جادو اور جادونگری …(2)

میں نے ساٹھ سال پہلے زمانہ طالب علمی میں جادو کا لفظ بطور نام دوبارہ پڑھا اور تیسری بار ابھی تک نہیں۔ پہلی بار صفیہ بانو کے زیر لب کے عنوان سے اپنے خاوند اور مشہور شاعر (جاں نثار اختر) کے نام لکھے گئے آنکھوں میں آنسو لے آنے والے خطوط کے مجموعے میں پڑھا تھا۔ اُن کا ایک ہی بچہ تھا۔ نام تھا‘ جاوید اختر جسے وہ پیار سے جادو کہتی تھیں۔ یہ بچہ بڑا ہوا تو خود شاعر بنا اور کمال کی اداکارہ شبانہ اعظمی (کیفی اعظمی کی بیٹی) کا شوہر۔ صفیہ (جو خود بھی ایک بڑے ادیب کی بیٹی تھیں) کے خطوط کا مجموعہ ایک عرصہ تک اُردو ادب کے نصاب کا حصہ رہا۔ کچھ عجب نہیں کہ اب بھی ہو۔ یہ نصاب کا حصہ ہو نہ ہو‘ اگر آپ اُردو ادب کے مطالعہ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ شاہکار کتاب پڑھنے کے لئے جلد از جلد وقت نکالیں۔ صرف ایک شام کافی ہو گی۔ دُوسری بار میں نے جادو بطور نام یوں پڑھا کہ اُردو ادب کی تاریخ میں سر جادو ناتھ سرکار کا نام آتا ہے۔ میں بھول گیا کہ اُن کے کارنامے کون کون سے ہیں۔
ہندوستان میں رہنے والے کروڑوں لوگ اتنے ہزار سالوں سے جادو‘ جادوگر‘ جادو نگری‘ چڑیل‘ ڈائن (پنجاب میں پچھلے پیروں والی) جنات‘ سفلی علم اور ان سے جڑے ہوئے توہمات پر صدق دل سے یقین کرتے آئے ہیں۔ آج بھی ہر سال ہزاروں واقعات منظر عام پر آتے ہیں کہ ایک خاتون (خصوصاً دیہاتی علاقوں میں اور وہ بھی نوجوان) ذہنی مریضہ بنی تو اہل خانہ نے سمجھا (یا اُنہیں سمجھایا گیا) کہ اُس پر کسی جن یا بدرُوح کا سایہ ہے۔ اس جن کو نکالنے کے لئے کسی جعلی پیر کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو جن کو نکالنے کے لئے اس معصوم بچی پر بے پناہ جسمانی تشدد کرتا ہے۔ جن نکلے یا نہ نکلے اُس مریضہ کی جان ضرور نکل جاتی ہے۔ اہل خانہ سکھ کا سانس لیتے ہیں کہ مسئلہ حل ہو گیا۔ آج بھی لاکھوں بچوں کو بدرُوحوں سے محفوظ رکھنے کے لئے تعویذ باندھے جاتے ہیں۔ پیشانیوں پر سیاہ دھبے لگائے جاتے ہیں۔ ہم آج بھی ہم نظرِ بد کے تباہ کن اثرات سے ڈرتے ہیں۔ آج بھی ہمارے بڑے اخباروں میں اُن لوگوں کے اشتہار شائع ہوتے ہیں‘ جو یہ ایٹمی راز جانتے ہیں کہ آپ کے دُشمنوں کی (بذریعہ سفلی علم) کارروائیوں کو کس طرح ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ بین سطور آپ کو یہ خوش خبری بھی سنائی جاتی ہے کہ اگر آپ مناسب فیس ادا کریں تو روحانی قوتوں کا مالک اپنے عملے میں شامل (فل ٹائم یا پارٹ ٹائم) جنات کی خدمات سے فائدہ اُٹھا کر آپ کے دُشمنوں کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پھر آپ کا دُشمن مارا مار ا پھرے گا تاکہ آپ کے پیر کی طرف سے کئے گئے سفلی علم کی کاٹ کا بندوبست کرے۔ جس شخص کا پیر زیادہ رُوحانی علم رکھتا ہو گا۔ جس پیر کے قبضہ میں زیادہ جنات ہوں گے۔ جو جنات اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے زیادہ تگڑے ہوں گے۔ وہ شخص اس رزم آرائی میں جیت جائے گا۔ غالباً یہ مرحلہ آنے تک وہ وقتاً فوقتاً ہدیہ پیش کرتے کرتے دیوالیہ ہو چکا ہو گا۔ کالم کی جگہ محدود ہے۔ زیادہ مثالیں نہیں دی جا سکتیں۔ صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں۔ مشرقی لندن میں سالہا سال سے میرا ایک گھرانے سے بڑا قریبی تعلق ہے‘ جو برطانیہ آنے سے پہلے گوجرانوالہ میں دُکانداری کرتا تھا۔ دو بھائیوں کے نام ہیں شعیب اور زبیر اشرف۔ شعیب کو اُس کے اہل خانہ کی طرح میں بھی مومن کے نام سے پکارتا تھا۔ یہاں وہ بے روزگار ہوا اور پھر شدید بیمارہو کر چل بسا۔ میں فاتحہ خوانی کے لئے گیا (اور کئی بار گیا)۔ مومن کی نوجوان اور پڑھی لکھی بیوی نے ایک ہی بات دُہرائی۔ اس گھرانے کے دُشمنوں نے گوجرانوالہ میں کسی پیر کی خدمات حاصل کرکے (چھ ہزار میل کے فاصلہ پر اثر کرنے والا) ایسا زہریلا تیر چلایا کہ پہلے مومن کا روزگار بند ہوا اور پھر اُس کا تنفس (یعنی سانس لینا)۔ مومن کے غم زدہ پس ماندگان کو یہ راز بھی گوجرانوالہ میں کسی اور پیر نے بتایا۔ ورنہ وہ جادو اور سفلی علم کے طویل فاصلہ (Long Distance) پر اثر کرنے والی اور مہلک نتائج برآمد کرنے والی کارروائی سے بے خبر رہتے اور جوانی کے عالم میں پہلے بیروزگاری پھر طویل اور مہلک بیماری اور پھر المناک وفات کا راز کبھی نہ کھلتا۔ یہ تو تھی وہم کی بات۔ سچائی یہ ہے کہ برطانیہ میں ڈاکٹروں نے بہترین علاج کیا مگر وہ مومن کو Hepatitis C کے مہلک حملے سے بچا نہ سکے۔ 
جہالت اور توہمات کی صدیوں پرانی‘ مستحکم اور پائیدار دیواریں چاہے کتنی بھی اُونچی ہوں وہ عقل‘ شعوروآگہی اور سوجھ بوجھ کے سورج کی روشنی کو صحن تک پہنچنے سے نہیں روک سکتیں۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے آسانی سے سمجھ میں آ جانے والا سبق ہے‘ مگر آفرین ہے میری قوم پر کہ وہ اس کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
بت کا مفہوم صرف پتھر سے تراشے ہوئے انسانی مجسمے تک محدود نہیں‘ جس کی پرستش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اقبالؔ نے بُتانِ عصر حاضر کی ترکیب استعمال کی۔ توہمات بھی بت پرستی کے زمرے میں آتی ہیں۔ کالم نگار امریکہ اور یوروپ کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو اُس کی ڈھارس بندھتی ہے۔ یہ لوگ بھی عرصہ دراز تک جادو‘ جنات اور چڑیلوں پر دل و دماغ کی گہرائیوں سے پورا اعتقاد اور اعتبار کرتے تھے۔ 1692ء کا ذکر ہے جب ایک امریکی بستی (Salems) میں بہت سی خواتین پر برُی روحوں سے راہ و رسم رکھنے (اور اس لحاظ سے چڑیل بن جانے) کے الزام پر عوامی عدالت میں مقدمہ چلا۔ 20 خواتین (اور اُن کے دو کتوں) کو سزائے موت دی گئی۔ اُن کی لاشوں کی بے حرمتی کرنے کے لئے اُن کو جلایا گیا تاکہ اُن کی راکھ ہوا میں اُڑا دی جائے۔ کالم نگار کو یہ مان لینا چاہئے کہ اُس نے مذکورہ بالا واقعہ امریکی تاریخ کی کتاب کی بجائے امریکی ادب میں ایک کمال کے ڈرامہ کے پلاٹ ہونے کی وجہ سے پڑھا۔ ڈرامہ نویس نے Arthure Miller اور ڈرامہ کا نام تھا: Crucibles پہلی بار میں نے یہ ڈرامہ 45 سال پہلے اُس کالج کی سٹیج پر دیکھا جہاں میں پڑھاتا تھا۔ 
اہل امریکہ کی کاروباری صلاحیت قابل داد ہے کہ مذکورہ بالا بستی کے لوگوں نے مل کر وہاں اس دل ہلا دینے والے المیہ کو بطور نمائش پیش کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ یہ کام 1982ء میں شروع ہوا اور چند سو لوگوں نے نمائش بڑے ذوق و شوق سے دیکھی۔ یہ کام بڑھتے بڑھتے یہاں تک جا پہنچا ہے کہ صرف ایک ماہ جاری رہنے والی نمائش کو پانچ لاکھ سیاحوں نے دیکھا۔ 800 افراد کو روزگار ملا اور 104 ملین ڈالر (ملین کا مطلب ہے دس لاکھ اور ہر ڈالر میں تقریباً سو روپے) آمدنی ہوئی۔ اہل امریکہ اور خصوصاً اس پر چھائے ہوئے اور ارب پتی یہودی سرمایہ کار پہلے آپ کو مہنگے داموں آم کھلاتے ہیں اور پھر گٹھلیوں کے دام بھی وصول کرتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں معمول کے مطابق آکسفورڈ کی شائع کردہ اُردو انگریزی لغت سے رُجوع نہ کروں؟ صفحہ نمبر406 پر جادو کا انگریزی میں یعنی سات الفاظ کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ تین الفاظ سے میں خوش نہیں (وہ اچھے ترجمہ کے معیار پر پورا نہیں اُترتے) باقی چار آپ پڑھ لیں۔ Spell/ Sorcery/ Charm/ Magic تیسری سطر پڑھ کر میری رہی سہی خوشی بھی جاتی رہی۔ لکھا تھا ''جادو برحق کرنے والا کافر‘‘۔ باقی سطور پڑھیں تو وہاں اچھے مقرر کے لئے جادو بیاں کا اسم صفت لکھا گیا تھا۔ ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں بہترین خطابت کرنے والے کو جادو بیان کہا جاتا تھا۔ قبل از مسیح دور کو دیکھیں تو یہ اعزاز یونان کے خطیب Demosthenes کو حاصل ہوا۔ مذکورہ بالا لغت کا بیانیہ اس مقولہ پر ختم ہوا: ''جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘‘ لغت کے مولفین نے اس کی یہ تشریح کی کہ وُہی منصوبہ اچھا سمجھا جاتا ہے جو کامیاب ہو جائے۔ اتنا کامیاب کہ مخالف بھی عش عش کر اُٹھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جادوئی عمل کو اپنی سچائی منوانے کے لئے کامیابی حاصل کرنا پڑتی ہے۔ ناکام جادو گر کی ناکامی یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ جادو کرنے کے عمل میں اناڑی ہے یا بالکل ہی نالائق اور جعلی۔ ادبی زبان میں جادو کو طلسم لکھا جاتا ہے (لغت کے صفحہ 774 کے مطابق) کالم نگار اپنے قارئین کا شکریہ ادا کرتا ہیُ جو راجستھان سے میرے ساتھ سفر کرتے کرتے امریکہ تک گئے۔ صرف یہی نہیں انہوں نے میری رفاقت میں لغت کا مطالعہ بھی کیا۔ جاگتی آنکھوں کے ساتھ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں