زمین کا نمک

اگر بڑھاپے میں بھی میرا حافظہ بدستور اچھا ہو (غالباً روزانہ بادام کھانے کی وجہ سے) تو میں یہ حوالہ دینے کی جسارت کر رہا ہوں کہ انجیل مقدس میں غریب لوگوں کو زمین کا نمک کہا گیا ہے۔ یہ میں نے پہلی بار پچاس کی دہائی کے نصف میں مرے کالج سیالکوٹ کے گرجا گھر میں عبادت کرتے ہوئے پہلی بار سنا تھا۔ (پڑھنے کی نوبت کئی سال بعد آئی) مرے کالج میں میرے قابل ذکر ہم عصر طلبائ!کون تھے؟ ارشاد حسین کاظمی۔ زمرد ملک۔ مہدی حسن۔ ع ادیب ۔ خالد حسن اور وارث میر ۔ ان میں ایک نہ ایک خوبی ضرور تھی۔ مقرر۔شاعر یا گلوکار یا ادیب یا انشاء پرداز۔ اب وہ سب کے سب اگلے جہان جا چکے ہیں۔ اساتذہ کون تھے؟ پرنسپل سکاٹ (جو رہنے والے بھی سکاٹ لینڈ کے تھے)۔ پروفیسر تھامس (کنیئرڈ کالج میں عمر بھر پڑھانے والی پرومیلا کے والد)۔ ڈی ڈبلیو ٹرئی یسلر (بہادر فوجی افسران ٹریسلر برادران کے والد)۔ پروفیسر خیراللہ (جو مسیحی تھے اور اپنی بیوی سے قد میں ایک فٹ چھوٹے ہونے کے باوجود اُس کے ساتھ روزانہ سیر کرتے نظر آتے تھے)۔ علامہ خالد محمود (جو بعد ازاں برطانیہ آگئے اور مجھے یہاں ملتے رہے)۔ خواجہ لطیف۔ (جو یقینا وزیردفاع خواجہ محمد آصف کے قریبی بزرگوں میں تھے اور کشمیری برادری کے سب سے تعلیم یافتہ شخص تھے۔) اب نہ میرے زمانے کے طلباء و طالبات ہیں اور نہ ہمارے قابل احترام اساتذہ۔ اب ادھر اُدھر نظر دوڑاتا ہوں توصرف تین ہم عصر نظر آتے ہیں۔ گلبرگ کی لبرٹی مارکیٹ میں میرے پڑوسی ممتاز گیلانی۔ اسلام آباد میں وجاہت لطیف (سابق انسپکٹر جنرل پولیس) اور جمعیت اہل حدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر (جو بطور طالب علم کے اتنے گم نام تھے کہ جب نصف صدی کے بعد ملاقات ہوئی تو میں نے اُنہیں بصد مشکل پہچانا اور وہ مجھے پہچاننے پر ہر گز آمادہ نہ ہوئے)۔
جب سے انسانی معاشرہ معرض وجود میںآیا ہے۔ طاقتور اور کمزور کی باہمی آویزش اور کشمکش جاری ہے۔ تاریخ کا زیادہ حصہ تو شکار کر کے خوراک حاصل کرنے کا دور لے گیا۔ انسان زرعی دور میں داخل ہوا تو طبقات میں تقسیم ہو گیا۔ صنعتی دور آیا تو اس نے بے زمین کھیت مزدوروں کو کارخانوں کا مزدور بنا دیا۔ بڑے بڑے تاجر اور جاگیر دار صنعت کار بن گئے۔ دُنیا میں جتنے بھی مذاہب آئے اُن کی بنیاد انسان دوستی پر تھی۔ ہر مذہب نے انسان کے دل میں نیکی اور خدا ترسی کے جذبات پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کڑوی سچائی یہ ہے کہ اس کوشش میں کسی بھی مذہب کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ امیروں کا دل کی گہرائیوں سے غریب لوگوں کے دُکھ درد میں شامل ہونا اُتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ ایک انگریزی محاورے کے مطابق چیتے کا اپنی کھال کے نشانات تبدیل کرنا۔ وجہ Leopards Do Not Change their Spots ۔ چیتا چاہے بھی تو اپنی کھال کے رنگ دار دھبے نہ بدل سکتا ہے اور نہ مٹا سکتا ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ کے افراد تو غالباً یہ چاہتے بھی نہیں۔ اس خواہش کا مطلب ہوگا اپنے مفادات اور مراعات کی قربانی دینا۔ کون سا امیر شخص اتنا فرشتہ صفت یا پاگل ہو سکتا ہے کہ وہ تمیز بندہ وآقا (جسے اقبال نے فسادِ آدمیت کہا ہے) کو مٹانے کا حامی بن جائے اور انتخابات ہو ں تو بائیں بازو کی اشتراکی جماعت کو ووٹ دے۔ شوق مطالعہ ہو تو کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز کا لکھا ہوا اشتراکی منشور پڑھئے۔ شوق موسیقی ہو تو ڈیڑھ صدی سے دُنیا بھر کے اشتراکیوں کا انقلابی ترانہ (سُرخ پرچم) گائے۔ یہ ترانہ جو 27 ستمبر کی شام کو انگلستان کے جنوبی ساحل کے شہر Brigtton میں لیبر پارٹی کی سالانہ کانفرنس میں شریک ہزاروں لوگوں نے اس جوش و خروش سے گایا کہ اُس کی گونج سارے برطانیہ میں سنائی دی۔ 
پاکستان کیوں بنا اور کیوں ٹوٹا؟ آپ نے غور فرمایا کہ بنا اس لئے کہ ہندوستان میں مسلمان عوام (دوبارہ لکھتا ہوں عوام) کی معاشرتی حالت اور اس کے نتیجہ میں سیاسی حالت انتہائی کمزور ہو چکی تھی۔ پاکستان صرف 23 برس بعد ٹوٹ گیاچونکہ مشرقی پاکستان کے عوام (دوبارہ لکھتا ہوں عوام) کی معاشی حالت مغربی پاکستان کے عوام کے مقابلہ میں نمایاں طور پر کمزور تھی اور بنگلہ دیش بنانے کے سوا کوئی اور حل نہ تھا۔ پختونستان کیوں نہیں بنا؟ جواب سیدھا سادا ہے۔ خیبر پختون خوا کے عوام کی معاشی حالت اتنی بہتر ہوگئی کہ انہیں پاکستان سے علیحدگی حاصل کرکے افغانستان کا حصہ بن جانا اپنے مفاد کے خلاف نظر آیا۔ خالصتان کی تحریک کی ناکامی کی بھی بالکل یہی وجہ بیان کی جا سکتی ہے۔ انقلاب فرانس لے کر رُوس میں اشتراکی انقلاب۔ ایران میں اسلامی انقلاب۔ ماہ ستمبر کے آخر میں سپین کے ایک حصہ Catalonia میں استصواب رائے کے بعد اُسے خود مختار مملکت بنانے کی تحریک۔ انہی دنوں عراق میں استصواب رائے اور کردوں کی علیحدہ اور آزاد ملک کے قیام کی طرف پہلا بڑا قدم۔ افغانستان میں طالبان کی ناقابل شکست قوت اور تقریباً نصف رقبہ پر قبضہ تاریخ عالم عوام کی اُس عوامی جدوجہد کا نام ہے۔ جو انصاف، مساوات اور خوشحالی کی خاطر کی گئی اور ہر سال کے ہر دن جاری و ساری ہے۔ علیحدہ ملک بن جائے تو اصل کام پھر شروع ہوتا ہے۔ اُسے صرف اخوتِ عوام کی قوت ہی زندہ و تابندہ رکھتی ہے۔ کسان، مزدور، محنت کش، اساتذہ اور وُکلا۔ غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ ہی ہر ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ یہ ٹوٹ جائے تو ملک ٹوٹ جاتا ہے اور وہ بھی اتنی برُی طرح کہ گر پڑتا ہے۔ گر جائے تو اُٹھ نہیں سکتا۔ اُٹھ کھڑا ہو تو پھر گر پڑتا ہے۔ 70 برس گزر جانے کے بعد بھی یہ بحث ابھی جاری ہے کہ کیا پاکستان دو قومی نظریہ کی وجہ سے معرض وجود میں آیا ۔ اعتزاز احسن نے اپنی کتاب The Indus Saga میں لکھا ہے کہ اگر مغربی پاکستان میں ہندوئوں کی اکثریت ہوتی تب بھی یہ علاقہ ہندوستان سے علیحدہ ملک بن جاتا۔اُردو ادب میں عوام دوستی کی جو روایت پنجابی صوفی شعراء (خصوصاً بلھے شاہ) اور پھر نظیر اکبر آبادی نے شروع کی اُسے اقبال اور پھر فیض احمد فیض،کیفی اعظمی کیفی، حبیب جالب اور احمد فراز اپنے اپنے انداز میں بہت آگے تک لے گئے۔ اقبال نے فرشتوں کے نام ایسا فرمانِ خدا لکھا کہ وہ عوام کا مراعات یافتہ طبقہ کے خلاف اعلان جنگ بن گیا۔ فیض صاحب اپنے مجموعہ (سروادیٔ سینا) کا انتساب کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام کیا۔ صرف کلرک نہیں بلکہ تانگے والوں کے نام۔ ریل بانوں کے نام۔ کارخانوں کے بُھوکے جیالوں کے نام۔ دہقانوں کے نام۔ پاکستان کے کروڑوں دہقانوں‘ کسانوں اور سندھ کے ہاریوں کی حالت زار دیکھیں۔ مسعود کھدر پوش جیسا بڑا افسر (اور سب سے بڑا عوام دوست) ہاری رپورٹ نہ لکھتا تو شاید ہم بدستور لا علم رہتے۔ کہ لاکھوں ہاری صدیوں سے ظلم کی کس چکی میں پس رہے ہیں۔ مذہب کی غلط اورمسخ شدہ تشریح کی جائے تو وہ عوام کے ہاتھ کی تلوار بن جانے کی بجائے اُن کی پائوں کی زنجیر بن جاتا ہے (جیسا کہ دور ملوکیت میں ہوا اور بدستور جاری ہے)۔ شعور کی پستی کا یہ عالم ہو جاتا ہے کہ (بقول اقبال) اگر ہندی مسلمان کو برطانوی راج میںسجدہ کی اجازت مل جائے تو بے چارہ سمجھتا ہے کہ اُسے مذہبی آزادی مل گئی۔ اُسے اور کیا چاہئے؟ اسے پنجابی میں کہتے ہیں، موجاں ہی موجاں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان ایک اُمید۔ ایک وعدہ اور ایک آدرش کی پیداوار ہے۔ مساوات، انصاف اور شخصی آزادی کے خواب جو کروڑوں لوگوں کو آسمان پر چمکنے والی کہکشاں کی طرح نظر آتے تھے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو یقین تھا کہ ہمارا اپنا ملک بن گیا تو ہماری رسائی ان خوابوں تک ہو جائے گی۔ ملک کا قیام ان خوابوں کی تکمیل کے مترادف ہے۔ 70 سال گزر جانے اور ملک ٹوٹ جانے کے بعد بھی یہ خواب پورے نہیں ہوئے۔ ہماری چالیس فی صد آبادی سرکاری کاغذوں میں خط افلاس سے نیچے زندہ رہتی ہے۔ اس کا مطلب ہے دس کروڑ لوگ۔ انہی لوگوںسے حبیب جالب نے مخاطب ہو کر کہاتھا ؎
دس کروڑانسانو ... زندگی سے بیگانو
میں نے اپنے بچپن میں (قیام پاکستان سے پہلے )ایک نعرہ سنا تھا۔ ''پگڑی سنبھال جٹا‘‘ میں بوڑھا ہو اتو فیض صاحب کی شاعری کی کتاب (میرے دل میرے مسافر) کھولی تو پڑھا ''اُٹھ اُتاں نوں جٹا۔‘‘ المیہ یہ ہے کہ نہ جاٹ (مطلب ہے کسان) اُوپر اُٹھ سکتا ہے اور نہ اپنی پگڑی سنبھال سکتا ہے۔ زمین کا بیٹازمین کا نمک بن گیا۔اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں