دریائوں کی قانونی حیثیت اور شخصیت

اپنے قارئین کو یہ بتانے یا یاد کرانے کی ضرورت نہیں کہ جب سے انسانی تہذیب و تمدن تاریخ کے اُفق پر نمودار ہوئی ہے۔ اُس میں دریائوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ یورپ میں ڈینیوب ۔ انگلستان میں ٹیمز ۔ برازیل میں ایمازون ۔ مصر میں دریائے نیل ۔ نیو یارک میں ہڈسن۔ بنگلہ دیش میں برہم پترا‘ بھارت میں گنگا اور جمنا۔ پاکستان میں سندھ‘ عراق میں دجلہ اور فرات۔ سب ممالک اور ان میں بہتے ہوئے دریائوں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ اس محدود جگہ میں گنوائی نہیں جا سکتی۔ دریائوں کا ذکر کرنا اُس دریا کی خبر کی وجہ سے ضروری ہو گیا جو نیوزی لینڈ میں بہتا ہے۔ نام ذرا ٹیڑھا ہے اور بولنے میں مشکل اور وہ ہےWhanganvi ۔ یہ اُس دور دراز ملک کا تیسرا بڑا دریا ہے۔ اس دریا کو دنیا بھر کے قانون میں یہ نمایاں مقام حاصل ہے کہ تین ماہ قبل نیوزی لینڈ کے قانون کے مطابق اسے وُہی قانونی حیثیت دی گئی جو لمیٹڈ (Limited)کمپنی کو دی جاتی ہے۔ قانونی زبان میں اسے Person تسلیم کر لیا گیا۔ اب یہ دریا جائیداد کا مالک بن سکتاہے۔ قرض لے سکتا ہے۔ عدالتوں میں درخواست دے سکتا ہے۔ نیوزی لینڈ میں یہ انوکھی بات ہر گز نہیں چونکہ تین برس پہلے وہاں ایک نیشنل پارک (Urewers ) کو بھی قانونی حیثیت دے دی گئی تھی۔ دُنیا بھر میں لمیٹڈ کمپنی اُس میں کام کرنے والوں کے آزاد حقوق اور ذمہ داریوں کی مالک بن جاتی ہے۔ 1840 ء میں نیوزی لینڈ کی مقامی آبادی (Maori) نے ایک معاہدہ (Treaty of Waitangi) کے تحت اپنے آبائی ملک پر حکومت 
کرنے کا حق سفید فام یورپی آباد کاروں کو دے دیا اس معاہدہ کا مقصد مقامی آبادی کے حقوق کی حفاظت کرنا تھا۔ مگر اسے گذشتہ 175 سالوں میں بار بارپامال کیا گیا۔ نیوزی لینڈ کی ہر حکومت اس کوشش میں مصروف رہی کہ مقامی آبادی کے ساتھ ہر قانونی جھگڑے کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کر لیاجائے۔ مقامی آبادی کا ذہن بھی ہندوستان کے لوگوں سے ملتا جلتا ہے جو گنگا اور جمنا کو مقدس دریا سمجھ کر ان کی پوجا کرتے ہیں۔ خود ہمارے ہاں جہلم میں ٹلہ جوگیاں کو بھی خصوصی احترام کا درجہ دیا جاتا ہے۔ مقامی آبادی کے عقیدہ کے مطابق اُس کا دریا کے ساتھ (اور وہاں بہنے والے دُوسرے دریائوں کی ساتھ بھی) ایک روحانی رشتہ ہے۔ آپ اُن کا ایک مقولہ پڑھ لیں۔ ''میں ہی دریا ہوں۔ چونکہ ہم دونوں ایک ہی چیز کے دو روپ ہیں۔‘‘ اب نیوزی لینڈ کے قانون کے تحت مذکورہ بالا دریا کو ایک زندہ وحدت (Living Whole ) تسلیم کیا گیا ہے۔ جسے مختلف حصوں میں نہ تقسیم کیا جا سکتا ہی اور نہ بانٹا جاسکا ہے۔ جب پارلیمنٹ نے یہ قانون منظور کیا تو گیلری میں بیٹھی مقامی آبادی نے خوشی سے دس منٹ تک تالیاں بجائیںاور ترانے گائے۔ عملی صورت یہ ہے کہ اس دریا کے دو محافظ مقرر کئے گئے ہیں۔ ایک حکومت مقرر کرے گی اور دوسرا مقامی آبادی ۔ یہ دونوں مل کر دریا کے ماحول کی حفاظت کریں گے۔ اُس میں بہتے ہوئے پانی بلکہ اس کے ساحلوں کو بھی ہر نقصان سے بچائیں گے۔ حکومت نے مقامی آبادی کو 56 ملین ڈالر بطور ہرجانہ ادا کیا ہے تاکہ 175 سالوں میں کی جانے والی زیادتیوں کا معاوضہ ادا کیا جاسکے۔
ایک بھارتی عدالت نے بھی نیوزی لینڈ کے اس تاریخ ساز فیصلے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ گنگا اور جمنا کی بھی اپنی قانونی حیثیت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اگر ان دریائوں کے پانی میں کسی بھی طرح کی گندگی کی آمیزش کی جائے گی تو وُکلا کے لئے یہ ثابت کرنا ضروری نہ ہوگا کہ اس آلودگی سے کون لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ اب ان دریائوں کے پانی کو آلودہ کرنا بذات خود جرم ہوگا۔ بھارت کی ایک ارب 30کروڑ آبادی میں کروڑوں افراد ظلم و ستم کا شکارہوں گے مگر غالباً ان دو دریائوں سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ بھارت کے دو دریائوں کا ذکر کرنے سے مجھے وہاں بننے والی ایک نئی فلم یاد آئی۔ جس کا نام ہے ''برُقع کے نیچے لپ سٹک‘‘ جس کی مرکزی کردار چار قصباتی خواتین ہیں۔ ان کی جذباتی زندگی میں اُتار چڑھائو‘ اُن کی خواہشات‘ اُن کے خدشات‘ اُن کے خواب اس غیر رواجی فلم کا موضوع ہیں‘ جو ہمیں بتاتی ہے کہ ان چار گھریلو خواتین پر کیا گزری۔ جب یہ فلم سنسر بورڈ کو دکھائی گئی تو اُس نے نمائش کا سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا۔
فلموں کے تذکرہ کے بعد ایک نظر کرکٹ کی دُنیا پر ڈالتے ہیں انگلستان کی کرکٹ ٹیم (MCC)میں ان دنوں جو تین ایشیائی کھلاڑی ہیں وہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ تینوں کا آبائی تعلق پاکستان سے ہے ان کے نام ہیں۔ حسیب حمید، معین علی اور عادل رشید‘ جو چوتھا کھلاڑی اس صف میں شامل ہونے کو تھا وہ بنگلہ دیش کے خلاف ایک اور بھارت کے خلاف دو ٹیسٹ میچ کھیل کر 25 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا ہے‘ نام ہے ظفر انصاری‘ وہ نہ صرف ٹیسٹ ٹیم بلکہ Surreyکی کائونٹی ٹیم سے بھی ریٹائر ہو گیا ہے۔ اس نے کل 71 فرسٹ کلاس میچوں کے لئے بطور آل رائونڈر129 وکٹیں حاصل کیں اور 3009 رنز بنائے۔ ظفر نے کیمبرج یونیورسٹی سے سماجی علوم میں ڈبل فرسٹ کی ڈگری اور لندن یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ جب ظفر نے دیکھا کہ وہ کمر میں درد کی وجہ کرکٹ کا چوٹی کا کھلاڑی نہیں بن سکتا تو اُس نے فیصلہ کیا کہ کرکٹ چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرے اور اپنی خوبیوں کو کسی دُوسرے میدان میں اُجاگر کرے۔ برطانوی اخباروں نے ظفر انصاری کی ریٹائرمنٹ کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ 
ہندوستان کے بدنصیب عوام ابھی مغلیہ دُور کے مصائب اور پے در پے پڑنے والے قحطوں کی عذاب سے نہ سنبھلے تھے کہ برطانوی راج میں پڑنے والے قحط شروع ہو گئے جن کا نکتہ عروج 1940 میں پڑنے والا قحط بنگال تھا۔ میں نے اس بے حد تکلیف دہ موضوع پر جو کچھ پڑھا ہے‘ اگر میں یہاں اُس کا خلاصہ لکھ دوں تو صبح کے وقت اخبار پڑھنے والے ناشتہ نہ کر سکیں گے۔ کوئی سال ایسا نہیں جاتا جب ہمیں اپنے ملک میں تھر میں پڑنے والے قحط کی برُی خبریں نہ آتی ہوں۔ قحط کے دل ہلا دینے والا موضوع کا ذکر اس لئے آیا کہ ایک بڑی اچھی فلم بنا کر نمائش کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔ جس کا نام ہے Bitter Harvest ۔ قحط کا نام تھا Hulg Domor یہ دو سال (1932-33 ) رُوس کے مقبوضہ علاقہ یوکرین میں پڑا ۔ بدترین انسانی فیصلوں کی وجہ سے پڑنے والے اس قحط نے کئی لاکھ افراد کی جان لے لی۔ Samantha Banka اچھی گلوکارہ اور اداکارہ ہے۔ اس نے فلم میں ایک ایسی یوکرینی لڑکی Natalka کا کردار ادا کیا جو قحط کے عذاب عظیم کے دوران نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے افراد خانہ کو موت سے نجات دلانے کے لئے ہر قسم کے جتن کرتی ہے اور بمشکل کامیاب ہوتی ہے۔ مشکل کا لفظ لکھنے میں تو کوئی مشکل پیش نہیں آتی مگر کوئی شخص چھوٹی یا بڑی مشکل میں گرفتار ہو جائے تو وہ کس طرح اس عذاب سے نکلنے میں کامیاب ہوتا ہے‘ صرف وہی جانتا ہے۔ اس فلم کی تیاری میں یوکرائن کے اُن لوگوں نے بھی حصہ لیا جن کے والدین یا دادا دادی‘ نانانانی اور دُوسرے بزرگ اس قحط کا شکار ہونے والے لاکھوں افراد میں شامل تھے جو بچ گئے وہ اپنی دُکھ بھری داستان بیان کرتے تو یہ سُن کر فلم میں کام کرنے والے ذہنی طور پر اتنے بیمار ہوجاتے کہ اُن کے لئے کام کرنا دشوار ہو اجاتا۔ تھر میں پہلے مور مرتے ہیں‘ پھر بچے اوراب بالغ افراد۔ اگر رعایا اور اُفتادگان خاک پر مسلط حکمران طبقہ میں اتنی سوجھ بوجھ بھی ہو جو عام گھریلو خاتون میں ہوتی ہے تو دُنیا میںایک بھی قحط نہ پڑے۔فراعین مصر کی بادشاہت تین ہزار سال لمبی تاریخ پر محیط ہے۔ ایک فرعون کے عہد میں مصر کے عوام کی قسمت جاگی تو اُنہیں حضرت یوسف علیہ السلام کی دُور اندیشی اور فراست نے قحط سے بچا لیا۔ اب آپ بتائیں کہ ہم اپنے ملک کے کس بازار میں جائیں جہاں ہمیں اپنا نجات دہندہ مل جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں