وطن کی فکر کر ناداں

اقبال کے پہلے مجموعۂ کلام ''بانگ درا‘‘ کے ابتدائی صفحات پر آپ وہ نظم پڑھ سکتے ہیں جس سے آج کے کالم کا عنوان لیا گیا ہے۔ ایک شعر کا پہلا مصرع ہے۔ ؎ 
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
یہ شعر لکھے ہوئے ایک صدی گزر گئی۔ اس عرصہ میں کئی مصیبتیں یکے بعد دیگرے آتی رہیں۔ لیکن داد دیجئے آنکھیں موند کر لیٹے ہوئے نادانوں کوکہ نہ آنکھیں کھولتے ہیںاور نہ فکر کرتے ہیں۔ اقبال سے ایک صدی اور پیچھے جائیں تو ہمارے کان میں میر تقی میر کی آواز آتی ہے۔ع 
مژگاں کو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
سیلاب آیا اور واقعی شہر کو بہا کر لے گیا مگر سوئی ہوئی قوم کی آنکھ نہ کھلی۔ ماسوائے 1940 ء اور 1947 ء کے درمیانی سات سالوں کے جب بمشکل ایک آنکھ کھلی (اور وہ بھی غالباً آدھی) تو ہندوستان کی تاریخ اور جغرافیہ دونوں بدل گئے اور ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو اپنے وطن کی صورت میں وہ بڑی نعمت مل گئی جس کو تین قومیں (کرد ۔فلسطینی اور کشمیری) ایک عرصہ سے ترستے آرہے ہیں اور نہ معلوم ان کی آزادی کا خواب کب شرمندئہ تعبیر ہوگا؟
پچاس کی دہائی میں کاسترو اور چی گویرا نے مٹھی بھر افراد کے ساتھ کیوبا میں مسلح جدوجہد کی اور نہ صرف کامیابی حاصل کی مگر ایک ایسے شاندار اشتراکی انقلابی نظام کی بنیاد بھی رکھی جس نے ایک غریب ملک کے عوام کو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں وہ زبردست سہولیات دیں جو صرف 85 سال میل دُور اُس کے پڑوسی اور دنیا کے امیر ترین ملک امریکہ سے
کئی درجہ بہتر ہیں۔ ایک اخبار نویس نے نصف صدی بعد کاسترو سے پوچھا کہ بتائیں کہ انقلاب بپا کرنا کتنا مشکل تھا؟ کاسترو نے جواب دیا وہ تو بعد میں بتائوں گا ۔ مگر پہلے یہ بات سُن لیں کہ انقلابی نظام کو قائم رکھنا‘ مستحکم بنانا اور ناکام ہونے سے بچانا انقلاب لانے سے کئی گنا زیادہ مشکل کام تھا۔ انقلابی تبدیلی رُوس میں آئے یا چین میں یا ایران میں یا ویت نام میں یا 1947 ء کے ہندوستان میں۔ کاسترو کا مذکورہ بالا مقولہ ہر ملک میں سچا ثابت ہوتا ہے۔ بھارت ہو یا پاکستان۔ دونوں میں سے کوئی بھی ملک عوام دوستی کے اس بلند معیار پر ہر گز پورا نہیں اُترتا جس کے لئے بھگت سنگھ نے بصد خوشی شہادت قبول کی۔ ہزاروں لوگوں نے جزائر انڈیمان (کالاپانی) میں عمر قید کاٹی اور ناقابل تصور صعوبتیں برداشت کیں۔ مولانا حسرت موہانی نے برس ہا برس جیلوں میں چکی چلانے کی مشقت کا عذاب سہا (اور وہ بھی اس خندہ پیشانی سے کہ مشق سخن بھی جاری رہی)۔ بنگال میں سبھاش چند بوس سے لے کر پختون خوا کے عبدالغفار خان تک۔ان بڑے لوگوں کی بہادرانہ جدوجہد کی بدولت ہمیں آزادی تو ملی۔ مگر کڑوا سچ ہے کہ ہندوستان کو صرف نام کی آزادی ملی چونکہ 1947 ء کے بعد ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں انگریزی زبان، انگریزی ثقافت اور برطانوی اثر و رسوخ کو وہ فروغ ملا جو آزادی کے لفظ کو بے معنی کر دینے کے لئے کافی ہے۔ نہ انسانی حقوق نہ سماجی انصاف نہ معاشی انصاف۔ برصغیر کے تینوں ممالک میں تمام سیاسی جماعتوں کا مرکز و محور عوام دوستی نہیں بلکہ اقتدار اور اختیار کے حصول کے لئے نہ ختم ہونے والی کشمکش اور رسہ کشی ہے۔ سیاسی طبقات کی عوام دُشمنی بذات خود کوئی چھوٹا عذاب نہیں لیکن اس میں اربوں کھربوں کی کرپشن اور پرلے درجہ کی نالائقی بھی شامل کر لیں تو ان کا مہلک امتزاج ایک ڈیڑھ ارب انسانوں پر اور بڑا عذاب بن کرمسلط ہو جاتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ روشنی کی کوئی کرن کسی اُفق پراُبھرے تو کیونکر؟ ہر نئے لیڈر کو آزمانے کے بعد عوام کو غالب ؔکا یہ شعر سب سے زیادہ یاد آتا ہے۔ ؎ 
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آج کا کالم (اور اس کا توجہ طلب عنوان) لکھنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ میں اہل وطن کو اس خطرہ سے آگاہ کروں جس کی گھنٹی ایک عرصہ سے بج رہی ہے اور وہ ہے پاکستان پر نئی امریکی یلغار کا۔ نئے کا لفظ اس لئے لکھا گیا ہے کہ پہلے نہ صرف سلالہ کے مقام پر ہماری سرحدی فوجی چوکی پر امریکہ کا فضائی حملہ ہوچکا ہے بلکہ امریکی ڈرون ہماری سر زمین پر ان گنت حملے کر چکے ہیں اور ہم ہیں کہ حد درجہ ڈھٹائی اور بے شرمی سے جارحانہ حملوں سے چشم پوشی کرتے رہے۔ بدترین مثال ایبٹ آباد پر امریکی فضائیہ کے اُس حملہ کی تھی جو اُسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لئے کیا گیا۔ کلبھوشن کی شکل میں بھارتی جاسوس کو گرفتار کرنے اور سزائے موت دینے کا اعلان کیا گیا لیکن ریمنڈ ڈیوس کی موت میں امریکی جاسوس اور بے گناہ پاکستانیوں کا قاتل کیوں نظر نہ آیا؟ ریمنڈ ڈیوس کو جس طرح رہائی دی گئی اُس کی تفصیلات آپ اُس کی لکھی ہوئی اپنی سرگزشت میں پڑھ سکتے ہیں۔ جس کے مندرجات کی اتنے ماہ گزر جانے کے بعد بھی تردید نہیں کی گئی اور نہ کی جا سکتی ہے۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بعض لوگ اڑتی چڑیا کے پر بھی گن سکتے ہیں۔ یہ کالم نگار نہ صرف اس اخبار کے قارئین بلکہ پاکستان کے تمام بے بس اور بے آواز عوام کی طرف سے یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہے کہ ہمیں پاکستان پر نئے اور بڑے امریکی فوجی حملہ کا امکان کیوں نظر نہ آتا؟ غالباً سماعت اور بینائی کی کمزوری کی وجہ سے نہ خطرہ کی گھنٹی سنائی دیتی ہے اور نہ خطرہ کی سُرخ بتی دکھائی دیتی ہے۔ بصورت دیگر ہماری سلامتی کے ذمہ دار اس بڑھتے ہوئے خطرہ کو دیکھ سکتے ہیں تو وہ ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کن تدابیر کا مشورہ دیتے ہیں؟وہ قومی اسمبلی کے بند اجلاس میں عوامی نمائندوں کو یہ راز کیوں نہیں بتاتے؟ کیا ہم اس برے دن کا انتظار کر رہے ہیں جب ہم امریکی حملہ سے ہونے والی تباہی سے سنبھلنے کے بعد ایک نیا حمود الرحمن کمیشن بنا ئیں گے جس کی رپورٹ (ایبٹ آباد کمیشن کی طرح) کبھی منظر عام پر نہ آئے گی۔
کالم نگار (جسے اپنے پینڈو ہونے پر فخر ہے) ایک جٹکا یعنی سیدھا سادا سوال کرتا ہے۔ اس وقت ہمارا جو بھی سیاسی یا مذہبی راہنما قومی مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دیتا ہے کیا اُس کا اولین فرض نہیں کہ وہ اقتدار کی جنگ سے دستبردار ہو کر وسیع البنیاد قومی حکومت کے قیام کی فی الفور کوشش کرے۔ موجودہ ہنگامی حالات ہمیں آپس میں لڑنے جھگڑنے اور ایک دُوسرے کے خلاف دھرنے دینے اور وزیروں کے استعفوں کا مطالبہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ میرا فرض ہے کہ میں اس خدشہ کا کھلم کھلا اظہار کروں کہ امریکی فضائیہ نہ صرف پاکستان میں ان مقامات کو جنہیں وہ دہشت گردوں کا اڈا سمجھتی ہے بلکہ ہماری ایٹمی تنصیبات کی بھی تاک میں ہے۔ کیا تمام حفاظتی تدابیر اختیار کی جا چکی ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر اس کا سرکاری اعلان کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا ہم نے چین‘ایران اور شمالی کوریا سے فوجی اور سفارتی امداد مانگی ہے؟ کیا ہمارے ریڈار اور میزائل فضائی حملہ کو ناکام بنانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں؟ کیا وہ پھر اُس طرح مفلوج تو نہ ہو جائیں گے جس طرح ایبٹ آباد پر امریکی فضائی حملہ کے وقت ہو گئے تھے؟ چند ایک کے علاوہ دیگر صحافی آنے والے خطرات کا کیوں ذکر نہیں کرتے؟ کالم کا آغاز جس شعر کے پہلے مصرع سے کیا گیا تھا۔ آپ آخر میں اُسکا دوسرا مصرع بھی پڑھ لیں ۔ع 
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
میں پچاس سال سے ان مغربی آسمانوں میں سے ایک میں رہتا ہوں۔ مجھے نوشتہ دیوار چھ ہزار میل سے دکھائی دے رہا ہے تو پاکستان میں رہنے والوں کو کیوں نظر نہیں آتا؟ میری دلی خواہش ہے کہ میرے تمام اندیشے غلط ثابت ہوں۔ لیکن ہم نے 1947 ء 1965 ء اور 1971 ء میں پہلے بھی اپنے قائدین کی ''سب اچھا‘‘کی گردان سنی تھی۔ ہم کس طرح کے لوگ ہیں کہ ایک سوراخ سے تین بار ڈسے جانے کے باوجود بھی اپنا محاسبہ کرنے کو تیار نہیں ؟ ذرا سوچئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں