ہمارا ماضی اور اُس کا سُراغ لگانے والے

ہمارا ماضی؟ دُھندلا‘ گرد آلود‘ آنکھوں سے اوجھل‘ حقیقت اور سراب کا امتزاج‘ مٹی اور ریت سے زیادہ تنازعات سے آلودہ۔ جب شیشہ ٹوٹ گیا تو اس میںشکل نظر آئے تو کیونکر؟ اقبال کہتے ہیں کہ آئینہ شکستہ ہو تو آئینہ ساز کی نگاہ میں عزیز تر ہوجاتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں تو یقینا درست فرماتے ہوں گے۔ مگر سچائی یہ ہے کہ ہمارے لہولہان ہاتھوں میں صرف ٹوٹی ہوئی کرچیاں ہیں۔ اب ہم اُنہیں جوڑنے والا آئینہ ساز کہاں سے لائیں؟ ع
میر سپاہ ناسزا اور لشکریاں شکستہ صف
یہ اقبال کا ایک مصرع ہے۔ جس کا اطلاق ہماری سپاہ پر نہیں بلکہ ہماری سیاسی قیادت پر ہوتا ہے۔ نظر آنے والے مناظر اتنے دل شکن ہوں تو ہم کیوں نہ اپنی آنکھیں بند کر کے ماضی کے دیو مالائی اور افسانوی تصورات میں کھو جائیں؟ دُوسرے لوگ ہمیں ماضی پرست کہیں تو ہماری بلا سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے قائدین پر ناقدانہ نظر ڈالیں تو اُن کا موازنہ تیسری دُنیا کے موجودہ رہنمائوں سے نہیں بلکہ ماضی کے حکمرانوں سے کرتے ہیں۔ دُنیا بھر میں کوئی بھی قوم ہماری طرح نہیں۔ جو ماضی کے واقعات کو اپنے شعور کا حصہ بنا لے۔ تاریخ کا سب سے گہرا تعلق تو جغرافیہ سے ہوتا ہے اور اس کی سوجھ بوجھ کے معاملہ میں ہم شروع دن سے صفر نمبر لیتے آ رہے ہیں۔ موہنجو دڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا کی کھدائی کا سہرا سر جان مارشل کے سر باندھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ برطانوی راج کے بڑے افسروں میں سے ایک تھا۔ اُس کا فرض منصبی ہمیں اپنے زیرِ تسلط رکھ کر ہمارے اُوپر حکومت کرنا تھا‘ ناکہ ہمارے بے حد شاندار ماضی کے نقوش کو اتنی لگن سے اُجاگر کرنا۔ سر جان مارشل کی قابل فخر روایت کونصف صدی بعد جس خاتون کھوجی اور ماہر آثار قدیمہ نے آگے بڑھایا اُس کا نام Bridget Allchixin ہے۔ امسال وسط اکتوبر میں وہ نوے برس کی عمر میں جہان فانی سے رُخصت ہوئیں تو برطانیہ اور یورپ کے علمی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ اُن کی زندگی میں تو ہمیں ان کی گراں قدر علمی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف کی سعادت نصیب نہ ہوئی تو کیا اب بھی اُس کی تلافی نہیں ہو سکتی؟ حکومت پاکستان ان کے بیٹے Willian اور بیٹی Sushila کو اسلام آباد بلا کر سرکاری تقریب میں نشانِ امتیاز دے کر اپنی غفلت کی تلافی کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو، جناب جاوید جبار، ڈاکٹر صفدر محمود، ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹر شاہدہ وزارت، ڈاکٹر ابوبکر شیخ، ڈاکٹر خالدہ غوث، ڈاکٹر جعفر احمد، ڈاکٹر عطا الرحمن اور ڈاکٹر مجاہد منصوری؛ ان دس دانشوروں کو مل کر میری مذکورہ بالا تجویز کی حمایت میں صدر مملکت ممنون حسین اور سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کو خط لکھنا چاہئے تاکہ ہم یہ ثابت کر سکیں کہ اگر ہم خود اپنے ماضی کا کھوج نہیں لگا سکتے تو کم از کم یہ کارنامہ سرانجام کر دینے والے کو بعد از مرگ خراج عقیدت تو پیش کر سکتے ہیں۔ ''بعد از مرگ‘‘ کے الفاظ کا استعمال غالباً مناسب نہیں۔ Bridget اُس وقت تک زندہ رہیں گی‘ جب تک ان کی عالمانہ کتابیں دُنیا کی ہر اچھی لائبریری کی زینت بنی رہیں گی اور اُن کی تحقیق ذہنوں کو منور کرتی رہے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ زندہ جاوید ہیں۔ بریجیٹ اس لحاظ سے خوش نصیب تھیں کہ اُن کا رفیق حیات اُن کا رفیقِ کار بھی تھا۔ اُنہوں نے پاکستان میں آثار قدیمہ کی کھدائی کا کام مل کر شروع کیا۔ قیام پاکستان کے صرف سات سالوں کے اندر اور وہ بھی سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ پاکستان اور بھارت کا سرحدی علاقہ ہے اور صحرائے تھر کا کُل رقبہ برطانیہ سے بڑا ہے۔ 1969ء اور 1976ء کے درمیانی عرصہ میں اُن کی تحقیقی کھدائی اس نتیجہ پر پہنچی کہ گرچہ یہ علاقہ Palaeolithic ہے (جو پتھر کے دور سے 25 لاکھ سال تک‘ آخری برفانی دور کے خاتمہ تک چلا) مگر تھر کا علاقہ ریگستانی اور پانی سے محروم تھا اس کے باوجود وہاں لوگ بڑی اچھی زراعت کرتے تھے اور خوشحال تھے۔ اُنہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ زرعی دور آنے سے پہلے تھر کے لوگ شکار کے لئے جو پتھر سے تراشے گئے ہتھیار استعمال کرتے تھے‘ وہی وادیٔ سندھ کی شہری آبادیوں میں رہنے والے پڑھے لکھے لوگوں کے بھی کام آئے۔ تھر کے بعد بریجیٹ اور اُن کے ساتھیوں نے پاکستان میں Soan Valleyاور Pabbi Hills (آپ بتائیں کہ یہ دونوں علاقے کہاں ہیں؟) پر توجہ دی۔ 1981ء اور 1999ء کے درمیان۔ خوشی کا مقام ہے کہ حکومتِ پاکستان کے دو محکموں Geological Survey ا ور Archaeology نے بھی اُن سے بھرپور تعاون کیا۔ کھدائی کے دوران اس ٹیم کو 1983ء میں راولپنڈی کے قریب پہاڑیوں میں بیس لاکھ سال پرانا سنگریزہ ملا۔ جس سے یہ پتا چلا کہ افریقہ سے ایشیا تک انسانی ہجرت کے بارے میں پہلا اندازہ غلط تھا اور وہ ایک لاکھ نہیں بلکہ دو لاکھ سال پرُانی نکلی۔ موصوفہ نے افغانستان سے لے کر سری لنکا کی قدیم تاریخ پر کمال کی کتابیں لکھیں (افسوس کہ کالم نگار نے نہ دیکھی ہیں اور نہ پڑھی ہیں) اُن کی شائع شدہ کتابوں کی فہرست پڑھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک کتاب ضرور خریدوں اور توجہ سے پڑھوں۔ اُس کا نام ہے: ہندوستان اور پاکستان میں تہذیب و تمدن کا عروج (یہ 1987ء میں شائع ہوئی)۔ بریجیٹ اور اُن کے ہم پلہ شوہر نہ صرف برصغیر ہندو پاک بلکہ افغانستان اور ایران کی قدیم تاریخ پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔
آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی‘ اس محقق اور عالم فاضل کو اپنی ساتھ وابستہ کرنا چاہتی تھی اور اُسے Fellow کا درجہ دے دیتی تھی۔ یہ سب سے بڑا اعزاز ہے جو کسی بھی عالم یا عالمہ کو دیا جا سکتا ہے۔ بریجیٹ کیمبرج یونیورسٹی کے Wolfson College کی پچاس برس Fellow رہیں اُنہوں نے اپنے ذاتی گھر کو ایک عالمی شہرت کے تحقیقی ادارہ میں تبدیل کر دیا۔ مطالعہ کے کمرے کا تو ذکر ہی کیا۔ بیٹھنے‘ سونے اور کھانے کے کمرے بھی اس طرح کتابوں سے اَٹے ہوئے تھے کہ دیواروں پر لگے پھولدار کاغذوں کے نقش و نگار نظر نہ آتے تھے۔ ساری دُنیا سے ماہرین لسانیات، آثار قدیمہ کے ماہرین، مورخین، سفارت کار، طلباء و طالبات کا ایک نہ ختم ہونے والا جم غفیر تھا‘ جو اُن کے مشوروں اور ہدایات سے فیض یاب ہونے اور اس وادیٔ پرُ خار میں ننگے پائوں اُترنے کے خطرات سے آگاہ ہونے ہر روز اُن کے گھر آتا رہتا تھا۔ اُن کے منہ سے گرنے والے موتیوں کو چُنتا تھا اور اُن کی مہمان نوازی سے فیض یاب ہوتا تھا۔ 17 سال ہوئے کہ بریجیٹ کو بیوگی کا عظیم صدمہ سہنا پڑا۔ جب اُن کے گھر سے قبرستان کا سفر شروع ہوا تو نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپ کے علمی اداروں میں برصغیر ہند و پاک کے ماہرین کے علاوہ اُن کا بیٹا اور بیٹی، دو پوتے اور ایک پوتی سیاہ لباس پہنے سرجھکائے اُن کی تابوت کے پیچھے چلے۔ آئیے دعا مانگیں کہ خداوند تعالیٰ ہمیں علم و تحقیق کے معاملہ میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔

بریجیٹ کیمبرج یونیورسٹی کے Wolfson College کی پچاس برس Fellow رہیں اُنہوں نے اپنے ذاتی گھر کو ایک عالمی شہرت کے تحقیقی ادارہ میں تبدیل کر دیا۔ مطالعہ کے کمرے کا تو ذکر ہی کیا۔ بیٹھنے‘ سونے اور کھانے کے کمرے بھی اس طرح کتابوں سے اَٹے ہوئے تھے کہ دیواروں پر لگے پھولدار کاغذوں کے نقش و نگار نظر نہ آتے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں