اچھے وقتوں کا بادشاہ

اگر یہ عنوان پڑھ کر آپ نے سوچا کہ ہو نہ ہوآج کے کالم کا موضوع عدنان خوشوگی (جس کا تعارف آپ اس کالم میں پڑھ چکے ہیں) کے قبیلہ کا ایک اور فرد ہوگا تو آپ کا خیال غلط نکلا۔ آپ کو ایک اور اندازہ لگانے کی اجازت دی جائے تو آپ کی نظریں وطن عزیز پر جم جائیں گی۔ کراچی، پشاور، ملتان سے فیصل آباد‘ کوئٹہ سے دارالحکومت تک کے ہر شہر میں اچھے وقتوں کے بادشاہ باافراط موجود ہیں۔ جائز کے مقابلہ میں ناجائز ذرائع سے کمائی میں ٹیکس کی ادائیگی برائے نام۔ اربوں ڈالر پانامہ کے بینکوں یا Virgin Islands کی غاروں میں چھپاتے ہیں مگر اتنے سیانے ہیں کہ جیب میں کسی خلیجی ریاست میں کسی وقت بھی جانے اور وہاں قانوناً رہنے کا ورک پرمٹ (جسے مقامی زبان میں اقامہ کہتے ہیں) رکھتے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ کی انا مجروح ہوگی اگر میں آپ کو بتائوں کہ آج کا کالم اچھے وقتوں کے جس بادشاہ کے ساتھ آپ کا تعارف کرائے گا وہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا باشندہ ہے۔ 
پورا نامVijay Mallya ۔ یہ ارب پتی شخص Force India Formula One کے دو مالکوں میں ایک ہے۔ ان دنوں بھارتی حکومت برطانیہ میں ہر وہ قانونی قدم اُٹھا رہی ہے جس کی بدولت وجے کی برطانیہ سے ملک بدری کا راستہ ہموار ہو جائے۔ وجے پر ایک ارب پائونڈ کا قرض ادا نہ کرنے اور بہت بڑے فراڈ میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
شمالی لندن سے 20 میل دُور (Hertfordshire ) نامی کائونٹی کے ایک گائوں Tewin میں وجے جس محل نما حویلی میں رہتا ہے‘ اُس کی مالیت بارہ ملین (ایک کروڑ بیس لاکھ) پائونڈ ہے۔ برطانوی روزنامہ گارڈین کا رپورٹر وجے سے ملنے وہاں گیا تو Land Scape کے ماہرین وجے کے مکان کے لان پر جاپان سے منگوائی ہوئی گھاس کے تختے بچھا رہے تھے۔ پائیں باغ کے ایک تالاب میں تین فوارے نصب کرنے کے بعد ایک بہت بڑا گیراج تعمیر کیا گیا مگر پھر بھی اُس کی 260 کاروں (مہنگی ترین کاریں) میں سے اکثریت کو بارش سے حفاظت کے لئے چھت نصیب نہ ہو سکی۔ گھر کے چاروں طرف بڑی تعداد میں CC T.V کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ گارڈین کے رپورٹر نے ابھی گھنٹی بھی نہ بجائی تھی کہ بیرونی گیٹ پر چوکیداروں کا چا ق چوبند دستہ اس کا منتظر تھا۔ اُنہوں نے رپورٹر کو یہ خوش خبری سنائی کہ اُسے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
برطانیہ میں اپنی محنت سے امیر بننے والے (Self Made) ایک ارب پتی (جو لڑکپن میں تعلیم مکمل کئے بغیر سکول سے بھاگ گیاتھا) کا نام Branson ہے (جو Virgin ایئر لائن کا مالک ہے) وجے کو بنگلور کا Branson کہا جاتاتھا۔ وہ شراب سازی کے کارخانوں کے علاوہ ایک ہوائی کمپنی کا مالک رہا ہے۔ (اور ممکن ہے کہ اب بھی ہو) وجے کو King Fisher نامی بیئر بنانے سے زیادہ اسی کمپنی کے رُسوائے زمانہ کیلنڈر نے شہرت دلوائی۔ ٹائر بنانے والی کمپنی (Pireusi) کے کیلنڈر کی طرح (جس کے بغیر یورپ میں کاریں مرمت کرنے والا کوئی گیراج مکمل نہیں ہوتا) یہ بھی ماڈل لڑکیوں کی تصاویر پر مشتمل ہوتا ہے۔ وجے کی دولت کا اندازہ اُس کی 311 فٹ لمبی ذاتی جہاز نما کشتی سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ تو تھیں اچھے دنوں کی باتیں۔ تین ماہ قبل وجے کے ستارے اتنی گردش میں آئے کہ اُسے لندن کی شہرہ آفاق پولیس (سکاٹ لینڈ یارڈ) نے فراڈ کے جرم میں گرفتار کر لیا۔ ظاہر ہے کہ وجے کو ضمانت پر رہائی حاصل کرنے میں زیادہ دشو اری پیش نہ آئی۔ مگر اصل اور بڑی مشکل وجے کا انتظار کر رہی ہے۔ اور وہ عدالت میں ملک بدری (Extradition) کا مقدمہ تھا۔ وجے پر قرضوں کی ادائیگی کا اتنا مالی بوجھ تھا کہ وہ اپنا ذاتی جہازفروخت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ وجے کا معاملہ اتنا سنگین ہے کہ بھارتی وزیراعظم لندن آیا تو اُس کے ایجنڈا میں وجے کی ملک بدری کی درخواست بھی شامل تھی۔ نریندر مودی کی فسطائی اور فرقہ پرستانہ ذہنیت اورمسلمان دُشمنی لاکھ قابل مذمت ہیں مگر یہ بات مان لینا پڑے گی کہ اُس کا دامن کسی قسم کی بدعنوانی اور کرپشن سے آلودہ نہیں۔ برطانیہ کی سر زمین پر نریندر مودی نے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ ہندوستان سے کرپشن کو ختم کر کے دم لیں گے ۔یہ بھی کہا کہ جن لوگوں نے بھارت کے عوام کو لوٹا ہے اُنہیں بھارت واپس جا کر لوٹی ہوئی رقم واپس لانا ہوگی۔ کتنا اچھا ہو کہ ہمارے نئے وزیراعظم (چاہے وہ جانے والے وزیراعظم کے چھوٹے بھائی ہوں) برطانیہ آکر (وہ یقینا جلد آئیں گے) یہی الفاظ دہرائیں اور ایک اچھی مثال قائم کریں۔ اگر برطانیہ میں پاکستان کے سفیر (جنہیں دولت مشترکہ رُکنیت کی وجہ سے ہائی کمشنر کہا جاتا ہے) سید ابن عباس نے مجھے نئے وزیراعظم کے ساتھ کافی پینے کی دعوت دی (جس کا ابن عباس صاحب سے نئی دوستی کے باوجود امکان بہت کم ہے) تو میں جان کی امان پا کر اور اپنی بزرگی کا فائدہ اُٹھا تے ہوئے معزز مہمان کو مذکورہ مشورہ ضرور دوں گا۔ وعدہ رہا۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہررہنے والوں کے کان پانامہ کاغذات کا ذکر سُن سُن کر پک چکے ہوں گے۔ یہ کالم نگار اپنے قارئین کے دُکھ میں ہر گز اضافہ نہیں کرنا چاہتا مگر جونہی میری نظر کتابوں کی ایک پسندیدہ دُکان میں اس کی الماری میں رکھی ہوئی کتاب پر پڑی تو میں اپنے آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اِسے خریدنے اور اپنے کالم میں اس کا ذکر کرنے سے نہ روک سکا۔
یہ کتاب لکھنے والوں کے ناموں کی آواز ایک ہے مگر لہجے مختلف ہیں۔ ایک Bastiam Obeamayear ہے اور دُوسرا Frederik Obermaier۔ اول الذکر جرمنی کے بہترین اخبار Sueddeutsche Zeitung میں کام کرتے ہیں۔ برطانوی عدالتوں میں اگر کسی فریق کا نام خفیہ رکھنا مقصود ہو تو اُسے صدیوں پرانی روایت کے مطابق John Doe کہا جاتا ہے۔ 2015ء کے شروع میں مذکورہ بالا صحافی کو کسی گمنام شخض (جس نے اپنا نام John Doe بتایا) کی طرف سے 11.5 ملین (ایک کروڑ پندرہ لاکھ) دستاویزات پر مشتمل ای میل کا ذخیرہ مل گیا۔ قدرو قیمت کے اعتبار سے یہ ذخیرہ قارون کے خزانے سے بھی بڑھ کر تھا۔ یہ ممکن نہ تھا کہ ایک اخبار سے وابستہ صحافی ایک کروڑ پندرہ لاکھ دستاویزات پڑھ سکتے۔ اُنہوں نے تفتیشی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (غالباً ہمارے عمر چیمہ اس کے رُکن ہیں) سے مدد مانگی۔ 1000 صحافیوں نے ایک سال تک ان دستاویزات کو پڑھا تو اتنے بڑے بڑے سیاسی بھونچال آئے کہ آئس لینڈ سے لے کر پاکستان تک کا سیاسی منظر نامہ بدل گیا۔ جب پردہ چاک ہوا تو یہ راز کھلا کہ پانامہ میں اربوں ڈالر چھپانے والوں میں مندرجہ ذیل لوگ شامل ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے سربراہ حلیفہ بن زائد النہیان۔ سعودی عرب کے بادشاہ سلمان۔ یوکرائن کے صدر۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم۔ سابق برطانوی وزیراعظم کا جرائم پیشہ بیٹا مارک پتیھر۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان۔ آذربائیجان کا صدر۔ سپین کے شاہی خاندان کے کئی افراد۔پاکستان کا میں ارادتاً ذکر نہیں کر رہا چونکہ وہ ایک بے حد متنازعہ مسئلہ ہے اور بدستور عدالتی نگرانی کے تحت جانچ پڑتال ہو رہی ہے۔ 
مذکورہ بالا کتاب کے ساتھ اس موضوع پر ایک اور اچھی کتاب رکھی ہوئی تھی۔ نام ہے Treasure Islands ۔ جو Nichulas Shaiksa نے بڑی جانفشانی سے لکھی۔ (پیسوں اور وقت کی کمی کی وجہ سے میں اسے خریدنے سے باز رہا)۔ میں کالم کو فاضل مصنف کی لکھی ہوئی دو سطور پر ختم کرتا ہوں۔ انگریزی زبان میں لکھے ہوئے الفاظ کو ہوبہو نقل نہ کرنے کی قسم توڑنے پر معافی دیجئے گا۔
Offshore is not only a place But a way of doing things and a weapon in the financial industry. It is also a secret in the murky world of big money process.

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں