اندھیرا اور چراغ…(قسط اوّل)

اندھیرے سے مراد ہے آج کا امریکہ اور چراغ ہیں وہاں کے ایک ممتاز سیاست دان، عوام دوست اور سامراج دُشمن Bernie Saunders جو امریکی پارلیمنٹ کے ایوان بالا Senate کے رُکن ہیں۔ جس کے وہ پہلی بار 2006 ء میں رُکن بنے 2012 میں اُنہیں اپنی ریاست Vermont کے عوام کے 71% ووٹ ملے۔ اس سے پہلے وہ ریاستی اسمبلی کے سولہ سال رُکن رہے۔ اُس سے پہلے Burlington (اُس ریاست کا سب سے بڑا شہر ہے) کے آٹھ سال میئر رہے 35 سالوں پر پھیلی ہوئی سیاسی زندگی جس میں اُن کی حق گوئی۔ حق و انصاف کی علمبرداری اور بے داغ کردار نے اُنہیں امریکی اندھیرے میں چراغ۔ آسمان پر چمکنے والی کہکشاں کا حصہ اور روشنی کا مینار بنا دیا ہے۔ پچھلے سال اُنہوںنے اپنے آپ کو ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر بطور صدارتی امیدوار امریکی عوام کے سامنے پیش کیا تو اُنہیں ایک کروڑ بتیس لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے۔ اگر انہیں اپنی پارٹی کا ٹکٹ مل جاتا تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ ٹرمپ کو ضرور ہرادیتے۔ Bernieدو جون کی شام کو لندن تشریف لائے اور ڈھائی ہزار افراد سے بھرے ہوئے ہال میں وہ تقریر کی جو اس کالم نگار کی طرح ہر اُس خوش نصیب کو ہمیشہ یاد رہے گی جو اُس اجلاس میں موجود تھا۔ داخلہ کے ٹکٹ کی فروخت35 پائونڈ سے شروع ہوئی اور 70 پائونڈ پر ختم ۔ یہ بیان کرنا بہت مشکل ہے کہ سامعین نے اپنے معزز مہمان کا کتنا گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اس اجلاس میں شرکت نے مجھے یہ نکتہ بھی سمجھایا کہ سیاست دان الیکشن جیت جائے تو ایک ملک یعنی ایک مخصوص اور محدود رقبہ پر حکومت کرتا ہے۔ جبکہ راہنما اور قائد (جس طرح ہمارے قائداعظم) دلوں پر حکومت کرتا ہے۔ صدر یا وزیراعظم کے عہدے کی میعاد ختم ہو جائے تو وہ
بھی اس لحاظ سے ختم ہو جاتا ہے کہ وہ اُس مقام سے محروم ہو جاتا ہے جو اُسے اقتدار نے وقتی طور پر دیا تھا۔ آپ ہمارے چار سابق وزرائے اعظم کو دیکھ لیں (یوسف رضا گیلانی۔ راجہ اشرف اور ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز۔) اب وہ اُن غباروں کی طرح ہیں جن میں سے ہوا نکل چکی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ ہمارے پاس (کم از کم) تین سابق صدر بھی ہیں۔ رفیق تارڑ۔ وسیم سجاد اور پرویز مشرف۔ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ اب اُنہیں کوئی مہمان خصوصی نہیں بناتا۔ وہ کوئی فیتہ نہیں کاٹتے۔ وجہ؟ اُن کی بڑائی اُن کے بڑے عہدے کی مرہون منت تھی۔ کھیل ختم ہوا تو پیسہ کو ہضم ہونے میں دیر نہ لگی۔ دُوسری طرف آپ اقبال۔ قائداعظم۔ حسرت موہانی۔ عبیداللہ سندھی اور ان جیسے دُوسرے بلند پایہ راہنمائوں کو دیکھیں کہ آج کروڑوں لوگ اُن کا نام کتنے احترام اور کتنی محبت سے لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ محمد علی جناح پاکستان بنانے میں کامیاب نہ ہوتے اور اس کے پہلے گورنر جنرل نہ بنتے پھر بھی وہ قائداعظم تو بہرحال رہتے اور ہمارے دلوں میں اُن کا وُہی بلند مقام ہوتا جو اب ہے اور بجا طور پر ہے۔ مقبولیت کا کوئی حدود اربعہ نہیں ہوتا۔ Bernie امریکی سیاست دان ہیں مگر ساری دُنیا (خصوصاً برطانیہ اور تمام یورپی ممالک اُن کے مداحوں (عرف عام میں Fans ) سے بھری ہوئی ہے۔ وہ جس ملک بھی جائیں اور وہاں سڑک پر چلیں تو ٹریفک رُک جائے گی۔ وہ تقریر کرنے کسی ملک کے کسی شہر کے کسی ہال میں جائیں تو وہ کھچا کھچ بھرا ہوگا اور ہزاروں لوگ ہال کے باہر (شدید سردی اور طوفانی بارش کے باوجود)
کھڑے رہیں گے۔ اگر وہ اُن کو دیکھ نہیں سکے تو اُن کی آواز تو سُن سکتے ہیں۔
آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ Bernie امریکہ جیسے رجعت پسند۔ تنگ نظر اور حریفانہ ذہن رکھنے والے ملک میں الیکشن لڑتے ہیں تو جمہوری سوشلزم کا پرچم اُٹھا کر۔ میں امریکہ کو اس لئے اندھیر نگری کہتا ہوں کہ وہاں لبرل ہونا بھی سنگین جرم کا ارتکاب سمجھا جاتا ہے۔ وہاں تو سوشلسٹ لفظ کی ابجد کی ''س‘‘ لکھنا بھی اپنی سیاسی موت کے پروانہ پر دستخط کرنے کے مترادف ہے۔ آیئے اب ہم Bernie کے خیالات اور نظریات پر ایک نظر ڈالیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کو مفت بنانا چاہتے ہیں (جو اب دُنیا بھر میں سب سے مہنگی امریکہ میں ہے۔) وہ سب لوگوں کو مفت طبی سہولیات دینا چاہتے ہیں (جوکروڑوں لوگوں کی استطاعت سے باہر ہے)۔ وہ کروڑ پتی اور ارب پتی لوگوں کو زیادہ ٹیکس دینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں تاکہ اُس رقم کو امریکی آبادی کے غریب لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاسکے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ (اپنے سامراجی کردار سے دستبردار ہو کر) دُنیا میں حق و انصاف۔ امن اور خیر سگالی اور انسانی حقوق کے احترام۔ جیسی اعلیٰ انسانی قدروں کا علمبردار بن جائے۔
لندن کے جس ہال میں Bernie نے اپنی کبھی نہ بھولنے والی اُمید افزا اور ولولہ انگیز اور بجھے ہوئے دلوں میں اُمید کا چراغ جلانے والی تقریر کی اُس کی دہلیز پر اُن کی لکھی ہوئی کمال کی کتاب مفت تقسیم کی گئی۔ اگر فروخت کی جاتی تو مصنف پچاس ہزار ڈالر تو ضرور کما لیتا۔ کتاب کا نام ہے۔ ''ہمارا انقلاب‘‘ اس کتاب میں اُس مستقبل کے خدوخال کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس کا ہر امریکی عوام دوست اور ترقی پسند خواب دیکھتا ہے۔ Bernie اُن تمام اصلاحات کے پرُ جوش حامی ہیں جو ہمارے ماحول کو مزید گرم ہونے سے روک سکتی ہیں۔ وہ کروڑوں امریکی عوام کے دلوں میں یہ اُمید پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ آنے والے وقت میں ظلم و تشدد کو کم کرکے امریکی معاشرہ میں محروم طبقہ کو بھی اُن مراعات سے مستفید ہونے کا موقع دیا جائے گاجن پر اس وقت صرف امیر طبقہ کی اجارہ داری ہے۔وہ سماجی
ناہمواریوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ وہ ہزاروں کارکنوں کی اُجرتوں میں اتنا اضافہ چاہتے ہیں جس سے اُن کا معیار زندگی بہتر بنایا جا سکے۔ وہ کروڑوں ڈالر کے دفاعی اخراجات میں نمایاں کمی چاہتے ہیں چونکہ اُن کی نظر میں امریکہ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ دُنیا بھر کے نمبردار اور چوکیدار اور تھانیدار (یعنی ان تینوں کا مجموعہ) کا کردار ادا کرے۔ وہ اپنے اس عہد کو بار بار دُہراتے ہیں کہ وہ الیکشن میں کامیابی کے لئے صرف ووٹ کے طلبگار نہیں بلکہ ووٹ دینے والے کا ذہن بدلنا چاہتے۔ یہ ہے وہ عظیم تاریخی کارنامہ جو اُنہوں نے پچھلے سال کی صدارتی انتخابات کی مہم میں سرانجام دیا۔ جلسہ گاہ میں میرے اور معزز مہمان کے درمیان اتنے ہزاروں لوگ حائل تھے کہ میری اُن تک رسائی ممکن نہ تھی مگر میں اُن کے ذاتی سٹاف میں کلیدی عہدے پر فائض ایک شخض تک جا پہنچا( اتنی بھیڑ کو چیر کر آگے بڑھنا بحرِظُلمات میں گھوڑے دوڑانے سے بھی زیادہ مشکل کام تھا) اور اُسے امریکہ کی قید میں عافیہ صدیقی کے بارے میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی تیار کردہ عرضداشت (Petition) دی۔ اُس نے وعدہ کیا کہ امریکہ واپس پر وہ اسے Bernie کے سامنے رکھیں گے تاکہ وہ اُسے غور اور آرام سے پڑھ سکیں اور پھر فیصلہ کریں کہ وہ عافیہ کی رہائی کے لئے کی جانے والی جدوجہد میں اپنا حصہ کس طرح ڈالیں گے؟اُن کے بارے میں امریکی ہفت روزہ رسالہ Time نے اپنی 25 ستمبر2015ء کی اشاعت میں جو تعارفی مضمون شائع کیا تھا۔وہ آپ غالباً Net پر پڑھ سکتے ہیں۔ اگر آپ اُسے پڑھ لیں تو آپ یقینا میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ وہ امریکی اندھیرے میں روشن چراغ ہیں۔ اگلے ہفتے کا کالم اندھیرے میں ایک اور چراغ کے بارے میں ہوگا۔انتظار فرمایئے گا۔
مجھے یاد آیا کہ ہمارے پاس (کم از کم) تین سابق صدر بھی ہیں۔ رفیق تارڑ۔ وسیم سجاد اور پرویز مشرف۔ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ اب اُنہیں کوئی مہمان خصوصی نہیں بناتا۔ وہ کوئی فیتہ نہیں کاٹتے۔ وجہ؟ اُن کی بڑائی اُن کے بڑے عہدے کی مرہون منت تھی۔ کھیل ختم ہوا تو پیسہ کو ہضم ہونے میں دیر نہ لگی۔ دُوسری طرف آپ اقبال۔ قائداعظم۔ حسرت موہانی۔ عبیداللہ سندھی اور ان جیسے دُوسرے بلند پایہ راہنمائوں کو دیکھیں کہ آج کروڑوں لوگ اُن کا نام کتنے احترام اور کتنی محبت سے لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں