فرش سے عرش اور واپسی کا سفر

یہ کٹھن سفر بہت سے لوگوں نے کیا ہوگا اور رہتی دُنیا تک کرتے رہیں گے۔ نشیب و فراز۔ عروج و زوال‘ ایسی بلندی ایسی پستی کی ہزاروں لاکھوں داستانیں انسانی تاریخ کے ہر صفحہ پر خزاں کے پتوں کی طرح بکھری ہوئی ہیں اور دیکھنے والوں کو زبان حال سے پکار پکار کر کے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں کہ ع
دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو
کالم نگار غالب کے اس شعر کا دُوسرا مصرع جانتا ہے مگر جان بوجھ کر نہیں لکھ رہااس لیے کہ اس کے قارئین کی اکثریت نے پرانے زمانہ کا منشی فاضل یا ادیب فاضل کا امتحان پاس نہیں کیا۔ جو قوم اپنی مادری زبان بولنے سے سخت پرہیز کرے (جس طرح پنجاب کی شہری آبادی کا متوسط طبقہ کرتا ہے) اور قومی زبان (اُردو) کی بجائے اپنے پرُانے حاکموں کی زبان (انگریزی) کے غلط سلط استعمال سے سرکاری کام چلائے (وہ جس طرح چل رہے ہیں آپ کے سامنے ہیں) اُسے نظام قدرت کی طرف سے یہ کڑی سزا ملتی ہے جو ہنس کی چال چلنے والے کوے کو ملی تھی (وہ بے چارہ اپنی چال بھی بھول گیا) میرے پنجابی قارئین پنجابی بول نہیں سکتے۔ اُردو اُن کو برائے نام یعنی بڑی معمولی آتی ہے اور انگریزی لکھنا یا بولنا (جو کم از کم انگریزوں کو سمجھ آجائے) اُن کے بس کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں 20 کروڑ ہموطنوں کو 20 کروڑ گونگے لکھتا ہوں۔ ایک بار لکھوں تو چھ ہزار میل سے میری دوست فاطمہ قمر دوبار شکریہ کا فون کرتی ہیں۔
خاشق جی آپ مجھے معاف فرمائیں کہ اتنی جگہ تمہید لے گئی اوربیانیہ شروع ہونا ابھی باقی ہے۔ آپ نے یقینا عدنان خاشوگیKhashoggi کا نام سنا ہوگا۔ 25 جولائی 1935 کو پیدائش اور6 جون 2017 کو وفات پائی تو اُس کے ساتھ سعودی عرب میں کاروبار کا ایک عہد ختم ہوا۔ عدنان نے کئی کاروبار کئے مگر سب سے زیادہ رقم (کروڑوں نہیں اربوں ڈالر) اسلحہ کی فروخت سے بطور سیلزایجنٹ (یعنی آڑھتی) کمائے۔ اس دولت کو اس طرح عیش و عشرت پر خرچ کیا کہ 1974 میں Harols Robin کی کتاب The Private سے لے کر 1986 میں Ronald Kessler کی لکھی ہوئی سوانح عمری تک کا موضوع بنے۔ اسی کی دہائی میں اُسے صرف سعودی عرب نہیں بلکہ دنیا کا امیر ترین شخص سمجھا جاتا تھا۔ 12 محلات‘ ایک ہزار بیش قیمت سوٹ اور تیسری Yachtجو70 ملین ڈالر میں خریدی۔ سفر کے لئے DC-8 طیارہ (قیمت 60 ملین ڈالر)۔ جو لوگ انہیں قریب سے جانتے تھے اُن کی متفقہ رائے میں عدنان کا روزانہ خرچ ڈھائی لاکھ ڈالر تھا۔ ملازمین کی تنخواہیں‘ بادشاہوں اور سربراہان مملکت (جن سے عدنان کی بے تکلف دوستی تھی) کی خاطر مدارت اور مہمان نوازی میں دُنیا کی سب سے مشہور خوبصورت خواتین کی فراہمی بھی شامل تھی) عدنان 81 سال پہلے مکہ معظمہ میں شاہ سعود کے ذاتی معالج جو مصری تھا‘کے گھر پیدا ہوا۔ سکندریہ کے وکٹوریہ کالج (جو برطانوی سکول Eaton کا ہم پلہ تھا) اُس کے بعد امریکہ کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ لندن کے شہرہ آفاق سٹور Harrods کے سابق مالک محمد الفائد کو نہ صرف اپنا حصہ دار بلکہ بہنوئی بنایا۔ (عدنان کی بہن سمیرا ہی محمد دودی الفائد کی والدہ تھی۔
عدنان نے اپنا کاروبار Kenworth Heavy Truck سے شروع کر کے اسلحہ کی دلالی پر ختم کیا۔ اُس نے شروع سے اُسامہ بن لادن کے والد اورہونے والے سعودی بادشاہ کے دو سوتیلے بھائیوں کو اپنا حصہ دار بنا لیا تو کھل جا سم سم کے الفاظ ادا کئے بغیر بھی اُن غاروں کے منہ کھلتے گئے جو خزانوں (تیل سے کمائی ہوئی دولت) سے بھری ہوئی تھیں۔ برطانیہ اور امریکہ میں اسلحہ بنانے والی تمام بڑی کمپنیاں یہ راز جانتی تھیں کہ سعودی عرب کی مارکیٹ سے اربوں ڈالر کمانے کے لئے عدنان کو اپنا ایجنٹ مقرر کرنا اُن کے مفاد میں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ عدنان نے اپنا سکہ اس طرح جمایا کہ اسلحہ (خصوصاًمیزائل) کی فروخت پر اُن کا کمیشن دو فی صد سے بڑھ کر پندرہ فی صد تک جا پہنچا۔ 1975 ء میں امریکی پارلیمنٹ کے ایوان بالا (Senate ) کی تحقیقاتی کمیٹی نے انکشاف کیا کہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں (Lockheed Raytheon) نے عدنان کو بالترتیب 160 ملین ڈالر اور 23 ملین ڈالر بطور کمیشن (یا رشوت) دیئے ہیں۔ فرانسیسی اور برطانوی اسلحہ ساز کمپنیاں کیوں پیچھے رہتیں۔ عدنان کو ٹینکوں کے سودے میں 45 ملین ڈالر اور برٹش ہیلی کاپٹروں کے سودے میں سات ملین ڈالر کمیشن دیا۔ جب یہ خبر اطلانتک کے اُس پار امریکہ تک پہنچی تو اسلحہ سازوں کی رگ حمیت پھڑکی اور انہوں نے اپنی مونچھ نیچے کرنے کی بجائے عدنان کو کروڑوں ڈالروں سے نوازا Lockhead نے مزید 100 ملین ڈالر اور Anrthrop نے مزید 31 ملین ڈالر دیئے۔ میں ملین کا مطلب جانتا ہوں مگر حساب کتاب میںپرانی کمزوری کی وجہ سے مندرجہ بالا رقوم کو دس لاکھ سے ضرب دینے سے کترا رہا ہوں؟
سعودی عرب میں چلنے والے نظام کے مطابق وہاں کے ہر ارب پتی کاروباری شخص کی طرح عدنان کو نہ صرف اپنی پانچوں انگلیاں گھی میں بلکہ کڑاہی میں سر ڈالنے کی اُس وقت تک اجازت تھی کہ جب وہ اپنے کمیشن کا ایک معقول حصہ شاہی خاندان کے سوئس (Swiss ) اکائونٹ میں باقاعدگی سے جمع کرواتا رہے۔ عدنان جیسے دُنیا دار شخص سے زیادہ اور کون جانتا تھا کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر رکھنا خود کشی کے مترادف ہے یہی عدنان کی غیر معمولی کامیابی کا راز تھا ۔ اگر میں آپ کو اشارتاً صرف بتائوں کہ عدنان کو اپنے شاہی سرپرستوں کی ہر خواہش پورا کرنے کا ڈھنگ آتا تھا تو آپ بخوبی سمجھ جائیں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں اور میرا ارشارہ کدھر ہے۔
امریکی‘ برطانوی اور یورپی اخباروں میں عدنان کی بے حد رنگین زندگی کے تذکروں نے اُسے اس درجہ کا Play Boy بنا دیاجو نصف صدی قبل پرنس کریم آغا خان کے والد پرنس علی خان کے لئے مخصوص تھا۔ دُنیا بھر کی حسینائوں کا نہ ختم ہونے والا ہجوم۔ پانی کی طرح بہنے والی شراب کی ندی‘رقص و سرود کی وہ محفلیں جس میں تخت و تاج کے مالک ارب پتی کاروباری لوگ اور سربراہان مملکت شریک ہونا اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے اور اپنے بے حد فیاض اور دریا دل میزبان کے اتنے احسان مند ہوتے کہ اُس کی ہر ممکن خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ بدقسمتی سے عدنان کی چار دانگ عالم میں شہرت (یا رسوائی) اُس کے زوال کا باعث بنی۔ بین الاقوامی سیاست کے میدان میں عدنان نے 1986 ء میں یہ کمال کر دکھایا کہ اُس نے اسرائیل کے توسط سے (جس کے ساتھ سعودی عرب کے سفارتی تعلقات تک نہیں) امریکہ کے تیار کردہ ڈیڑھ ہزار میزائل ایران کو فروخت کر دیئے۔ (اُس ایران کے پاس جس کے اُن دنوں امریکہ سے بدترین تعلقات تھے)۔ اسلحہ کی اس فروخت سے جو آمدنی (25 ملین ڈالر) ہوئی۔ وہ عدنان نے نکاراگوا (جنوبی امریکہ کا ایک چھوٹا سا ملک) میں امریکہ کے حامی اور حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والوں ( Contans) کو پہنچا دی۔
عدنان مٹی کو سونا بنانے کی خوبی سے محروم ہوا تو اُس کے برُے دن آگئے۔ وہ دن گئے جب وہ سعودی عرب میں ہتھیلی پر سرسوں جما سکتا تھا۔ یہ وقت آئے تو آدمی کا سایہ بھی اُس کے ساتھ نہیں چلتا۔ وہ جن لوگوں کا مقروض تھا۔ قرض کی وصولی کے لئے اس کے گھر کی دہلیز تک جا پہنچے اور اُن کا ہاتھ اُس کے گریباں تک۔ یہ راز بھی بھی طشت از بازم ہوا کہ فلپائن کے سابق صدر مارکوس (جس کے سامنے ہمارے ملک کے بدعنوان لیڈر طفل مکتب ہیں) کے 300 ملین ڈالر بھی عدنان نے نیویارک میں جائیدادیں خرید کر چھپائے ہوئے ہیں۔ سوئٹرزلینڈ کی حکومت نے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تو اُسے بھاگ کر امریکہ میںپناہ لینی پڑی۔ تھائی لینڈ کی ایک عدالت نے اُسے ایک بڑے بینک فراڈ کا مرتکب ٹھہرایا۔ عدنان کی اربوں ڈالروں کی ہیرا پھیری نے امریکی حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ 1977 میں غیر ملکی سیاست دانوں یا افسروں کو رشوت دینے کے خلاف قانون منظور کرے۔ عدنان نے تین شادیاں کیں۔ پہلی بیوی انگریز۔ دُوسری اطالوی اور تیسری ایرانی جس سے شادی طلاق پر ختم ہوئی۔ سوگوران میں اُن کا ایک پاکستانی داماد۔ اُس کی دوسری بیوی اور آٹھ بچے سر فہرست ہیں۔ مکہ میں تدفین ہوئی۔ دُنیاوی لحاظ سے مفرورہونے والا ارب پتی وہاں پہنچا جہاں اُسے خدا کی عدالت میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں