اندھیرا اور چراغ

آج کے کالم میں ہم ایک دُوسرے اندھیرے کی طرف جاتے ہیں‘ جس کا نام ہے بھارت۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت۔ چراغ کا نام ہے Arundhati Roy۔ پانچ جون کی شام کو شمالی لندن کے ایک محلہ کے ایک بے حد خوبصورت گرجا گھر کے ہال میں اپنی نئی کتاب (The Ministry of Utmost Happiness) کے اقتباسات سنانے اور اپنے باغیانہ خیالات کے اظہار کے لئے تشریف لائیں تو ہزاروں انگریز مداحوں نے اُٹھ کر استقبال کیا۔ مہمان خصوصی اور سامعین کے درمیان محبت‘ احترام‘ گرم جوشی‘ عقیدت اور ہم خیالی کا جو رشتہ مجھے اس شام نظر آیا اور سنائی دیا اور دل و دماغ میں بجلی کی طرح کوندا وہ اعلیٰ و ارفع تھا۔ یاسمین کے پھولوں کی خوشبو کی طرح۔ بھیرویں راگ کی طرح۔ قوس قزح کے رنگوں کی طرح۔ کہ جو صرف محسوس کیا جا سکتا تھا مگر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس مسکین کالم نگار کی کیا مجال لیکن اگر ابوالکلام آزاد بھی وہاں ہوتے تو وہ بھی بیانیہ کے عجزکا اعتراف کرتے۔ میری لمبی زندگی میں ایک بے حد خوشگوار سنگ میل کا اضافہ اس کمال کی خاتون کو دیکھنے اور سننے سے ہوا۔ اُس نے مجھے اپنی کتاب پر اپنے اتنے ہی دل آویز دستخط کر کے دیئے جو صرف وہ کر سکتی ہیں۔ کتاب گھر آئی تو کبھی میں اُس میں تحریر کو پڑھتا ہوں‘ کبھی لکھنے والی کے دستخط دیکھتا ہوں۔ آنکھیں بند کروں تو وہ خوبصورت شکل و صورت نظر آتی ہے‘ جس نے دل موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی کتاب پر اپنے دستخط ثبت کرکے مجھے اس طرح واپس کی جس طرح دوست ایک دُوسرے کو تحفہ دیتے ہیں۔ مجھے اس جگہ کی خوش قسمتی پر رشک آیا جہاں یہ خاتون رہتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے بھارت کی بدقسمتی پر دلی افسوس ہوا کہ نہ صرف وہاں کے ارباب اقتدار بلکہ دائیں بازو کے کروڑوں تنگ نظر اور کم ظرف انسانوں کی نظر میں بھی وہ اتنی غیر پسندیدہ ہیں کہ اُن کا بس چلے تو اپنی نفرت کا اظہار اس قابلِ صد تعریف خاتون کا نام و نشان مٹا کر کریں۔ ان کی کتابوں کو جلا کر اُن کی راکھ ہوا میں اُڑا دیں۔ اُن کے وہ ہاتھ قلم کر دیں جو سچ لکھتے ہیں۔ اُن ہونٹوں کو سی دیں جو صرف سچ بولتے ہیں۔ کاش ہمارے ملک میں حسن ناصر کو لاہور قلعہ میں تشدد سے شہید نہ کیا جاتا۔ کاش حکیم محمد سعید کراچی میں بدترین بدقماش افراد کے ہاتھوں دن دیہاڑے قتل نہ ہوتے‘ تو ہم بھی اپنے ملک میں ارون دتی رائے کی ہم پلہ شخصیت کا فخر سے نام لے سکتے۔ اب ہمارے پاس حق گوئی کا پرچم بلند کرنے والے کون رہ گئے ہیں؟ حاضر سروس اور چند ریٹائرڈ جج صاحبان اور چند باضمیر صحافی۔ اقبال نے یہ ماتمی آواز بلند کی تھی کہ جس شے کا نام حمیت (یعنی غیرت) ہے وہ تیمور کے گھر (یعنی اُس کے جانشینوں کی زندگی) سے جا چکی ہے۔ ہماری حالت تیمور کی آل اولاد سے بھی بدتر ہے۔ صرف حمیت نہیں بلکہ صداقت‘ دیانت‘ لیاقت‘ شجاعت‘ عدالت اور (بقول مختار مسعود فصاحت) جیسی خوبیاں غائب ہو چکی ہیں۔ گندم دستیاب نہ ہو تو پھر بُھس پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ سو (بقول شخصے) بھائی جان! فارسی شعر کے مطابق بُھس کو غنیمت سمجھو اور خدا کا شکر ادا کرو اور اُس برے دن سے ڈرو جب عراق‘ افغانستان اور شام کی طرح بھس بھی آتشیں اسلحہ اور بارودی دھماکوں سے اُٹھنے والی آندھی اُڑا کر لے جائے گی۔
(The God of Small Things) کو برطانیہ میں انگریزی ادب کا سب سے بڑا انعام ملا۔ اس کا ترجمہ 8 زبانوں میں ہوا۔ 24 نومبر1961ء کو بھارت کی شمالی ریاست آسام میں پیدا ہونے والی خاتون ارون دتی نے اس پہلے ناول کی اشاعت سے لے کر اب تک 20 سالوں میں بڑے اعلیٰ درجہ کی 16 کتابیں لکھی ہیں‘ ان میں ایک کا موضوع کشمیر ہے اور اُنہوں نے اس کتاب میں آزادی کشمیر کی جو تگڑی وکالت کی ہے۔ اُس کا اظہار کتاب کے عنوان سے ہو جاتا ہے۔
Kashmir: The Cast for Freedom شلوار قمیض پہننے اور دوپٹہ اوڑھنے والی ارون دتی نے نہ صرف 2002 ء میں گجرات میں ہونے والے فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام بلکہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج کی سالہا سال سے آزادیء کشمیر کی تحریک کو عسکری طاقت کے بل بوتے پر کچلنے کی ناکام کوشش کی بھرپور اور کھلم کھلا مذمت کی ہے۔ وہ نکسل باڑی تحریک کی مسلح جدوجہد کی بھی حامی ہیں۔
اُنہوں نے اپنی تحریر و تقریر سے بھارت کے ایٹمی طاقت بن جانے‘ افغانستان میں امریکی جارحیت سے لے کر ریاست گجرات میں دریائے نرمدا پر ڈیم بنانے اور پانچ لاکھ افراد کو بے گھر کرنے کے سرکاری منصوبہ کی جس شد و مد سے مخالفت کی ہے اُس کی برصغیر ہند و پاک میں مثال نہیں ملتی۔ 
اگست2006 ء میں ارون دتی نے امریکی سامراج دُشمن دانشور پروفیسر نوم چومسکی (Noam Chomsky) اور عالمی شہرت کے دُوسرے بڑے ادیبوں اور فنکاروں کے ساتھ مل کر برطانوی روزنامہ گارڈین میں خط لکھا کہ لبنان پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرم (War Crime) کے زمرہ میں آتا ہے۔ اُنہوں نے اسرائیل پر ریاستی دہشت گردی کا الزام عائد کیا اور اسرائیلی یونیورسٹیوں کے عالمی بائیکاٹ (پنجابی زبان میں حقہ پانی بند کرنے) کی تحریک چلائی۔ اسرائیل تو دُور دیس کی بات ہے۔ 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردی کا نشانہ بنی تو ارون دتی نے تفتیشی کارروائی میں قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی شرط کے سامنے سوالیہ نشان لگایا۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ مذکورہ بالا دہشت گردی کے مبینہ مرکزی کردار (محمد افضل) کو اس وقت تک پھانسی کی سزا نہ دی جائے‘ جب تک پارلیمانی کمیٹی سارے معاملے کی چھان بین نہ کرے۔ اُنہوں نے اخبارات اور ٹیلی ویژن (Channels) پر محمد افضل پر چلائے جانے والے مقدمہ کی کارروائی پر تعصب اور جانبداری سے تبصرہ کرنے کی بھی دوٹوک الفاظ میں مذمت کی۔
ارون دتی کو دُنیا بھر میں جو اعزازات اور انعامات دیئے گئے‘ اُن کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ اس کالم کی محدود جگہ میں گنوائی نہیں جا سکتی۔ 2006 ء میں ارون دتی کو ساہتیہ اکادمی (Sahitya Academy)نے اُن کی ادبی خدمات پر انعام دیا اور انعام دینے کے اعلان میں اُن کی کتاب The Algebra of Infinite Justice (جو بھارتی حکومت پر بڑی تلخ اور تند و تیز تنقیدی مضامین پر مشتمل تھی) کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔ ارون دتی نے یہ انعام لینے سے بطور احتجاج انکار کر دیا۔ مودی حکومت کے مسلمان دُشمن رویہ اور امریکہ نواز پالیسی کے خلاف احتجاج۔ پر زور احتجاج۔ دُنیا بھر میں سنا جانے والا احتجاج۔
ارون دتی کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کی حکومت بلکہ امریکی حکومت کے پہلو میں چبھنے والا سب سے نوکیلا کانٹا ہیں۔ بھارت میں اُنہیں آج تک صرف ایک دن کی قید کی سزا دی گئی ہے۔ (اور وہ بھی توہین عدالت کے جرم میں)۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے عہدے دار‘ مودی حکومت کے وزیر اور اُن کے ہمنوا اخبارات اُن کے خلاف زہر اُگلتے رہتے ہیں‘ اُنہیں عبرت ناک انجام کی دھمکیاں دینے سے بھی باز نہیں آتے مگر یہ مان لینا چاہئے کہ ارون دتی ایشیا اور افریقہ کے کسی اور ملک کی باشندہ ہوتیں تو وہ بہت عرصہ پہلے اس طرح غائب کر دی جاتیں کہ سُراغ نہ ملتا۔ دُوسری بہت سی خواتین کی طرح اُن کے عزیز و اقارب کو کبھی پتہ نہ چلتا کہ گم شدہ فرد کو آسمان نے اُٹھا لیا یا زمین نگل گئی۔ ارون دتی لندن آئیں یا نیو یارک جائیں‘ جلد از جلد دہلی اپنے گھر واپس چلی جاتی ہیں جہاں اُن کی جان کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ شمالی لندن کے High Gate محلہ کے قبرستان میں کارل مارکس کی قبر پر لگے ہوئے کتبہ پر لکھا ہوا ہے:''اب تک فلاسفروں نے دُنیاوی معاملات کی مختلف تشریح کی ہے مگر اس سے بات نہیں بنتی چونکہ اصل کام دُنیا میں تبدیلی لانا ہے‘‘۔ یہ ہے وہ بلند معیار جس پر ارون دتی پورا اُترتی ہیں۔
میں اپنے قارئین کی طرف سے اُن پر جتنے بھی پھول نچھاور کروں کم ہوں گے۔ ان جیسی دانشور خاتون صرف کتابیں نہیں لکھتی۔ صرف لیکچر نہیں دیتی بلکہ ہر محاذ پر ظلم و ستم کے خلاف عملاً لڑتی ہیں۔ آیئے ہم مل کر اُن کی لمبی زندگی اور اچھی صحت کے لئے دُعا مانگیں۔ وہ بھارت اور پاکستان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ ہمارا بھی اُن پر اُتنا حق ہے جتنا بھارت کا۔ وہ ہماری ہیں اور ہم اُن کے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں