چیونٹی اور ہاتھی

وضع داری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم پہلے مسکین چیونٹی کی طرف توجہ دیں جس کا ذکر قرآنِ پاک میں آیا ہے۔ جب چیونٹیوں کے قبیلہ کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ حضرت (اور بادشاہ) سلیمان ؑ کی فوجوں کی بڑھتی ہوئی فوج کے ہر اول دستہ کے ہاتھی اُنہیں کچل دیں گے تو انہوں نے رب ذوالجلال سے جان کی امان مانگی جو اُنہیں فی الفور مل گئی۔ فوج نے راستہ بدل لیا۔ ہزاروں سال گزر گئے اور تاریخی دستاویزات سے چیونٹی کا ذکر غائب رہا۔ ایک سو سال ہوئے چیونٹی اورعقاب ہم کلام ہوئے۔ حسن اتفاق سے یہ گفتگو ہمارے شاعر مشرق اقبال نے سُن لی اور اُنہیں اتنی سبق آموزلگی کہ اُنہوں نے اپنے دُوسرے مجموعہ کلام (بال جبریل) کے بالکل آخری حصہ میں اسے نظم کی صورت میں شامل کر کے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔ آپ چیونٹی کی کیفیت اس کے اپنے الفاظ میں پڑھیں: 
''میں پائمال و خوار پریشان درد مند ‘‘ 
عقاب نہ سیاست دان ہے اور نہ صحافی۔ اُسے زیادہ باتیں بنانا نہیں آتیں۔ اُس نے چیونٹی کوپھر اُس کی زبوں حالی کی وجہ جھٹ سے ان الفاظ میں بتا دی۔
''تو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاک راہ میں‘‘ اب آپ بتایئے کہ یہ زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات نہیں تو کیا ہے؟ اگر چیونٹی خاکِ راہ میں رزق نہ ڈھونڈے تو کیاکرے؟ وہ بے چاری اُڑ نہیں سکتی،اگر وہ ہمت کر کے اُڑنے کی ناکام کوشش کرے تو دیکھنے والے بے رحم لوگ حقارت سے کہتے ہیں کہ دیکھیں۔ ''اب چیونٹی کے بھی پر نکل آئے۔‘‘ جس کا مطلب ہے کہ اُس کا برُا انجام قریب ہے ۔ اقبال ؔکے سادہ دل بندوں کی طرح چیونٹی آخر جائے تو کہاں؟ 
سو سال گزرے تو بات چیونٹی اور عقاب سے آگے بڑھ کر چیونٹی اور ہاتھی تک جا پہنچی۔ یہی اس ماہ شائع ہونے والی ایک چشم کشا اور فکر انگیز کتاب کا عنوان ہے۔ کتاب کا نام ہے۔Ants and the Elephants فاضل مصنفہ کا نام ہے Sujatha Gidla ۔ اُنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ دُنیا کے سب سے بلند‘ معیاری ناشرین نے اُن کی کتاب شائع کی۔ کتاب کا موضوع بھارت کے 20 کروڑ اچھوت اور ان کی بے حد تلخ زندگی ہے۔ جنہیں بھارت میں Dalit کہا جاتا ہے۔ ہر چھ بھارتی باشندوں میں سے ایک دَلت ہے۔ ہندو مت کی مقدس کتابوں کے مطابق Dalit اتنے ناپاک ہیں کہ وہ ذات پات کے نظام میں سب سے نچلا درجہ حاصل کرنے کے بھی اہل نہیں۔ دُوسرے الفاظ میں گویا وہ دائرہ انسانیت سے ہی باہرہیں۔ تقریباً تین ہزار سال سے ویدوں کے مطابق اگر کوئی برہمن اتفاقاً کسی اچھوت سے چھو جائے تو وہ بھی ناپاک ہو جائے گا اور آپ کے لئے یہ سوچنا بڑا مشکل ہوگا کہ برہمن کو اس ناپاکی سے نجات کے لئے کتنے جتن کرنا پڑیں گے؟ فاضل مصنفہ کا تعلق بھی اچھوتوں (Dalits)سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اچھوت کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ وہ گائوں کے کنوئیں میں اپنا ڈول ڈال کر پانی نہیں نکال سکتا۔ وہ گائوں کی حدود کے اندر دُوسرے لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی راج کے دوران عیسائی مبلغین کو اچھوتوں کو مسیحی بنانے میں زیادہ مشکل پیش نہ آئی۔ مگر صد افسوس کہ ایک نیا مذہب قبول کر لینے سے اُن کی کایا نہ پلٹی۔ وہ بدستور غریب اور سماجی طورپر افتادگان خاک ہی رہے۔ فاضل مصنفہ کا تعلق جنوبی بھارت کے صوبہ آندھرا پردیش سے ہے اس لئے اُنہوں نے کتاب میں زیادہ توجہ اپنے آبائی وطن کے اچھوتوں کو دی۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ بھارتی آئین کو لکھنے کا سہرا جس شخص کے سر بجا طور پر باندھا جاتا ہے۔ وہ خود اچھوت تھا اور نام تھا Dr. B.R. Ambedkar ،جو ایک
سو سال پہلے لندن میں اُس ادارہ (Gray's Inn ) سے وابستہ ہو کر قانون کی تعلیم حاصل کر کے بیرسٹر بنے جس کی رُکنیت کا اعزاز اس پینڈو کالم نگار کو بھی اللہ نے بخشا۔ سُبحاتھا کے دادا کو کینیڈین پادریوں نے علم سے آراستہ کیا۔ اچھوت ہونے کی وجہ سے اُن کا آبائی گائوں میں رہنا ممکن نہ تھا تو وہ برطانوی آرمی میں بھرتی ہوگئے۔ سُبحاتھا کے ماموں مائوزے تنگ کے انقلابی نظریات سے متاثر ہو کر مسلح جدوجہد کرنے والوں کے ساتھی بن گیا مگر جب اُن کے ساتھیوں کو پتہ چلا کہ کامریڈ اچھوت ہے تو وہ بھی اُس کی قربت سے کترانے لگے اور وہ اپنے انقلابی ساتھیوں کے ساتھ زیادہ دُور تک نہ چل سکا۔ مصنفہ کے ماموں کا نام ستیا مورتی تھا اور کتاب کا بڑا حصہ اُس کی بہادرانہ جدوجہد کے بارے میں ہے۔ کتاب پڑھنے والے ہر شخص کو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہ آئے گی کہ مصنفہ نے زندگی کے جو ڈرامائی واقعات بیان کئے ہیں۔ اُن کی اصل ہیروئن اُسکی اماں (Marijula) ہے۔ اس بہادر خاتون کی خارزاروں سے بھری ہوئی زندگی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان گزری۔ ایک پاٹ کا نام اُچھوت (Dalit )ہونا اور دوسرے پاٹ کا نام اُن کی صنف (Gender )یعنی عورت ہونا تھا۔ مصنفہ کی زندگی کتاب پڑھنے اور علمی حلقوں میں وقت گزارنے میں نہیں گزری۔ جب وہ ایک احتجاجی مظاہرہ میں شرکت کے جرم میں گرفتار ہوئی توتشدد کا نشانہ بنائی گئی۔ وہ نقل مکانی کر کے امریکہ چلی گئی اور نیویارک کے ایک بینک میں برسوں ملازمت کرنے کے بعد اب نیویارک کی زیر زمین ریلوے میں کنڈیکٹر کا کام کرتی ہیں۔ مذکورہ بالا کتاب وہ اچھوتوں کی ہڈ بیتی اور جگ بیتی بیان کرنے میں Kattrine Soo کی باکمال کتاب کے مقابلہ میں دُوسرے درجہ کی ہے۔ بھارت میں دو کروڑ اچھوتوں کی بجائے صرف دو بھی ہوتے تب بھی وہ انسانیت کے نام پراتنا بدنما دھبہ ہوتے کہ کسی بھی انسان دوست کو شرمندہ کرنے کیلئے کافی ہوتے۔ بقول اقبال ہر تہذیب کی ایک ہی حقیقت ہے ۔ اور ایک ہی بنیادی سچائی ہے۔اور وہ ہی انسان کا احترام۔ 
گزشتہ پانچ صدیوں کے اندر یورپ کی ترقی کا کیا راز ہے؟ علم کا فروغ۔ عقل کی بالادستی۔ قانون کی حکمرانی۔ انصاف اور مساوات۔ انسانوں کے حقوق کا تحفظ ۔ عام انسانوں کا احترام۔ یہ سات عناصر ہوں تو پھر جمہوری نظام بھی کامیاب ہوتاہے ورنہ ایک تکلیف دہ مذاق اورنقلی طربیہ (Farce) بن جاتا ہے۔ جیسا کہ بدقسمتی سے وطن عزیز میں ہو چکا ہے اور اتنی برُی طرح ہو چکا ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ہم جمہوری قدروں کی پاسداری کا کون سا بندوبست کریں کہ اُس کی جڑیں عوام کے دلوں میں پیوست ہو جائیں اور عوام ہی اُس کے نگہبان ہوں۔ عوام اُس نظام کی حفاظت کریں گے جس سے وہ خود مستفید ہوتے ہوں۔ مراعات یافتہ طبقہ ہو کوئی وزیراعظم یا صدرمملکت یا بادشاہ کرایے کے سپاہی اُسے تاج و تخت سے محروم ہونے سے ہمیشہ نہیں بچا سکتے۔ ناانصافی اور عدم مساوات کے ستائے ہوئے بندے ایک نہ ایک دن (بقول اقبال) آقائوں کے خیموں کی طنابیں توڑ دیتے ہیں۔ انقلاب کا جوالا مکھی پھٹ پڑے اور عوامی مزاحمت کا لاوا سیلاب بن کر بہنے لگے تو پھر حقیر۔ مسکین اور ناچیز چیونٹیوں کو بھی پر لگ جاتے ہیں۔ وہ ہاتھیوں سے ڈرنا چھوڑ کر ان پر اس شدت سے پل پڑتی ہیں کہ وہ اُلٹے پائوں بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ پورس کے ہاتھیوں کی طرح۔ پھر اقبالؔ اپنے ممولے کو بھی شہباز سے لڑا دیتے ہیں۔ پھر ابلیس اپنی مجلس شوریٰ کا ہنگامی اجلاس بلا کر اپنی بچھائی ہوئی بساط کے اُلٹ جانے کے اسباب پرغور کرتاہے تو اُسے غیب سے یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ تحقیق اللہ سب سے بہترین منصوبہ بندی کرنے والا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں