انصاف کا بول بالا

یہ ہے وہ معصوم اور بظاہربے ضرر عنوان جس کے تحت ہمارے ملک کے ایک کہنہ مشق، جہاں دیدہ اور قابل احترام صحافی نے ایک معاصر اخبار میں 16 ستمبر کو کالم لکھا۔ (جو اسی اخبار کے لندن ایڈیشن نے 17 ستمبر کو شائع کیا۔) میں نے اس کالم کو کالم نگار سے چھ ہزار میل کے محفوظ فاصلہ پر پڑھا مگر اُن کی فقید المثال طنزیہ تحریر کی تپش کا یہ عالم تھا کہ وہ برطانیہ میں موسم خزاں کی مُعتدل سردی پر غالب آگئی۔ 
مذکورہ بالا صحافی کو یہ خبر بہت ناگوارگزری کہ عدالت عالیہ نے جناب نواز شریف کو پہلے نااہل قرار دیا اور پھر نظر ثانی کی درخواست مسترد کر دی۔ اسے کہتے ہیں ستم بالائے ستم! معزز صحافی کا پیمانہ صبر لبریز ہوا تو اُنہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کڑوے کسیلے بلکہ زہریلے تیروں کی بارش کر دی۔وہ اس صدمہ سے نڈھال ہو کر گر پڑے کہ اُن کی توقع کے برعکس انصاف کا بول بالا ہوتے ہی نہ دُودھ کی نہریں بہنے لگیں، نہ گندم کے دانے موٹے ہوئے اور نہ کپاس کے ریشے لمبے ہوئے ،نہ گنے کی مٹیاں مزید رس بھری ہوئیں اور نہ پھلوں میں مٹھاس آئی۔نہ گلو کاروں کی آواز میں لوچ پیدا ہوا۔ نہ آسمان پر ست رنگی قوس قزح نظر آئی۔ نہ پرندوں کی چہکار میں موسیقی اور نہ بانسری کی مادہوری سروں کی آواز سنائی دی۔منطق یہ ہے کہ اگر سپریم کورٹ اُن صاحب کے دل و دماغ پر بجلی بن کر گرنے والا اور اُن کی متاع سکون کو تباہ و برباد کر دینے والا اور اُن کے ہاتھ سے سنجیدہ صحافی کا قلم چھین کر تیروں کی بارش کر دینے والی کمان تھما دینے والا فیصلہ نہ کرتی تو وہ سب کچھ ہو جاتا جو نہ ہونے پر وہ اس طرح زار و قطار روئے کہ آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ ہچکیاں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتیں۔ کچھ عجب نہیں کہ وہ اگلا قدم یہ اُٹھائیں کہ ایک پیشہ ور نوحہ گر کی خدمات حاصل کرلیں، مقام صد مسّرت ہے کہ پیشہ ور صحافی غالبؔ کی طرح مقدورہونے کی شرط سے یقینا بے نیاز ہے۔ اُن کی ذہنی دیانتداری۔ عوام دوستی اور جذبۂ حب الوطنی سے لکھی ہوئی تحریر کو پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی اُن کی طرح اشکبار ہوئی ، مگر خدشہ ہے کہ کچھ قارئین اتنے سنگدل۔ کور چشم اور عقل کے اندھے نکلیں گے اور اُن سے اتفاق نہ کرتے ہوئے یہ پکار اُٹھیں گے۔ ع
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ہمارے ملک کے ایک اخبار کے اداراتی صفحہ کا کتنا بڑا حصہ اس گمراہ کن۔ آدھا سچ بیان کرنے والی اور ہمارے پریشان ذہنوں کو مزید گدلا کرنے والی تحریر کو دیا گیا؟ جواب ہے 20% ۔ یعنی پانچواں حصہ۔ ایک غیر پیشہ ور کالم نگار کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ترکی بہ ترکی جواب دینے کا شوقِ فضول پورا کرنے کے لئے اپنے اخبار کا اُتنا ہی بڑا حصہ اس مصرف میں لائے۔ اپنا موقف پیش کرنے سے پہلے یہ لکھ کر بات ختم کی جاتی ہے کہ انصاف کا بول بالا لکھنے والے صحافی کو اُسی اخبار کے اُسی صفحہ پر اپنے سے کم عمر تین صحافیوں کی اسی موضوع پر تحریریں پڑھ کر یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ طنزیہ تحریر کا مستحق ہے یا سنجیدہ تجزیہ اور ذمہ دارانہ تبصرے کا؟ کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں؟میری درخواست ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنی تحریر پر نظر ثانی کریں۔
وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہر تعلیم یافتہ شخص کی طرح مذکورہ بالا فاضل صحافی بھی ارتقائی عمل کا مطلب سمجھتے ہوں گے۔ نہ رات کا اندھیرا ایک پل میں ختم ہوتا ہے اور نہ سورج ایک لمحہ میں طلوع ہوتا ہے۔ تاریکی کا ختم ہونا اور رُوشنی کا پھیلنا ایک طویل اور جدلیاتی تاریخی عمل کا نام ہے۔ یہ دنوں ، مہینوں یا برسوں پرنہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی بننے اور قیام پاکستان کے درمیان تقریباً ایک صدی کا وقفہ آیا۔ نہ پاکستان ایک دن میں بنا اور نہ ہی ایک دن میں ٹوٹا۔ انسانی تاریخ قدم بہ قدم آگے بڑھتی ہے اور کبھی (بقول لینن) ایک قدم آگے بڑھ کر دو قدم پیچھے جاتی ہے۔ تاریخ آگے بڑھنے ، پیچھے ہٹنے کی داستان ہے۔ یہ فتح و شکست سے مرتب ہونے والے سلسلہ ٔ روز شب سے تشکیل پاتی ہے۔ اگر آپ کو میرا موقف زیادہ وزنی نہ لگے تو وقت نکال کر اور تھوڑی سی زحمت کر کے اقبال کی ایک نظم (زمانہ) پڑھ لیں۔آپ کو میرا استدلال باآسانی سمجھ میں آجائے گا۔
بارش ایک قطرہ سے شروع ہوتی ہے۔ ہوا کا ایک جھونکا موسموں کی تبدیلی کی خبر لاتا ہے۔ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور دیرپا انقلاب خانہ کعبہ میں چار الہامی آیات پر مشتمل ایک سُورت (اخلاص ۔ فاتحہ ) کے آوایزاں کرنے سے شروع ہوا۔ دُنیا کے سب عالم فاضل لوگ بچپن کے دنوں میں بمشکل حروف ابجد اٹک اٹک کر سیکھتے ہیں۔ جس طرح تیز رفتار دوڑ میں نئے عالمی ریکارڈ قائم کرنے والا ایک دن پائوں پائوں چلتا ہے۔ بار بار گرتا ہے پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ بڑا ہو کر طلائی تمغہ حاصل کرتا ہے۔
ایک وہ منحوس گھڑی تھی جب ہماری سپریم کورٹ نے تمیز الدین کیس میں آئین کی حکمرانی کو پامال کیا۔ یہ تھا نوزائیدہ جمہوری نظام کے تابوت میں پہلا کیل۔ سپریم کورٹ نے جناب بھٹوکے دبائو کے تحت ایک سراسر محب الوطن جماعت (نیشنل عوامی پارٹی) کو غداری اور ملک دُشمنی کا سرٹیفکیٹ دیا۔ اسی سپریم کورٹ نے ایک آمر مطلق کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اُسی ذوالفقار علی بھٹو کو بے حد مشکوک، کمزور اور متنازعہ بنیادوں پر پھانسی کی سزا سنائی۔ ان 70 برسوں میں عدالت عالیہ نے بہت سے فیصلے کئے۔ اچھے اور بہت اچھے، برُے اور بہت برُے ۔ جسٹس منیر ،جسٹس انوار الحق، جسٹس نسیم حسن شاہ اور جسٹس ڈوگر کے نام عدالت عالیہ کی روشن پیشانی پر بدنما دھبے ہیں۔ دُوسری طرف جسٹس ایم آر کیانی۔ جسٹس کارنیلیٔس۔ جسٹس دُراب پٹیل۔ جسٹس افتخار چوہدری۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم۔جسٹس سعید الزماں صدیقی اور جسٹس وجیہہ الدین احمد صاحبان کی وجہ سے اس پیشانی کو روشنی ملی، زندگی اور تابندگی بھی۔ عمر ،تعلیم اور تجربہ میںبڑا ہونے کی وجہ سے یہ کالم نگار مذکورہ صحافی کو اپنی بزرگی جتائے تو غالباً حق بجانب ہوگا مگر کوئی بھی وکیل کمزور دلیل دے کر اپنے اچھے مقدمے کو کمزور نہیں کرنا چاہتا۔ فاضل صحافی کی طرح یہ کالم نگار بھی بنیادی طورپر ایک دیہاتی اور ہل جوتنے والے کسان کا پوتا ہے۔ اس لئے صرف سیدھی سادی بات کرناجانتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی کا عمل آگے بڑھا یا نہیں؟ میں بلا توقف کہوں گا کہ یقینا آگے بڑھا۔ ہزاروں لاکھوں افراد میرے ساتھ اتفاق کریں گے۔ زیادہ امکان ہے کہ تاریخ بھی اس فیصلہ کی تائید کرے گی۔ آج نہیں توکل انصاف کا بول بالا ہو کر رہے گا۔
نہ عدالت کے ایک فیصلہ سے انصاف صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے اور نہ ایک فیصلہ سے انصاف کا بول بالا ہوجاتاہے۔ (خصوصاً اُن معنوں میں جو مذکورہ بالا کالم میں طنزیہ پیرائے میں بیان کئے گئے۔) فاضل صحافی کی دل دکھانے والی اور عقل سلیم کو مجروح کرنے والی تحریر کے بارے میں نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جا سکتاہے کہ وہ ایک کھوکھلا ، سطحی اور ناقابل رشک بیانیہ تھا۔ یہ وقت نہ خوشی کے ڈنکے بجانے اور نہ ڈھول پیٹنے کا ہے اور نہ رنج و غم سے اپنے بال نوچنے کا۔ یہ سنجیدگی سے غور و فکر کا مقام ہے۔ ہم ایک بار پھر ایک تاریخی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ آیئے ہم سب مل کر تمام قومی مسائل کو قومی اتفاق رائے سے حل کریں۔ اس کالم نگار کی نہیں تو سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی صاحب کی بات دھیان سے سُنیں۔ یہ وہ وقت ہے اپنی شیرازہ بندی کا۔ صف بندی کا۔ ذاتی پسند اور ناپسند کی سطح سے اُوپر اُٹھنے کا، بکھرے ہوئے دانوں کو تسبیح میں پرونے کا۔ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کا۔ یاد رکھیں کہ جب ہم سب جاگیں گے تو سویرا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں