہ ہے کہ بہروپیئے ہمیں ہنساتے ہیں اور سیاسی بہروپیئے ہمیں 70 سال سے رُلاتے چلے آرہے ہیں ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں