ضرور اک روز بدلے گا نظام ِقسمتِ آدم

میرے قارئین کے خیال میں مندرجہ بالا مصرع فیض صاحب کا ہوگا یا کیفی اعَظمی کا یا حبیب جالب کا یا احمد فراز کا۔ مگر یہ ان چاروں کا نہیں۔ یہ ساہیوال کے مقابلتاً گم نام شاعر (فیصل آباد کے احمد ریاض کی طرح ) مجید امجد کی ایک نظم سے لیا گیا۔ اس نظم کے اگلے دومصرعے بھی پڑھ لیں تاکہ لطف دوبالا ہو جائے۔
بنے گی اک نئی دُنیاسجے گا اک نیا عالم
شبستان میں نئی شمعیں گلستان میں نیا موسم
مسعود شعر جنوبی امریکہ کے دور دراز ملک چلی کے Pablo Neruda سے لے کر ہمارے مندرجہ بالاچاروں بڑے شعرائے کرام تک،ہر عہد میں اور ہر دیس میں وہ لوگ سیاسی اور ادبی اُفق پر اُبھرے اور غروب ہوئے ، جنہوں نے ایک نئی دُنیا ، نئی شمعوں،نئے موسم اور نئی رُت کا خواب دیکھا۔ میں مسعود شعر کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے حال ہی میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم کو پروفیسر امین مغل کے تذکرہ سے شروع کیا، جو سیالکوٹ کے ایک قصبہ کوٹلی لوہاراں کے رہنے والے ہیں اور جو 35سالوں کے لگ بھگ عرصہ سے لندن میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ ایک زمانہ میں ایک بڑی سیاسی جماعت (عوامی نیشنل پارٹی) کے سیکرٹری جنرل تھے اور اب؟ صرف اپنی شکست کی آواز۔ اتنے دل شکستہ ہیں کہ ایک لفظ بھی نہیں لکھتے۔ صرف اعلیٰ درجہ کی کتابیں پڑھتے ہیں اور بڑی عالمانہ تقریر کرتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ وہ یہ سطور پڑھ کر (جو وہ بلاناغہ کرتے ہیں)اتنے جلال میں آجائیں کہ کم از کم ایک اچھی کتاب لکھ ڈالیں۔ 
آیئے اب ہم مجید امجد کی طرف واپس چلیں۔ انگریزوں نے اُنیسویں صدی کے وسط میں پنجاب کو فتح کیا تو ساہیوال کا نام بدل کر پنجاب کے پہلے انگریز گورنر کے نام پر منٹگمری رکھا۔ لارنس باغ (جسے اب ہم باغ جناح کہتے ہیں) میں مے نوشی اور رقص و سرودکے کلب کی جو شاندار عمارت بنائی اور اُس کا نام منٹگمری ہال رکھا۔ (جہاں ان دنوں قائداعظم لائبریری ہے)۔ بھُولے بسرے سیاست دان میاں یاسین وٹو (مرحوم) جن کا تعلق منٹگمری سے تھا۔ وُہ 1966 میں مجھے ایک شام ملنے آئے تو باتوں باتوں میں اُن کے آبائی ضلع کی تاریخ اور نئے انگریزی نام کا ذکر آیا۔ میں نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ کوئی ایسا کام کرجائو جو ہمیشہ یاد رہے مل کر سوچا گیا کہ وہ ایسا کام کون سا ہو سکتا ہے؟ ہم نے یہ جواب ڈھونڈا کہ اُن کے آبائی ضلع کا نام سرکاری طور پر بدل کر اُسے اُس کا اصلی نام ساہیوال دیا جائے۔ میاں صاحب بھاگم بھاگ اُس وقت کے گورنر پنجاب کے پاس گئے۔ (یاسین وٹو نہ صرف وزیر تعلیم تھے بلکہ نواب کالا باغ سے قربت بھی تھی) نواب صاحب نام کی تبدیلی کی یہ تجویز سن کر خوش ہوئے۔ اُن کی منظوری کی دیر تھی کہ سرکاری طریق کار کے مطابق منٹگمری کا نام (قریباً ایک صدی کے بعد) پھر ساہیوال رکھ دیا گیا۔ جہاں ایک مسکین اور عاجزی کا پیکر فوڈ انسپکٹر اپنے پرُانے سائیکل پر سوار اپنے سرکاری فرائض بڑی ذمہ داری سے سرانجام دیتا تھا۔ یہ خستہ حال شاعر بڑے درجہ کا تھا مگر کسی گنتی میں شمار نہ تھا۔ ماسوائے اُن دو افراد کے جو یکے بعد دیگرے ساہیوال کے ڈپٹی کمشنربنے ۔ ایک مصطفی زیدی (جو خود ایک اچھے شاعر تھے) اور دُوسرے مظفر قادر۔ اُنہوں نے بکمال مہربانی مجید امجد کی اتنی عزت افزائی کی جس کے وہ مستحق تھے۔
گم ُنام شاعر مجید امجد کی غیر معروف نظم کا ایک مصرع آج کے کالم کا عنوان اس طرح بنا کہ مجھے لندن کے ایک تھیٹر (White Bear Theater) میں ایک سیاسی ڈرامہ دیکھنے کا دعو ت نامہ موصول ہوا۔ جس کا نام ہے۔ Divine Chaos of Starry, Things تجسس پیدا ہوا کہ آخرتمثیل کی بنیاد کس تاریخی واقعہ پر رکھی گئی ہے؟جو کچھ میں نے پڑھا وہ میں آپ کو بھی پڑھانا چاہتا ہوں۔کوئی بھی ایسا پڑھا لکھا شخض نہ ہوگا جو 1789 کے انقلاب فرانس سے تھوڑا بہت واقف نہ ہو۔ مگر 1956 ء میں میرے ہم جماعت پروفیسر امین مغل اور 1963 میں میرے رفیق کار مسعود اشعر کی طرح گنتی کے چند لوگ ہی ہوں گے جو 1871 میں اشتراکی ذہن رکھنے والوں کے پیرس پر انقلابی قبضہ (Paris Communk) کے بارے میں جانتے ہوں۔ بد قسمتی سے یہ کوشش ناکام ہو گئی اور کوشش کرنے والے بہادر کارکنوں پر عذاب اور عتاب کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان کارکنوں میں ایک جوان خاتون (Louise Michel ) بھی شامل تھی۔ آسٹریلیا کے شہر Brisbane سے مشرق میں ایک ہزار میل کے فاصلہ پر بحر اوقیانوس کے وسط میں ایک چھوٹے جزیرہ (جو فرانسیسی سلطنت کا حصہ تھا) کا نام ہے۔ New Caledonia ۔ فرانس کی حکومت نے ہزاروں اشتراکی انقلابیوں کو ایک بحری جہاز پر سوار کر کے اُس دُور دراز جزیرہ میں جلا وطن کر دیا۔ اور وہ بھی اس طرح کہ اُنہیں عرشہ جہاز کے اوپر رکھنے کی بجائے عرشہ کے نیچے بنائے گئے پنجروں میں بند کر دیا گیا۔ مذکورہ بالا خواتین بھی ان ہزاروں قیدیوں میں شامل تھی۔ بحری جہاز کو فرانس سے اس جزیرہ تک سفر مکمل کرنے میں چار ماہ لگے۔ دوبارہ لکھتا ہوں پورے چار ماہ ۔ اگر آپ وہاں جانے کا ارادہ کر لیں تو میرا مشورہ مانتے ہوئے ہوائی سفر کریں جو صرف 27 گھنٹے کا ہے۔ 
فرانسیسی حکومت کے سامنے دو مقاصد تھے۔ ہزاروں غیر پسندیدہ افراد سے چھٹکارہ اور اُس جزیرہ کی مقامی آبادی کو مغربی تہذیب کے قریب لانا اور دورِ جدید سے متعارف کرانا۔ مقامی لوگوں کا تعلق Malnesian نسل سے تھا اور نام تھا Kanak۔ نتیجہ سرکاری اندازہ کے برعکس نکلا۔ جب 1878 میں مقامی آبادی نے قتل عام اور ظلم و تشدد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو Michel اُن بہت تھوڑے سفید فام فرانسیسی آباد کاروں اور تارکین وطن میں شامل تھی جس نے اس بغاوت میں مقامی لوگوں کا ساتھ دیا۔ پیرس کمیون سے وابستہ انقلابیوں کا نشان سرخ رنگ کا سکارف تھا۔ جو 1878 ء کی بغاوت میں حصہ لینے والوں کو چھپانے اور یقینی موت سے بچانے میں کام آیا۔ 1970 ء میں (قریباً سو سال بعد) اس جزیرہ کے مقامی لوگوں نے اپنی آزادی کی جدوجہد دوبارہ شروع کی تو انہوں نے اس کا نام Les Foulards Rouge (سرُخ گلو بند) رکھا۔ آپ یہ پڑھ کر خوش ہوں گے کہ اب اہلِ فرانس نے (بقول غالب) قتل کے بعد جفا سے اس طرح توبہ کر لی ہے کہ اب پیرس کے ایک مرکزی باغ اور کئی سکولوں کو اُس کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ اور اب اُسے فرانسیسی تاریخ میں جون آف آرک کے بعد دوسرا بڑا درجہ دیا جاتا ہے۔
جن اشتراکی کارکنوں کو بحر اوقیانوس کی کھلی جیل میں (خلیج بنگال میں جزائر انڈیمان کی طرح) عمر قید کی سزا دی گئی اُن کی تعداد چار ہزار تھی۔ ان میں سے جن نو سو افراد کو سب سے خطرناک (جدید زبان میں دہشت گرد) سمجھا گیا۔ اُنہیں ایسے چھوٹے جزیرہ میں اُتارا گیا جہاں سے فرار ہونا ممکن نہ تھا۔ آج کے کالم کی موضوع عہد ساز خاتون وہاں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بے کار نہ بیٹھی رہی۔ (اقبال کی طرح اُن کا جنون روز محشر بھی فارغ نہ بیٹھے گا) اُس نے مقامی آبادی کی فوک کہانیوں پر مشتمل کتاب لکھی۔ وہ اتنی بصیرت کی مالک تھی کہ اُسے پیرس اور اُس سے کئی ہزاروں میل دُور ایک جزیرہ میں ہونے والی دونوں بغاوتوں کے درمیان بہت سی باتیں مشترک نظر آئیں۔ مجید امجد اپنی نظم میں آنے نئے موسم کی تاریخ دریافت کرتے ہیں۔ 
وہ رُت اے ہم نفس جانے کب آئے گی؟
اب آپ بتایئے کہ ہم شاعر کو کیا جواب دیں ؟ باقی دُنیا کو چھوڑیں۔ وطن عزیز کو دیکھیں۔ سیاسی منظر نامہ کو ایک طرف Dawn Leaks اور دُوسری طرف Panama Leaks نے اتنا گدلا اور گرد آلود کر دیا ہے کہ ہمیں کروڑوں محنت کش افراد کے ہزاروں مسائل نظر نہیں آتے۔ اربوں روپے لوٹنے والوں کی نظریں مزید لوٹ مار پر جمی ہوئی ہیں اور اُن کے دستر خوان سے گرے ہوئے ٹکڑوں پر پلنے والوں کی نظریں اپنے سرپرستوں پر (جنہیں پنجابی میں مائی باپ کہتے ہیں)۔ اُفتادگانِ خاک (کم از کم نصف آبادی) اقبال کی چیونٹی کی طرح خاک راہ میں اپنا رزق ڈھونڈتے ڈھونڈتے اُسی مٹی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اقبال کا عُقاب (ہمارا باشعور طبقہ) اُنہیں خاطر میں نہیں لاتا اور جبکہ غیر عوامی بلکہ عوام دُشمن لوگوں کا سارا دھیان کروڑوں اربوں روپے کمانے اور چُھپانے پرمرکوز ہے۔ اقبال کی طرح کا اور اُس کے معیار کا دانائے راز آئے تو کہاں سے آئے؟
ہماری اُمیدوں کا آخری چراغ وہ لوگ ہیں۔جو شعور رکھتے ہیںانہیں چاہیے کہِ وہ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے نکل کر ایک بڑی جامع مسجد بنانے کے ایک مشترکہ اعلانیہ کے پرچم تلے اکٹھے ہو جائیں۔ وُہ موجودہ نظام (Status Quo) کو انقلابی اصلاحات سے ختم کرنے اور گرتی ہوئی دیوار کو ایک نہیں کئی دھکے دینے کے لئے مل کر قدم بڑھائیں۔ اپنی آواز بیک زبان بلند کریں ۔تو ہم اندھیرے سے روشنی کی طرف پہلا قدم اُٹھائیںگے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں