پھول کی پتی اور ہیرے کا جگر

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ساٹھ سال قبل جب میں نے اقبال کی شاعری کا دُوسرا مجموعہ ''بال جبریل‘‘ یا تیسرا مجموعہ ''ضرب کلیم‘‘ پڑھا تو پہلے صفحہ پر لکھا ہوا شعریہ تھا۔ع 
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کاجگر
اقبالؔ جانتے تھے کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ پھول کی پتی ہیرے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور پھول کی پتی سے نرم و نازک کوئی اور شے نہیں اور نہ سختی میں کوئی شے ہیرے سے بڑھ کر ہے۔ اقبالؔ بڑے شاعر تھے۔ صرف ہیرے پر اکتفا نہ کی۔ ہیرے کے جگر تک پہنچے۔ لگتا ہے کہ اقبال نے یہ شعرالیکشن لڑنے کے بعد لکھا چونکہ وہ لاہور کے انتخابی حلقہ کی اکثریت کو اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ نہ کر سکے۔ دُنیا بھر کے مسلمانوں کا ترجمان اور شاعرِ مشرق روایتی اوربرادری سسٹم کے سامنے ناکام رہا۔ دُوسری قابل غور بات یہ ہے کہ اس شعر کے نیچے اقبال نے اپنا نہیں بلکہ چکبست کا نام لکھا۔ ساٹھ سال گزر گئے مگر مجھے ابھی تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کون تھے؟ اگر وہ سنسکرت زبان کے شاعر تھے تو اقبال نے (جو یہ زبان نہ جانتے تھے) اُن کا لکھا ہوا شعر کیسے پڑھ لیا؟ میں جانتا ہوں کہ اس کالم میں چھپنے والی ٹوٹی پھوٹی مگر دل سے اور دیانت سے لکھی ہوئی سطور کو بڑے بڑے عالم فاضل بھی پڑھتے ہیں۔ میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور میرے قارئین کو چکبست صاحب سے متعارف کرائیں۔ تیسرا اور آخری قابل ذکر نکتہ! اسلام آباد میں نیشنل بک فائونڈیشن نے کلیات اقبال بڑی خوبصورتی سے اور سج دھج سے شائع کی۔ملتان سے آبائی تعلق کے باوجود لاہور میں رہنے والے تصورِ حسین خاکوانی صاحب نے مجھے یہ کتاب تحفہ میں دی (گرچہ بعد میں دیر تک پچھتائے) میں بہانے بہانے اُس کی روزانہ ورق گردانی کرتا رہتا ہوں۔ آج میں نے اس کتاب میں چکبست سے منسوب شعر ڈھونڈا مگر وہ نہ ملا۔ میرا سوال یہ ہے کہ اقبال کی کلیات شائع کرنے والوں کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اقبال کا لکھا ہوا شعر نکال دیں؟ نیشنل بک فائونڈیشن ہم سب کے سامنے جواب دہ ہے حسب معمول ایک لمبی تمہید کے بعد میں آج کے کالم کے موضوع کی طرف آتا ہوں۔ عنوان سے آپ نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ آج کا موضوع یا تو پھول ہوں گے یا ہیرے۔ جن لوگوں نے موخرالذکر کو چناوہ جیت گئے۔ (پھولوں کا ذکر بہار کے موسم میں کیا جائے گا) جن لوگوں کو سائنس سے تھوڑی بہت شُد بد ہے وہ جانتے ہوں گے کہ کاربن (جسے طبیعات کی زبان میں Element کہتے ہیں) کی صرف دو Crystallineقسمیں ہیں جن میں سے ایک ہیرا ہے۔ اگر میں 65 سال پہلے اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں پڑھی ہوئی طبیعات کے سبق پر پڑی ہوئی گردو غبار کو جھاڑوں تو حافظہ پر دھند لے سے جو الفاظ اُبھرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کاربن کی جو دو قسمیں ہیں اُن میں سے کوئلہ (وُہی کوئلہ جس کی دلالی چہرہ کا رنگ بدل دیتی ہے) اور دُوسرا وہی ہیرا جس کے جگر تک اقبال کی نظر جاتی تھی۔ اگر میں نے درست لکھا تو میری تصدیق فرمائیں۔ اگر غلط لکھا ہے (جس کا زیادہ امکان ہے) تو پھر تصحیح فرمائیں۔ یاران نکتہ داں کو صلائے عام دیتا ہوں۔ لاکھوں سال میں چٹانوں کے وزن کا بوجھ کاربن کو ہیرے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ سختی کے لحاظ سے کوئی چیز ہیرے کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ دُنیا کی تاریخ میں ہزاروں سال قبل سب سے پہلے ہیرے ہندوستان اور Borneo میں دریائوں اور ندیوں میں دریافت ہوئے۔ سب سے مشہور تین ہیرے ہیں۔ کوہ نور (جس کا ذکر آگے آئے گا) دُوسرا Cullinan جس میں سے 105 چھوٹے ٹکڑے تراشے گئے اور تیسرا نیلے رنگ کا Hope ۔ ہیروں کی قیمت آسمان کو چھونے لگی تو 1955 میں مصنوعی طور پر ہیرے بنانے کا فن ایجاد ہوا۔ مگر پھر بھی مشکل ترین آپریشن کرنے کے لئے جو اوزار استعمال کئے جاتے ہیں اُن میں نقلی نہیں بلکہ اصلی ہیرے استعمال ہوتے ہیں۔ دُنیا میں جتنے ہیرے ہیں اُن کی تعداد گنی نہیں جا سکتی۔ مگر ایک بات لکھی گئی ہے کہ ان میں سب سے زیادہ مشہور کوہ نور ہے۔ اتنا مشہور کہ اُس پر برصغیر میں جانے پہچانے مصنف اور مورخ William Dairylymple نے (انیتا انند کے ساتھ مل کر) ایک اچھی اور معلوماتی کتاب لکھی ہے۔ اُنہوں نے انکشاف کیا ہے کہ اس ہیرے کے بارے میں (سوائے اس کے کہ یہ غالباً پانچ ہزار سال پرانا ہے) ساری باتیں غلط اور بے بنیاد ہیں۔ زیبِ داستاںکے لئے صرف کچھ بڑھانے پر اکتفا نہ کی بلکہ حاشیہ آرائی کرنے والوں نے اس طرح کے افسانے تراشے اور اس ہیرے سے اس طرح منسوب کئے کہ وہ چپک کر رہ گئے۔ غیر مناسب ہوگا کہ ساری غلط باتوں کا ذکر کیا جائے۔ صرف ایک لکھتاہوں۔ مشہور ہو گیا کہ کوہ نور ہیرا اُس شخض (صرف مرد حضرات) کے لئے باعث مصیبت اور باعث صد نحوست ثابت ہوتا ہے‘ جو اس ہیرے کو ہار کی صورت میں پہنتا ہے یا اپنے تاج کا حصہ بناتا ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں پنجاب پر سکھوں کی حکومت ختم ہوئی تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دس سالہ بیٹے دلیپ سنگھ یہ ہیرا بطور تاوان پنجاب کو فتح کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کو دینے پر مجبور ہو گیا۔ اس کمپنی نے یہ ہیرا ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں پیش کیا اور وہ اُس دن سے برطانوی بادشاہ یا ملکہ کے تاج کا حصہ بن گیا۔ ملکہ برطانیہ کے سارے ہیرے جواہرات جس قلعہ میں بحفاظت نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں۔ اُس کا نام ہے Tower of London (جو میرے دفتر سے اتنا قریب ہے کہ میں وہاں آرام سے سیر کرتا ہوا جاتا ہوں) ہندوستان کی آزادی کے بعد 70 برس میں کئی بھارتی حکومتوں نے کوہ نور کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ اُن کا موقف یہ تھا کہ یہ ہیرا بھارت کی ملکیت ہے اور اسے چوری کے دُوسرے سامان کے ساتھ برطانیہ پہنچایا گیا ہے۔ اب اس ہیرے کو اصل مالک کے حوالے کیا جانا چاہئے۔ (مالک کا مطلب ہے بھارت) جب یہ خبر پاکستان پہنچی تو ہماری سوئی ہوئی حکومت بھی جاگ اُٹھی اور اُس نے بھی ایک کبوتر کے ذریعہ لندن ایک رقعہ بھیجا۔ وہ کبوتر Whitehall (برطانوی حکومت کے لندن میں دفتر) کی ایک قدیم اور عظیم عمارت کی منڈیر پر جا بیٹھا۔ عمارت کے اندر بیٹھے ہوئے افسروں نے کبوتر کے پنجوں سے بندھا رُقعہ کھول کر پڑھا تو چاروں طبق روشن ہو گئے۔ پاکستان کو یہ ہیرا کیا ملتا مگر اس نے بھارتی دعویٰ کو اتنا کم زور اور بے جان کر دیا کہ انگریزوں نے بھارتی مطالبات اور تقاضوں کے انبار کو ردی کی ٹوکری میں اس طرح پھینکا کہ اب ڈھونڈنا بھی چاہیں تو اُس کا سراغ نہیں ملے گا۔ پنجابی زبان میں کسی کا مال لوٹ لینے یا چرالینے کو کھا جانا کہتا ہیں۔ انگریز کوہ نور کو کھا کر اس طرح ہضم کر چکے ہیں کہ اب اس ڈر سے ڈکار نہیں لیتے کہ کہیں اس کی واپسی کا بھولا بسرا دفتر پھر نہ کھل جائے۔ ہیروں
کے وزن کو قراط (Carat) کے پیمانہ میں بیان کیا جاتا ہے۔ کوہ نور کا وزن 105 قراط ہے۔ جب طالبان کو بھی اس کی بھنک پڑی تو اُنہوں نے بھی اپنی اولین فرصت میںملکہ برطانیہ کو رجسٹرڈ خط لکھا کہ بی بی! جو ہوا سو ہوا۔ اب خدا کا خوف کرو اور کوہ نور کو کابل جلد از جلد پہنچانے کا بندوبست کرو۔ بدقسمتی سے ملکہ برطانیہ کے مصاحبین نے اُنہیں کوہ نور کی واپسی کے خلاف مشورہ دیا سو معاملہ پھر ٹھپ ہو گیا اور کوہ نور کابل نہ بھیجا گیا۔ مذکورہ بالا کتاب کے فاضل مصنفین نے کئی برس پر پھیلی ہوئی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم نے آج تک کوہ نور کے بارے میں جتنی بھی کہانیاں پڑھی ہیں۔ (جن میں پگڑی بدلنے کی پر فریب چال بھی شامل ہے) وہ دلچسپ تو ضرور ہیں مگر سچی ہر گز نہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کو اُن کا ضمیر کوہ نور کے بارے میں اتنی ملامت کرتا تھا کہ اُنہوں نے اُس وقت تک کوہ نور کو اپنے تاج کا حصہ بنا کر تقریبات میں نہ دکھایا جب تک دلیپ سنگھ کو اپنا منہ بولا بیٹا نہ بنا لیا۔ میں نے یہاں تک لکھا تھا کہ خطرے کی گھنٹی بجی۔ کالم کی جگہ ختم ہو گئی مگر کہانی ختم نہیں ہوئی۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے کالم میں وہ ساری باتیں لکھوں گاجو آج رہ گئیں۔ ایک ہفتہ انتظار فرمایئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں