اساتذہ کی فریاد

پنجاب کے ہزاروں اساتذہ کی فریاد ہزاروں میل کا سفر کر کے اس کالم نگار تک برطانیہ پہنچی۔ ایک سابق اُستاد کے کانوں تک جس نے پانچ سال پاکستان کے کالجوں میں (Aitchisonکالج میں ایک سال) اور برطانیہ میں دس سال اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں سماجی علوم پڑھائے۔ دس برس پڑھانے کے بعد خیال آیاکہ اب کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر پڑھنا چاہئے اور وہ بھی قانون کا مضمون۔ تعلیم ختم ہوئی تو عمر پچاس برس ہو چکی تھی۔ وکالت کی رجسٹریشن کی رسمی کارروائی مکمل کرنے کا وقت آیا تو وہاں کام کرنے والی معصوم خواتین نے پنشن کا فارم تھمایا۔ جب درخواست گزارنے شعبہ وکالت میں داخلہ کا فارم مانگا تو اُن کے چہروں پر پھیلی ہوئی حیرت قابل دید تھی۔ گزشتہ تیس سالوں پر پھیلی ہوئی وکالت کے باوجود(اُردو شاعری کے ایک محاورہ کے مطابق) اپنی پہلی محبت (تعلیم و تدریس) کے نقوش دل و دماغ میں زندہ و تابندہ ہیں۔ وسط مئی میں مجھے لندن میں ایک بڑی تعلیمی کانفرنس میں شرکت کرنے اور پاکستان کے نظام تعلیم پر تقریر کرنے کی دعوت ملی۔ پنجاب کے اساتذہ کے مطالبات کو وہاں بیان کرنے اور یورپ بھر کے اساتذہ کی دلی ہمدردی حاصل کرنے کا اس سے اچھا اور کون سا موقع ہو سکتاتھا؟ میں نے اس سے پورا فائدہ اُٹھایا۔ 
میں اس کالم کے توسط سے اپنے قارئین کی توجہ اس بات کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ پنجاب میں کئی سالوں سے اساتذہ کی مختلف تنظیمیں اپنے جائز مطالبات کے حق میں احتجاج کرتی آرہی ہیں۔ اس دوران اساتذہ کے راہنمائوں کو تبادلوں (جو یورپ میں انہونی بات ہے) معطلی۔ سرکاری تفتیش (انکوائری) اور طرح طرح کی سزائوں (جن میں گرفتاری اور جیلوں میں قید بھی شامل ہے) کا سامنا کرنا پڑا۔ محکمہ تعلیم کے سربراہ (سیکرٹری محکمہ تعلیم) مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ سرکاری اختیارات کے اتنے موثر استعمال کا ہنر جانتے ہیں کہ ہمیشہ اساتذہ کی اجتماعی تحریکوں کو ناکام بنانے میں کامیاب رہے۔ متحدہ ٹیچر کونسل کے پریس سیکرٹری (جن کے پاس اور بھی تین کلیدی عہدے ہیں) جناب کاشف شہزاد چوہدری نے مجھے یہ خوش خبری سنائی ہے کہ اساتذہ کی آٹھ تنظیمیں اب متحد ہو گئی ہیں اور متحدہ اساتذہ کونسل اس اتحاد کا نام ہے۔ جس کے مطالبات مندرجہ ذیل ہیں ۔ اساتذہ کی ملازمتوں کے گریڈ بہتر بنائے جائیں۔ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن اور دانش اتھارٹی کے ذریعہ سرکاری سکولوں کو پرائیوٹ ملکیت میں نہ دیا جائے۔ اساتذہ اور ہیڈ ماسٹروں کو سزا دینے کے لئے شروع کی جانے والی سرکاری کارروائیاں (انکوائری) بند کی جائیں۔ عارضی معاہدوں (کنٹریکٹ) کی بجائے اساتذہ کو مستقل ملازمت دی جائے۔ افسر شاہی نے اساتذہ کے ساتھ ہمیشہ نہایت بے رحمی کا سلوک کیا ہے۔ جو افسر اچھے ہوں وہ برُا سلوک کرنے کی بجائے سنگدلانہ لاپروائی اور چشم پوشی کی روش اپناتے ہیں۔ 2014 ء میں اساتذہ کی تعلیمی قابلیت بڑھائی گئی۔ لیکن تنخواہ نہ بڑھائی گئی۔ پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ مگر سرکاری سکولوں کی تعداد 64 ہزار سے کم ہو کر 53 ہزار رہ گئی ہے۔ ان میں وہ پانچ ہزار سکول بھی شامل ہیں جو پنجاب تعلیمی فائونڈیشن کے لحاظ سے پرائیویٹ لوگوں کو دے دیئے گئے ہیں۔ حکومت پنجاب نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ڈسٹرکٹ ایجوکیشن بنائی۔ مگر بدنظمی اور افسر شاہی کے اندر کھینچا تانی اور سیاسی قوتوں کی مداخلت سے پُرانا نظام درہم برہم ہو گیا اور اُس کی جگہ نیا نظام بنایا نہیں جا سکا۔ انتظامی مشینری کے مفلوج ہو جانے سے سب سے زیادہ اساتذہ متاثر ہوئے۔ ترقی اور پنشن کے معاملات سرد خانہ میں چلے گئے۔ حکومت پنجاب کی نالائقی اور بدترین کارکردگی نے چار لاکھ اساتذہ کو صرف دل آزاری نہیں دی بلکہ ان کے روزگار کو برُی طرح متاثر کیا ہے۔ کیا ہماری اندھی‘ گونگی اور بہری سیاسی جماعتوں کا اوّلین فرض نہیں کہ وہ سب مل کر نظام تعلیم کو تباہی سے بچائیں اور اساتذہ کو وہی باعزت مقام دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ 
اب ہم چلتے ہیں باقی خبروں کی طرف۔ آپ جانتے ہیں کہ مصر کے فوجی آمر عبدالفتاح السیسی سے بڑا نہ کوئی جمہوریت پسند ہو سکتا ہے اور نہ اسلام کا محافظ اور خدمت گزار ۔ موصوف ٹرمپ کی خوشامد میں باقی سب سربراہانِ مملکت سے بازی لے گئے۔ اُنہوں نے اپنے ممدوح کو کہا ''آپ اتنے کمال کی شخصیت ہیں کہ آپ ناممکن کو بھی ممکن بنا کر دکھا دیتے ہیں‘‘۔ ٹرمپ کو اس جھوٹی تعریف کے ساتھ متفق ہونے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ سعودی دارالحکومت کی ہر سڑک کو قدم قدم پر صدر ٹرمپ کی قد آور تصاویر سے سجایا گیا تھا۔ میزبانوں نے اپنے مہمان سے 110 ارب ڈالروںکا اسلحہ خریدا تو اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ٹرمپ نے ایران کو ساری دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ مگر سچائی یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو لوگ مصروف جہادہیں‘ اُن کی اکثریت ایران نواز نہیں ہے۔ خود ایران کو دیکھیں کہ جہاں کھلے انتخابات میں ایک معتدل مزاج شخص حسن روحانی کو دُوسری بار اپنا صدر چناگیا۔ ان کے مقابلہ میں احمدی نژاد کی طرح مغرب دُشمن ابراہیم رئیسی کو57 فیصد کے مقابلہ میں صرف 38 فیصد ووٹ ملے۔ مبصرین کی رائے میں صدر روحانی سے توقع کی جاری ہے کہ وہ اپنی کابینہ میں پہلی بار ایک خاتون اور ایک سنی کو شامل کریں گے۔ ایران کے رُوحانی پیشواء (جو آئینی طور پر سب سے زیادہ بااختیار ہیں) آیت اللہ خامنائی (عمر 77 برس) اب اپنے عہدہ سے سبکدوش ہونے والے ہیں‘ اور چاہتے ہیں کہ صدارتی انتخاب میں شکست کھاجانے والے ابراہیم رئیسی اُن کے جانشین بن جائیں‘ مگر ایران کے جمہوری نظام میں یہ فیصلہ کوئی فرد واحد نہیںبلکہ چوٹی کے 88 علماء کریں گے۔
2017 ء کا 20 مئی کا دن اس لئے یادگار رہے گا کہ لندن کے ثقافتی مرکز South Bank Centre میں پہلی بار کراچی میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام منایا جانے والا سالانہ ادبی میلہ لندن میں ہوا اور بہت کامیاب رہا۔ داخلہ ٹکٹ 20 پائونڈ تھا اور پھر بھی سارے کے سارے ٹکٹ کئی دن پہلے فروخت ہو گئے۔ افتتاحی تقریر ہمارے مشہور ناول نگار محمد حنیف نے کی اور بہت اچھی کی۔ لگی لپٹی رکھے بغیر ہماری ساری خامیاں (خصوصاً گم شدہ افراد کے حوالہ سے) گنوائیں۔ پاکستان کے ہائی کمشنر سید ابن عباس‘ ہائوس آف لارڈز کی رُکن سیدہ وارثی‘ کمیلاشمسی‘ شجاع نواز‘ ضیاء الدین سردار‘ تیمور رحمان‘ حارث خلیق‘ ڈاکٹر افتخار ملک اور ڈاکٹر فاروق باجوہ کے علاوہ پاکستان‘ برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والے پاکستانی دانشوروں نے سارا دن سامعین کے علم میں اضافہ کیا۔ سامعین میں مقامی انگریز خواتین و حضرات کی بڑی تعداد کی موجودگی نمایاں تھی۔ اور خاص طور پر نوجوانوں کی۔ دن کا اختتام موسیقی کے ایک بہت اچھے پروگرام پر ہوا۔ پشاور سے آئے ہوئے طائفہ نے پختون دُھنیں بجا کر اور پشتو گانے گا کر میلہ لوٹ لیا۔ کتنا اچھا ہو کہ پختون خوا کے علاوہ پنجاب ۔ سندھ اور بلوچستان سے بھی عوامی موسیقی پیش کرنے والے گروپ برطانیہ‘ یورپ اور امریکہ میں اپنے فن کے کمالات پیش کرتے رہیں۔ بقول مختار مسعود ''جلال کے ساتھ جمال بھی ایک قوم کی شناخت ہوتی ہے۔‘‘ پنجاب کے علما کرام نوٹ فرمائیں کہ صوبہ پختون خوا میں وہاں کے نمازی‘ روزے دار اور پرہیز گار لوگ بھی خٹک ڈانس میں رقص کرتے ہیں۔ تہجد گزار سعودی فرماں روا تلوار پکڑ کر عرب کا روایتی رقص کرتا ہے۔ جناب سراج الحق یا مولانا فضل الرحمن میں سے کوئی بھی ہمارا سربراہ مملکت بن جائے اور وہ سعودی عرب کے سرکاری دورہ پر جائے تو اُسے اپنے میزبانوں کی خوشنودی کی خاطر تلوار پکڑ کر اُن کے ساتھ رقص کرنا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ یہ وارننگ پڑھ کر یہ بزرگان پاکستان میں اسلامی نظام لانے اور خود سربراہ مملکت بن جانے کے ارادہ پر نظر ثانی کریں۔ آخر وہ ایک غیر شرعی حرکت (اور وہ بھی برسر عام) کرنے کی کڑوی گولی کھا کر اپنی عاقبت کیوں خراب کریں۔ جس کا آپ کے کالم نگار کو اُس شام بھرپور موقع ملا) اس تاریخی تقریب کے انعقاد کا ثواب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی سربراہ آمنہ سید کو جاتا ہے جو نہ صرف شکریہ بلکہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ہزاروں دُوسرے لوگوں کی طرح اس کالم نگار کو اگلے سال بھی ماہ مئی میں اس قسم کی یادگار تقریب کا انتظار رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں