جادو اور جادو نگری

معافی چاہتا ہوں کہ آج میرے بوڑھے دماغ میں کسی فلمی گانے کا پہلا مصرع بار بار گونج رہا ہے ،وہی میرے آج کے کالم کا عنوان بنا۔ بڑی سُریلی آواز میں گایا ہوا گیت۔ گلوکارہ کون تھی؟ وہ آپ جھٹ سے جان لیں گے۔ لتا جی، شمشاد بیگم یا آشا بھوسلے؟ میرا محدود علم تو ان تین ناموں پر ختم ہو جاتا ہے۔ اب آپ گیت کا پہلا مصرع پڑھیے گا۔ جس نے یہ گیت لہک لہک کر گایاجو پڑھتے ہی آپ کے دل و دماغ میں اُس گلوکارہ کی آواز بجلی کی طرح چمک اُٹھے گی۔ بقول غالب شعلہ کی لپک کی طرح ۔ ع
جادو نگری سے آیا ہے کوئی جادوگر
بچپن کے دنوں میں آپ خوابوں کی دُنیا میں رہتے ہیں۔ فرضی ،غیر حقیقی اور غیر مرئی چیزوں کی طرح آپ جادو پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس یقین کا مطلب ہے کہ آپ منطقی طور پر یہ بھی مانتے ہیں کہ جادو کے پرُ اسرار علم کو جاننے والا جادو گر بھی ضرور کہیں نہ کہیں رہتا ہوگا۔ اگر آپ اس مفروضہ کو (بدقسمتی سے) سچ سمجھ لیں تو پھر آپ کو یہ مان لینے میں زیادہ مشکل نہیں آنی چاہئے کہ مذکورہ بالا تعارف کا مالک جادوگر جہاں رہتا ہوگا اُسے بجا طور پر جادونگری کہا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کا بچگانہ اورغیر پختہ اور توہماتی ذہن آپ کو یہاں تک لے آیا تو پھر یہ اعلان کرنے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا کہ جو شخص آپ کا محبوب ہے (غالباً کوئی نہ کوئی تو ہوگا) وہ دراصل ایک جادوگر ہے جو جادو نگری سے صرف آپ کو ملنے ،یعنی آپ کو شربت دیدار پلانے آیا ہے۔ اگر آپ مزید تفصیلات جان لینے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو پھر وہ سارا گانا خود سُنیں اور اپنے علم میں اضافہ کریں اور بے چارے کالم نگار کی معذرت قبول فرمائیں۔
سچ جانیے کہ یہ ہمیشہ کالم آورد کی بجائے آمد کے تحت لکھا جاتا ہے۔ بالکل فی البدیہہ۔ جو کچھ سوچتا ہوں۔ وہ حرف بحرف لکھ دیتا ہوں۔ رات کو کم اور دن میں زیادہ خواب دیکھتا ہوں۔ اقبال ہوتا تو من کی دُنیا میں ڈوب کر سُراغِ زندگی پا جاتا۔ ظاہر ہے کہ میں اُن کی طرح یہ رُوحانی درجہ طے نہ کر سکا۔ میرے خوابوں میں کیا کچھ دکھائی اور سنائی دیتا ہے؟ جھیلیں اور اُن میں تیرتے کنول۔ طرح طرح کی موسیقی۔ صندل کے درختوں کے اُفق تک پھیلے ہوئے جنگل اور اُن میں نغمہ سرا پرندے۔مدہم سروں پر ناچتی پریاں۔ قوسِ قزح کے رنگوں سے بھرا آسمان۔ خوابوں کے آسمان سے زمین پر اُتروں تو پاک سرزمین نظر آتی ہے اورخوابوں میں وہاں انصاف اور مساوات۔ امن وامان۔ خوشی اور خوشحالی۔ قوتِ اخوت ِعوام کے ستونوں پرکھڑا ہوا پاک سرزمین کا نظام۔ قومی ترانے کا ایک ایک لفظ اور اُس کی کمال کی ولولہ انگیز دُھن۔ یہی میرے خوابوں کی معراج ہے اور یقینا آپ کی بھی ہوگی۔
21 اکتوبرکا برطانوی ہفت روزہ اکونومسٹ The Economist پڑھتے پڑھتے۔بھارت کے جنوبی راجستھان کے ایک گائوں میں رہنے والی بدنصیب اور ستم زدہ خاتون کی دُکھ بھری داستان پڑھ کر میرا سر شرم سے جھک گیا اور اچھی بات یہ ہے کہ رام کنیا سین ابھی زندہ ہے۔ تین ہفتوں تک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں قید رہنے کے باوجود۔ اگر عوامی خدمت کرنے والے رضا کار اُسے قید سے رہائی دلا کر ہسپتال پہنچانے میں ایک دو دن کی دیر بھی کر دیتے تو وہ زندگی سے رہائی حاصل کر لیتی۔ڈاکٹروں نے اُسے طرح طرح کے جتن کر کے مرنے سے بچا لیا۔ اُس کے اوسان ابھی تک بحال نہیں مگر وہ کم از کم محفوظ تو ہو گئی۔ بھارتی پولیس کے قابل اعتبار ذرائع کے مطابق سارے بھارت میں ہر سال ڈیڑھ سو سے زائد عورتوں کا رام کنیا سین سے بھی زیادہ برُا حشر ہوا اور ظالمانہ تشدد نے اُن کی جان لے لی۔ راجستھان میں چڑیل کو ڈائن کہتے ہیں۔ جب اُن کی بستی میں رہنے والوں کی بڑی تعداد کسی بھی عورت کو ڈائن ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دے تو اُسے بپھرا اور غیظ و غضب سے مغلوب ہوا ہجوم زندہ جلا دیتا ہے۔ ستم بالائے ستم کہ اِس نیک کام میں اس خاتون کے رشتہ دار بھی اہل محلہ کا ہاتھ بٹانا اپنا اخلاقی اور سماجی فرض سمجھتے ہیں۔ غالب نے کہا تھا ۔
مجھے کیا برُا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
راجستھا ن میں جلا کر راکھ کر دیئے جانے والی یا ٹکڑے ٹکڑے کر دی جانے والی بے گناہ خواتین بھی اسی قسم کی بات سوچتی ہوں گی کہ کاش اُن کی جان صرف اپنی جان دے دینے پر چھوٹ جاتی۔ جس خاتون کو عوامی عدالت ڈائن بنا دیتی ہے اُسے قتل کر دیئے جانے سے پہلے برہنہ کیا جاتا ہے اُس کے جسم پر گندگی ملی جاتی ہے۔ بالوں سے پکڑ کر گلیوں بازاروں میں گھسیٹا جاتا ہے اور سب سے بڑا ظلم یہ کہ اُسے غلاظت کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جنوبی راجستھان کے ایک شہر پھلوارہ سے 80 میل دُور گائوں میں رہنے والی کنیا دیوی پر دو اگست کے دن یہ ساری آفتیں آئیں ۔ 60 سال کی عمر اور دو بچوں کی ماں کی آنکھوں کودہکتے کوئلوں سے جلا کر بھسم کر دیا گیا۔ وہ مر گئی تو یہ عذاب ختم ہوا۔
اس علاقہ میں ایک سماجی تنظیم دیہی عورتوں کو ڈائن بنا دیئے جانے کی کارروائی اور بعد میں کئے جانے والے ناقابل تصور ظلم و تشدد سے بچاتی ہے۔ اس کی سربراہ خاتون (Tara Ahluwalia) کے مطابق اُس علاقہ میں 20 لاکھ کی آبادی میں 20 برسوں کے دوران کل 86 خواتین پر ڈائن ہونے کا الزام لگا کر سزا دی گئی۔ وہ لڑکی جسے شادی سے پہلے ڈائن بنا دیا جائے اُس سے بھلا کوئی کون پاگل شادی کرے گا۔ اب تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ وہ لوگ جو کسی رشتہ دار بیوہ خاتون کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں وہ اُسے ڈائن مشہور کر کے راستہ سے ہٹا دیتے ہیں۔
اُچھوت ( Dalit) ذات سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ڈائن بنا دینا زیادہ آسان ہوتا ہے چونکہ وہ پہلے ہی اُفتادگان خاک میں شامل ہوتی ہیں۔ رام کنیا سین کا شوہر پیشہ کے لحاظ سے حجام ہے یعنی محنت کش ۔جسے پنجاب کی زبان میں کمیّ کہتے ہیں ۔ اس خاتون پر ڈھائے جانے والے مظالم کا دروازہ یوں کھلا کہچ اُس گائوں میں رہنے والی جاٹ گھرانے کی سولہ سالہ لڑکی پوجا کے پیٹ میں درد اُٹھا۔ اُس کے والدین اُسے ایک جعلی عامل کے پاس لے گئے۔ اُس نے کہا کہ پوجا پر کسی نے جادو کر دیا ہے۔ تفتیش سے پتہ چلا کہ رام کنیا اِس بچی کے سکول کے قریب اپنے گھر کے باہر دہلیز پر بیٹھی اور عجیب حرکات کرتی نظر آتی تھی۔ ہو نہ ہو یہ شرارت اسی کی ہے۔
بھارت کی جن ریاستوں میں (اندھرا پردیش۔ جھاڑ کھنڈ۔ مدہیہ پردیش اور اوڑیسہ ) کے دیہاتی علاقوں (جہاں شرح تعلیم سب سے کم ہے) میں خواتین پر ڈائن کا الزام لگا کر قتل کر دینے کی وارداتوں کے ارتکاب کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ وہاں کی حکومت نے اس مذموم ترین رسم کو جرم قرار دے کر مجرموں کو سخت سزا دینے کے لئے قانون سازی کی ہے۔ (جس کے مطابق مجرم افراد سے لے کر مجرموں کی ساری بستی کو سزا دی جا سکتی ہے۔) مگر دُوسرے قوانین کی طرح یہ بھی محض کاغذی کارروائی ہے۔ ابھی تک ایک بھی ملزم کو نہ پولیس نے گرفتار کیا اور نہ عدالت نے سزا دی۔ توہم پرستی کے بھڑکتے ہوئے الائو کو سرکاری ابابیلوں کی چونچوں میں اٹکے ہوئے (قوانین کی صورت میں) پانی کے چند قطرے نہیں بجا سکتے۔ رام کنیا سین پر اُن کی بستی کے لوگ قہر بن کر ٹوٹ پڑے اور اُنہیں جان سے مارنے لگے تو اُن کے تین بیٹوں نے اُس بستی کے لوگوں کو یہ یقین دہانی کرا کے اپنی ماں کی جان بچائی کہ وہ اُسے یا تو ہمیشہ کے لئے قید کر کے لوگوں کی نظروں سے ہمیشہ کے لئے دُور کر دیں گے یا اُنہیں کسی دور دراز ویرانہ میں بھیج دیں گے۔ جب اکانومسٹ کے نامہ نگار نے اس خاتون سے پوچھا کہ اب وہ کیا کریں گی؟تو جواب ملا کچھ بھی نہیں۔ میں ساری عمر یہاں رہوں گی۔ میرا اور کوئی گھر بار نہیں۔جائوں تو جائوں کہاں؟ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں