وزن اُٹھانے والا دُنیا سے اُٹھ گیا

نام تھا نعیم سلیمان۔ جو یوں لکھا جاتا تھا۔ Naim Suleyman۔ آبائی وطن جنوبی یورپ کا ملک بلغاریہ۔ وہاں کی کمیونسٹ حکومت کی نظر میں اتنا مشکوک اور مشتبہ تھا کہ وہ 1986 ء میں اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے آسٹریلیا گیا تو بلغاریہ کی خفیہ پولیس کے کارندے اُس کے پیچھے سایہ کی طرح لگے ہوئے تھے اور اُس کی 24 گھنٹے نگرانی کرتے تھے مگر نعیم سلیمان اُن کو دھوکہ دے کر بھاگ نکلنے میںکامیاب ہو گیا۔ وہ کس طرح؟نعیم ٹائلٹ میں جا چھپا اور کئی گھنٹے چھپا رہا۔ نعیم کو ترکی نے سیاسی پناہ دے دی اور اُس نے سرکاری حلقوںمیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کئی لاکھ افراد (جو نسلی اعتبار سے ترک تھے مگر رہتے بلغاریہ میں تھے) کی ترکی کی طرف نقل مکانی اور وہاں آباد کاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نعیم نے وزن اُٹھانے کے مقابلوں میں اتنی بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں کہ اُسے اس کھیل کے ماہرین کی کمیٹی نے بیسویں صدی کا سب سے بڑا ویٹ لفٹر قرار دیا۔ جب عالمی شہرت کی خبر رساں ایجنسی رائٹر ز نے 2017 میں اولمپک کھیلوں میں اعزاز حاصل کرنے والے چوٹی کے بارہ کھلاڑیوں کی فہرست مرتب کی تو اُس میں بھی نعیم سلیمان کا نام شامل تھا۔ ترک نسل کے نو لاکھ کے قریب وہ لوگ جو اشتراکی دورِ حکومت میں بلغاریہ میں رہتے تھے اُن کی 1980 کے عشرہ میں بڑی شامت آئی۔ ترک زبان بولنے والوں کے سکول اور مساجد بند کر دیئے گئے۔ اُن سے اپنی مادری زبان بولنے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ بلغاریہ کی حکومت نے یہ احمقانہ اور ظالمانہ روش اپنائی کہ ترک ثقافت کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ حکومت نے ترک نسل کے لوگوں کے لئے اس حد تک جینا دوبھر کر دیا اور وہ اپنا ترک نام بدل کر بلغاری رکھنے پر مجبور ہو گئے۔ نعیم سلیمان کی مرضی کے برخلاف اُس کا نام Naum Shalmanur رکھ دیا گیا۔ نعیم اتنا ناراض ہوا کہ اُس نے چوری چھپے ملک سے بھاگ نکلنے کا منصوبہ بنالیا۔ تیاری میں اُسے ایک سال لگا مگر وہ بڑی راز داری سے فرارکی تیاری کرتا رہا اور اپنے اہل خانہ کو بھی بے خبر رکھا۔ آسٹریلیامیں ہونے والی اولمپک کھیلوں میں سنہری تمغہ جیتنے کے بعد نعیم اپنے دوستوں کے ساتھ ریستوران میں کامیابی کا جشن منانے گیا۔ وہاں آسٹریلیا میں مقیم ایک ترک باشندے نے بلغاریہ کے سرکاری جاسوسوں کی نظر سے اوجھل ہو جانے میں اس کی مدد کی اور نعیم کی زندگی کا رُخ بدل گیا۔ اس وقت ترکی کے وزیراعظم (جو بعد ازاں صدر بنے) Turgut Ozal تھے۔ وہ اُسے ایک پرائیویٹ جہاز کے ذریعے استنبول اور انقرہ لے گئے۔ ترکی کی خفیہ ایجنسی کا نام MIT ہے۔ اُس کے کارندوں کی مکاری اور عیاری بلغاریہ کے سرکاری جاسوسوں پر غالب آئی اور اس کے نتیجہ میں نعیم کے شب و روز میں انقلابی تبدیلی آئی۔ نعیم نے آنے والے سالوں میں عالمی سطح پر کامیابی کے بہت سے جھنڈے گاڑے۔ وزن اُٹھانے کے یکے بعد دیگرے سب مقابلے جیتے۔ ترکی کے قائد Ozal نے اُس پر فلیٹ ، گارڈن اور نقدی کی صورت میںانعامات کی بارش کر دی ۔ نعیم ترکی کے باہر جہاں بھی جاتا تھا ترکی کی خفیہ ایجنسی کے کارندے اُس کی حفاظت اور نگہداشت کرتے تھے۔ اُس نے چار اولمپک مقابلوں (دوبارہ لکھتا ہوں 16 سالوں میں ہونے والے چار مقابلوں) میں چار بار گولڈ میڈل جیتے ۔ اُس نے 17 برس کی عمر میں دُنیامیں سب سے زیادہ وزن اُٹھانے کا ریکارڈ توڑ دیا۔ قد بمشکل پانچ فٹ تھا۔ 
ترکی حکومت بلغاریہ کی حکومت کی اجازت کے بغیر اسے اولمپک کھیلوں میں ترکی کی نمائندگی کے لئے بھیجنے کی مجاز نہ تھی۔ ترکی نے یہ اجازت دس لاکھ ڈالر دے کر حاصل کرلی۔ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں نعیم نے وزن اُٹھانے کے مقابلوں میں چھ عالمی ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اُس نے کل 342.5 کلو گرام وزن اُٹھایا۔ جو دُوسرے نمبر پر آنے والے سے 30 کلو گرام سے زیادہ تھا۔ جب نعیم ترکی واپس آیا تو اُس کے اعزاز میں ملک بھر میں ایک دن کی سرکاری تعطیل کی گئی۔ کھیلوں کے ایک پارک اور ایک سڑک کو نعیم سلیمان کا نام دیا گیا۔ ترکی کے اخباروں کا تو کیا ذکر کہ اُس کے کارنامے صفحہ اول پر شہ سرخیوں سے شائع کئے جاتے تھے۔ امریکہ کے ہفت روزہ ٹائم نے بھی اُسے اپنے صفحہ اول پر جگہ دی۔ امریکی صدر رانلڈ ریگن نے اُسے وائٹ ہائوس آنے اور اُن کے ساتھ مل کر جام صحت پینے کی دعوت دی۔ نعیم کی موقع شناسی اور سوجھ بوجھ کا آپ اس سے اندازہ کر لیں کہ اُس نے اس موقع سے پورا فائدہ اُٹھایا اور بلغاریہ میں زیر عتاب ترک نسل کے لوگوں کی حالت زار کو اتنے موثر انداز میں بیان کیا کہ اگلے آٹھ ماہ کے اندر بلغاریہ سے ترکی نسل کے تین لاکھ لوگوں کو ترکی نقل مکانی کرنے کی اجازت مل گئی۔ ہے نا کمال کی بات! ایکWeight Lifter امریکی صدر کا ایک آدھا گھنٹہ مہمان بنا اور اس کی قوم کے تین لاکھ لوگوں کو عقوبت سے رہائی مل گئی۔ اس سے بڑا ورلڈ ریکارڈ اور کیا ہو سکتا ہے۔ 
والد کا نام سلیمان اور والدہ کا نام Hatice ۔ دونوں کا قد پانچ فٹ سے کم۔ دو بھائی اور بھی تھے مگر والد (جو بس اور ٹرین ڈرائیور تھے) نے اُسے وزن اُٹھانے کی تربیت دلوانے کا فیصلہ کیا جو دس سال کی عمر سے شروع ہو گئی۔ پہلے پانچ سالوں میں دو گھنٹے روزانہ اور پندرہ سال کی عمر کے بعد آٹھ گھنٹے روزانہ۔ یہی وجہ ہے کہ 1989 ء میں ایتھنز میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں سب سے بڑا عالمی اعزاز حاصل کرنے کے بعد نعیم نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اُسے بچپن کی بے فکری سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں ملا۔ اُس نے گولڈ میڈل جیت لیا مگر بچپن کھو بیٹھا۔ اپنے والدین کے دبائو کے باوجود نعیم نے شادی نہ کی۔ شبینہ کلبوں میں طرح طرح کی خوبصورت خواتین کے ساتھ رقص کرنا اور بے حد وحساب شراب نوشی کرنا اُس کی دوسری بڑی مصروفیت تھی۔ نعیم کے ایک ہم راز کے مطابق وہ چار بیٹیوں کا باپ تھا۔ جن میں سے تین نے اُس کے جنازہ میں شرکت کی مگرچوتھی بیٹی نے جاپان سے ترکی سفر کرنے کی زحمت نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔حکومت بلغاریہ کے سرکاری وفد کے ساتھ اُس کی والدہ بھی سوگواروں میں شامل تھیں۔ کثرت شراب نوشی کی وجہ سے نعیم کا جگر چھلنی ہو گیا اور ڈاکٹر پوری کوشش کے باوجود اُسے فعال بنانے میں ناکام رہے۔ ہمارے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی طرح نعیم کا جگر جواب دے گیا( آپ جانتے ہیں کہ جگر اعضائے رئیسہ میں شامل ہے) نعیم آخری بار 2000 ء میں سڈنی کے اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے گیا مگر ناکام رہا۔ نہ اول نہ دوم نہ سوم۔ روتا ہوا گھر واپس آیا اور اگلے 17 برس میں بلا نوشی کی حد کر دی۔ حیرت ہے کہ وہ پھر بھی اتنے سال زندہ رہا۔ وہ شہ زور افراد جو ایک وقت میں بڑا بڑا بوجھ اُٹھا لیتے ہیں ایک دن تھوڑا بوجھ بھی نہیں اُٹھا سکتے۔ یہی قانون قدرت ہے۔ فارسی محاورہ کے مطابق ہر کمالے راز والے۔ مگر زوال کا مقابلہ ہمت اور بہادری سے کرنا چاہئے۔ نہ کہ شراب میں غرق ہو جانے سے۔ ایک دور کا ہیروآخر میں زیرو ہو گیا۔ عبرتناک انجا م۔ کالم نگار کی رائے میں جس طرح آخری دنوں میں نعیم سے وزن نہ اٹھایا جاسکا اسی طرح ہمارے سب سیاستدان بھی اب خدمت کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔ اُن کے بازو شل ہو گئے ہیں اور ذہن مفلوج ۔سوچنا تو دور کی بات ہے۔ وہ نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں۔ اب اُنہیں سول سوسائٹی کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے الزام تراشی کرنے۔ دھرنے دینے اورایک دُوسرے سے دست و گریبان ہونے سے حکومت چلتی ہے نہ عوامی خدمت ہوتی ہے۔ اقبال نے لکھا تھا: ؎ 
تماشا دکھا کے مداری گیا
مجھے لگتا ہے کہ اب کروڑوں پاکستانیوں پر 70 سال سے مسلط اور عوام کو زہریلا پانی پلانے والے مداریوں کے جانے کا وقت آگیا ہے۔ تماشا ختم ہونے کو ہے۔ پاکستان کو اب صرف قومی حکومت ہی بچا سکتی ہے۔ایک نئی قوسِ قزح ایک تروتازہ گل دستہ جو ہر سیاسی اور مذہبی جماعت سے لئے گئے بہترین پھولوں پر مشتمل ہو۔ پچھلے کالم میں میں نے ممتاز افراد کے نام گنوائے تھے۔ (دوبارہ لکھتا ہوں صرف پندرہ) دیکھنا یہ ہے کہ ان 15 افراد کے اجلاس کا شرف میزبانی کیسے ملتا ہے؟ تاریخ ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے اور میں ان کے احساس ذمہ داری کو جگا رہا ہوں۔ یہ قیام کا وقت ہے‘ نہ بے عملی کے سجدہ کا اور نہ دھرنوں کی منفی سیاست کا۔ صرف پندرہ ممتاز اور محب الوطن اور عوام دوست افراد مل جائیں تو اندھیرے کا روشنی میں بدل جانے کا عمل شروع ہوجائے گا۔ میرا آپ سے وعدہ رہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں