ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام

آپ نے پورا مصرع پڑھنا ہو تو مندرجہ بالا الفاظ کے آگے ''اے ساقی‘‘ کا اضافہ کر لیں۔ بال جبریل کی غزل نمبر27 کا پہلا مصرع بھی پڑھ لیجئے گا۔ع 
لا پھر اک بار وُہی بادہ و جام اے ساقی
یوں تو اقبال کی سات مصرعوں کی یہ غزل ساری کی ساری کمال کی ہے مگر مصرع نمبر پانچ حاصل غزل ہے۔؎ 
عشق کی تیغ جگردار اُڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
اب مسلمانوں کے دل میں نہ عشق اور نہ دماغ میں علم۔ اقبال یہی خواب دیکھتے اور سوئی ہوئی قوم کو دکھاتے دُنیا سے رُخصت ہوئے۔ خواب کیا تھا؟ ذہنی طور پر مفلوج اور ایمان کی حرارت سے محروم مسلمانوں کو اپنی کھوئی ہوئی عظمت مل جائے۔ اقبال کی اعلیٰ ظرفی ملاحظہ فرمایئے کہ جب ساقی سے التجا کرنے کا مرحلہ آیا تو یہ نہیں کہا کہ وُہ برائے مہربانی مسلمانوں کو زیادہ نہیں تو تھوڑی سی عقل اور تھوڑا سا شعور دے دے۔ وضع داری کا یہ عالم تھا کہ یہی دُعا مانگی کہ مجھے میرا مقام مل جائے۔ع
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی
بقول اقبال ؔوہ ساقی جس کے پیمانہ میں ماہِ تمام ہے۔ اقبال کی زندگی میں آنے والی راتوں کو مہتاب سے محروم رکھتا تو کیونکر؟ اقبال کے الفاظ میں سینہ روشن ہو تو سوز و سخن عین حیات بن جاتا ہے۔ اقبال نے سینہ کا لفظ دل کے حوالہ سے استعمال کیا۔ اُن کا مطلب یہ تھا کہ وُہ ذات باری جس نے اقبال کا دل و دماغ روشن کیا اب ایک اور مہربانی یہ کرے کہ اقبال کا کلام (اُن کی زندگی میں) اپنے کانوں سے سننے والوں اور اب پڑھنے والوں کو بھی عقل و خرد کی نعمت عظمیٰ سے اتنا مالا مال کر دے کہ اُس کے ہاتھ اپنا مقام آ جائے۔ اور اُس کے شعور کے اُفق اتنے وسیع ہو جائیں کہ اُسے وہ گردوں نظر آنے لگے جس کا وہ اک ٹوٹا ہوا تارہ ہے اور اب اس حساب سے صرف راکھ کا ڈھیر۔ آپ پوچھیں گے یہ کیسے ہوا؟ ایسی بلندی ایسی پستی کا یہ المیہ کیسے رُونما ہوا؟ جواب حاصل کرنے کے لئے آپ کو دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ اقبال کے ساقی نامہ میں اس شعر کا پہلا مصرع پڑھ لیں۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
ظاہر ہے کہ اقبال نے جس عشق کا بار بار ذکر کیا یہ وہ نہیں جو ہمیں اپنی واہیات فلموں اور ناولوں میں نظر آتا ہے۔ عشق سے مراد اعلیٰ مقاصد۔ اخلاقی قدروں اور آدرش سے وہ وابستگی ہے جس کی خاطر بہادر لوگ اپنی زندگی تک قربان کر دیتے ہیں۔ یہ تھا قائد اعظم کا ہندی مسلمانوں سے عشق۔ فیض احمد فیض۔ حبیب جالب اور حسن ناصر (شہید) کا محنت کشوں سے عشق۔ یہ تھا امریکہ میں روزن برگ جوڑے کا اشتراکیت کے نظریہ سے عشق۔ یہ تھا بھگت سنگھ‘ حسرت موہانی‘ عبیداللہ سندھی اور جمال الدین افغانی کا سامراجی غلبہ سے آزادی کا عشق۔ یہ تو تھیں بڑی بڑی اور پرانی مثالیں‘ ایک چھوٹی مثال پر غور فرمائیں۔ برما کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی تو اُنہوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی اور وہ بھی بدترین حالات میں۔ ترکی کے علاوہ سارے عالم اسلام نے منہ پھیر لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ ہمارے اپنے ملک میں سیاسی جماعتیں ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ مذہبی جماعتوں کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے کم از کم سڑکوں پر پرجوش مظاہرے تو کئے‘ مگر عشق کے کڑے امتحان میں میرے پرانے دُوست Senator طلحہ محمود پورے اُترے‘ جو اپنے ساتھ امدادی سامان لے کر مصیبت زدگان کے پاس جا پہنچے۔ کیا میں یہ اُمید رکھنے میں حق بجانب ہوں کہ نہ صرف ارب پتی پاکستانی بلکہ دوسرے بھی اُن کے نقش قدم پر چلیں گے۔ امداد لینے والوں کی دُنیا سنور جائے گی اور دینے والوں کی آخرت! برما کے مفلوک الحال ستم زدہ اور بے یارومددگار مسلمانوں (جن میں لاکھوں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں) کی دُکھ بھری داستان کے مختصر تذکرہ کے بعد ہم آگے بڑھتے ہیں۔
یہ کالم نگار اپنے پیارے قارئین کو دعوت دیتا ہے کہ ہم مل کر دو اور ملکوں پر طائرانہ نظر ڈالیں۔ پہلا نام ہے Clinton Pryor ۔ ملک کا نام آسٹریلیا۔ جب وہ ایک سال مسلسل پیدل چل کر (کل فاصلہ 3600 میل) پرUluro کی بڑی چٹان تک پہنچا تو لوگ اُسے Spirit Walker یعنی چلتی پھرتی روح کے لقب سے پکارتے تھے۔ اُس نے اپنا تاریخی سفر آسٹریلیا کے مغربی ساحل پرPerth سے شروع کیا جو ایک سال بعد مشرقی ساحل پر سڈنی اور وہاں سے دارالحکومت Canberra پہنچ کر ختم ہوا۔ اگر حساب کا سوال حل کیا جائے تو یہ بہادر اور انتھک شخص روزانہ 30 سے لے کر 60 کلومیٹر تک پیدل چلا۔ ایک دن نہیں۔ ایک ہفتہ نہیں۔ ایک ماہ نہیں بلکہ ایک سال کے 52 ہفتے اور ہر ہفتے کے ساتوں دن۔ سفر پر 16,672 آسٹریلوی ڈالر خرچ آئے۔ کلنٹن کا تعلق آسٹریلیا کے اصل باشندوں (Aborignees ) سے ہے۔ لانگ مارچ کا مقصد مقامی آبادی کی مصیبتوں کے ازالہ اور دُکھوں میں کمی کی طرف رائے عامہ کی توجہ دلانا تھی۔ مقامی اور ساحلی آبادی کے افراد آسٹریلیا کی کل آبادی کا تین فی صد ہیں۔ اٹھارہویں اور اکیسویں صدی میں کئے جانے والے قتل عام کے باوجود آسٹریلیا میں سفید فام لوگوں کے ہاتھ اُسی طرح انسانی خون سے سُرخ ہوئے جس طرح افریقا‘ ایشیا اور امریکہ کے براعظموں میں۔ مذکورہ بالا بہادر شخص ڈیڑھ لاکھ مربع کلومیٹر کے Gibson نامی صحرا سے بھی گزرا‘ جہاں درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ تھا۔ ایک زمانہ تھا جب ہندوستان سے لوگ حج کرنے پیدل جاتے تھے۔ انہیں آنے جانے میں کل ایک سال لگ جاتا تھا۔ یہ کالم نگار مڑ کر پیچھے دیکھے تو اُسے 1974ء میں نصب ایک سنگ میل نظر آتا ہے۔ اُس کے اُوپر لکھا ہوا ہے برمنگھم سے لے کر لندن ہائیڈ پارک تک کا سو ا سو میل کا پیدل سفر۔ سفر شروع کرنے والے ساتھیوں کی کل تعداد 24 تھی۔ آدھے راستہ میں بھاگ گئے۔ اس چھوٹے سے مارچ کی تیاری اور تکمیل میں جمیل کاہلوں مرحوم کا عملی تعاون بھلایا نہیں جا سکتا۔ مارچ کا مقصد بھارت کی قید سے نوے ہزار پاکستانی فوجیوں کی رہائی کا مطالبہ کرنا تھا۔ اس مظاہرہ کو لاکھوں افراد نے دیکھا۔ سُوجے ہوئے پائوں تو چند دنوں کے بعد معمول کی شکل اختیار کر گئے‘ مگر 43 سال گزر جانے کے بعد بھی کالم نگار کا بوڑھا دل خوشی کے اُس جذبہ سے سرشار ہے جو بارہ مٹھی بھر افراد کی سات دن قیادت سے حاصل ہوئی۔ آخری خبر بالکل غیر سیاسی ہے جو وسطیٰ ایشیا کے ایک بہت بڑے ملک (جو سارے یوروپ سے بھی بڑا ہے) قازقستان Kazhakastan سے آئی ہے۔ 70 سال پہلے اُس ملک کے جنگلوں سے شیروں کا وجود تقریباً نیست و نابود ہو گیا۔ وجہ؟ بے تحاشا اور بے حد و حساب شکار اور اُس قدرتی ماحول میں شدید کمی جس میں شیر خود اپنی خوراک اور شکار کرکے کھاتے اور زندہ رہتے ہیں۔ شیروں کے قتل عام کو 70 سال گزرے تو اُس ملک کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہاں پھر ہزاروں شیروں کو آباد کیا جائے۔ اس منصوبہ کو مکمل ہونے میں دس سال لگیں گے۔ اگر شیروں کو اُردو ادب سے شغف ہوتا تو وہ بلند آواز سے غالب کا یہ شعر ہمیں اپنی گرجدار آواز میں سناتے: 
کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
جنگلی حیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ سوا سو سال پہلے قازقستان میں اندازاً ایک لاکھ شیر تھے جو اب گھٹ کر 3900 رہ گئے ہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پسماندگان کس طرح دُم دبائے کس سنسنان جگہ میں دبکے بیٹھے ہوں گے۔ گرجنا تو کیا ایک دُوسرے سے بات چیت بھی سہمی ہوئی سرگوشی میں کرتے ہوں گے۔ کالم نگار کا بدقسمتی سے ان شیروں سے کوئی رابطہ نہیں ورنہ وہ انہیں یہ خوش خبری ضرور سناتا کہ اب اُن کے اچھے دن آنے والے ہیں۔ نہ معلوم پاکستان میں رہنے والے 20 کروڑ شیروں کے اچھے دن کب آئیں گے۔ جو اس وقت بھیگی بلی اور کمہار کا گدھا بن کر مراعات یافتہ طبقوں کے رحم و کرم پر زندہ ہیں۔ زندہ کیا ہیں۔ بس جی رہے ہیں۔ زندگی پر تہمت بن کر۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں