ایک افسانوی خاتون سے ملاقات

اس کالم نگار کی مسلسل کوشش ہوتی ہے کہ وہ (اپنی خواہش پر غالب آکر) لندن میں شام کو ہونے والی ان گنت سماجی تقریبات میں شریک نہ ہو۔ وجوہات ایک سے زیادہ ہیں۔ ایک وکیل شام کو مقدمہ کی تیاری نہ کرے تو اگلے دن عدالت میں اُس کی کارکردگی برُی طرح متاثرہوگی۔ گھر سے باہر شام کا وقت گزار نے کا مطلب ہے‘وقت کا ضیاع۔لکھنے پڑھنے کے کام میں خلل۔ آزمائش اور تھکن۔ کار پارک کرنے کی سہولت کا فقدان۔ اہل خانہ کے ساتھ شام گزارنے کی ترجیح۔ کئی سال قبل میری بیوی نے شام کو میرے ساتھ سماجی تقریبات میں جانے سے مستقل معذرت کر لی تھی (شام کی دو نمازوں کی ادائیگی میں خلل پیدا ہو جانے کی وجہ سے)۔ بڑی عمر کے دو بچے ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ فیصل طبعاً مردم بیزار ہے۔ عائشہ شام کو اپنے سکول میں پڑھاتی ہے۔ جو بچے ہمارے ساتھ نہیں رہتے میں اُنہیں اپنی رفاقت پر آمادہ کرنے کے لئے فون کرتا ہوں تو ان کی مصروفیات آڑے آتی ہیں یا وہ کوئی اتنا اچھا بہانہ بناتے ہیں کہ میری دل آزاری نہیں ہوتی مگر میں ایک بار پھر سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ اکیلا جائوں یانہ جائوں؟
مذکورہ بالا تحفظات کے باوجود میں 16 نومبرکی شام کو وسطی لندن میں ہونے والی تقریبات میں شریک ہوا۔ ڈنر کا اہتمام جس عمارت میں کیا گیا تھا‘ اس کا نام Skinners Hall تھا جو 1670 میں تعمیر کیا گیا۔ لندن میں لگنے والی آگ کی واردات سے چار سال بعد (G اور F کو بڑے حروف میں لکھا جاتا ہے یعنی Great Fire ) ۔ ہال کی کمال کی اندرونی زیبائش۔ لاکھوں کروڑوں پائونڈوں کی مالیت کی تصاویر۔ بیش قیمت فرنیچر۔ میں نے کافی وقت ہال کی سیر کرنے اور اُس کے درو دیوارکو جی بھر کر دیکھنے پر صرف کیا۔ ہر شے کمال کی تھی۔ میرے لئے ممکن نہیں کہ میں ہال کی بے مثال شان و شوکت کا اتنا اچھا نقشہ کھینچ دوں کہ میرے قارئین کو یوں لگے کہ وہ ہال کی سیر میرے ساتھ کر رہے ہیں۔ اتنا اچھا لکھاری ہونے کے لئے نام کے آخر میں آزاد کا ہونا ضروری ہے۔ (جیسے محمد حسین آزاد یا ابوالکلام آزاد) اگریہ ممکن ہو تو آپ مختار مسعود۔ دائود راہبر۔ مشتاق احمد یوسفی۔ ابن انشائ۔ جمیل احمد دہلوی۔ چراغ حسن حسرت۔ عبدالمجید سالک یا احمد ندیم قاسمی کے درجہ کی نثر نگاری کا خواب دیکھنے پر قناعت کریں۔ مذکورہ بالا نثر نگار لفظوں میں تصویر کھینچ دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ (یوسفی صاحب بفضل تعالیٰ زندہ ہیں اور اب بھی کر سکتے ہیں)۔ اس کالم نگار کی معذرت قبول فرمائیں۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے یا سنتا ہے اُس کی طرف صرف اشارہ کر سکتاہے مگر اسے فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنی اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا جس طرح اچھے لکھاری۔ فارسی زبان کا ایک مقولہ ہے۔ گندم نہ ملے تو پھر بھُس (پنجابی میں توڑی) پر گزارا کریں اورصبر و شکر کا مظاہرہ بھی۔
اب آیئے اس کمال کے ہال کی طرف واپس چلیں جس کا نظم و نسق محافظوں اور دربانوں کی Ceremonial وردی بنانے والی اُن بارہ کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ جو سات سو سال سے اس دشت کی سیاحی کر رہی ہیں۔ غالب نے اپنا تعارف یوں کرایا تھا۔ ؎ 
سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری
اس ہال کا بندوبست کرنے والی کمپنی بھی بجا طور پر یہی دعویٰ کر سکتی ہے۔ 
آدھا کالم لکھا جا چکا تھا کہ خیال آیا کہ اُس خاتون کا ذکر تو ابھی تک کیا نہیں گیا ۔ جو اس ہال میں ہونے والے بے حد شاندار ڈنر پر ملیں۔ اب آیئے آپ کا ان سے تعارف کرایا جائے۔ نام ہے Jane Goodall ۔ عمر83 برس۔ اُنہوں نے ساری عمر جنگلوں میں رہنے والوں جانوروں (خصوصاًChimpanze ) پر تحقیق کی۔ اتنے کمال کی کتابیں لکھیں کہ مصنفہ پر اس وقت 40 فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔ انگریزی زبان میں موصوفہ کوrimatologist P کہا جاتا ہے۔ انجیلینا جولی کی طرح ہالی ووڈ کے چوٹی کے اداکار اُن کے پرجوش مداحوں کی لمبی فہرست میں شامل ہیں۔ بلکہ سر فہرست ہیں مائیکل جیکسن سے عالمی شہرت کے گلوکار نے اپنا ایک گیت (Heal the World ) اُن کے اعزاز میں لکھا اور گایا۔ باقی لوگوں کی طرح میرا پہلا سوال بھی یہ تھا کہ وہ ننگے پائوں (خاتون ہونے کے باوصف) جنگلوں میں مارے مارے پھر کر جانوروں کے ساتھ کئی کئی سال رہنے اور بڑے تحمل (اور یقینا بہادری) سے ان کی عادات کا مطالعہ کے خار زار میں کیوں اور کس طرح اُتریں؟ جواب سیدھا سادا تھا۔ ''میں نے بچپن میں ٹارزن کی جنگلوں میں مہمات کے بارے میں ساری کہانیاں پڑھیں تو ٹارزن کے فرضی کردار پر دل و جان سے عاشق ہو گئی۔ میری طرح جن لوگوں نے بچپن میں ٹارزن کی کہانیاں پڑھی ہیں یا اُس پر بنی ہوئی فلمیں دیکھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ کہانیوں میں فرضی ٹارزن نے جس فرضی خاتون کو اپنی بیوی بنایا اُس کا نام جین (Jane)تھا۔ حسن اتفاق سے ممدوح خاتون کا نام بھی جین ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگیں کہ ٹارزن کی بے خوفی اور بہادری اپنی جگہ مگر اُس کی بے وقوفی اور بدنصیبی کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اُس نے شادی کی بھی تو غلط Jane سے۔ کالم نگار نے ٹارزن کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ مصیبت یہ تھی کہ ٹارزن اور اُس کی بیوی دونوں فرضی تھے اور آپ کا وجود حقیقی ہے۔ فرضی ٹارزن اصل جین سے شادی کرتاتو کیونکر؟ سفید اور سنہری بالوں والی خاتون کے خوبصورت چہرے پر وہ دلکش مسکراہٹ اُبھری جو ادودھ کی شام کو بنارس کی صبح میں تبدیل کر سکتی ہے۔ ڈنر کا ٹکٹ پانچ ہزار روپے کے برابر پائونڈ خرچ کر کے میری طرح تین سو لوگوں نے خریدا۔ ظاہر ہے کہ مقصد مذکورہ بالا خاتون سے ملنا ،ان کے خیالات سے مستفید ہونا اور اُن کی بنائی ہوئی خیراتی تنظیم کو چندہ دینا تھا۔
برطانیہ میں1957 ء میں ایک بچی نے اسکول کی تعلیم ختم کی۔ دفتری ملازمت کے لئے ضروری عملی تربیت حاصل کی۔ کئی دنوں کے تذبذب پر قابو پا کر اُس نے دُنیا میں اپنے مضمون کے سب سے بڑے ماہر Dr. Louis Leakey کوفون کیا۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ۔ اس بچی نے زندگی میں نہ Biology پڑھی اور نہ Zoology ۔ مگر ستاروں پر کمند ڈالنے کے جنون میں آتش نمرود میں بے خطر کود پڑی۔ معجزہ یہ ہوا کہ Dr. Leakey اُسے اپنا مددگار بنانے پر تیار ہو گئے اور اُسے لنگوروں کے ساتھ سالہا سال گزارنے کے لئے مشرقی افریقہ بھیج دیا یہ کام ختم ہوا تو جنگلی حیات پر مزید تحقیق شروع ہوئی اور اس کام میں جین (Jane ) کی زندگی بیت گئی۔
آپ شہری ہوں یا دیہاتی۔ چار دیواری میں رہنے والوں کے لئے افریقی جنگل میں خیمہ لگا کر رہنے والے کو در پیش خطرات کا تصور کرنا ہرگز ممکن نہیں۔ ہر طرح کے طوفان، ناقابل برداشت سانپوں اور بچھوئوں کی بہتات۔ مردم خور جانوروں کی قربت اور نہ ختم ہونے والی تنہائی۔ جین نے پہلی بار دریافت کیا کہ لنگور ( Chimps ) انسانوں کی طرح اوزار بنا سکتے ہیں۔ انسانوں کی طرح وہ ایک مخصوص ذہن اور شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور انسانوں سے اس حد تک مماثلت رکھتے ہیں کہ اُن کے درمیان بھی خانہ جنگی (Civil War ) ہوتی ہے۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ جین کی تحقیق منظر عام پر آئی تو اُسے فوراً پذیرائی ملی نہ اُس پر داد تحسین کے پھول برسائے گئے۔ برطانوی اخباروں نے اُس کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا کہ سالوں پہلے رسالوں کے صفحہ اول پر اُس کی تصویر کی اشاعت کی وجہ اُس کی ٹانگوں کی خوبصورتی (یعنی محض جسمانی دلکشی) ہے۔ اب وُہی اخبارات اُسکی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ جین نے اپنی باقی ماندہ زندگی انسانی ماحول اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے وقف کر دی ہے۔ کالم نگا ر نے جین کو پنجاب میں چھائی ہوئی دُھند کے بارے میں بتایا تو اُنہوں نے کہا کہ میں اس کے بارے میں مکمل واقفیت رکھتی ہوں۔ اُنہوں نے پاکستان میں جنگلات کی گرتی ہوئی شرح، پانی کی مقدار میں کمی،پینے کے پانی میں زہر آلودگی۔ تیزابی دھند سے ہوا کی خرابی اور ماحولیات سے مجرمانہ غفلت پر شدید تشویش ظاہر کی۔ کتنا اچھا ہوکہ میرے یہ اہل وطن بھی اس تشویش میں اُن کے حصہ دار بن جائیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں