کھیل کا میدان اور میدان جنگ …(1)

گزرے ہوئے سال کے شروع کے دنوں میں انگریز صحافیوں اور وکلا (جن میں ایک غیر انگریز بھی شامل تھا اور وہ تھا میرا بیٹا فاروق) کی ایک کرکٹ ٹیم پاکستان گئی تاکہ وہاں دوستانہ میچ کھیلے۔ باہمی جذبۂ خیر سگالی کو بڑھائے۔ دوستی کے پودوں کی آبیاری کرے۔ برطانیہ اور پاکستان کے عوام کو ایک دوسرے کے مزید قریب لائے۔ (گرچہ اس کالم نگار کی رائے میں وہ پہلے ہی اتنے قریب ہیں کہ غالباً اُنہیں ایک دوسرے سے دُور کرنے کی ضرورت ہے) اب ہم کالم نگار کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے (بوڑھے آدمی اسی سلوک کے مستحق ہوتے ہیں) آگے بڑھتے ہیں تاکہ مذکورہ بالا کرکٹ ٹیم کے مہماتی سفر میں اس کا ساتھ دے سکیں۔ یہ ٹیم لاہور، سرگودھا اور مظفر آباد میں کھیلے جانے والا ہر میچ بری طرح یا بہت بری طرح ہارتی ہوئی وزیرستان کے شہر میران شاہ پہنچی تو یہ راز کھلا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں کرکٹ گرائونڈ نہ صرف کھیل کا میدان ہے بلکہ گاہے گاہے اور بوقت ضرورت (ضرورت بھی امریکہ کی) بطور میدان جنگ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس دنیا میں کھیل کے میدان اَن گنت ہوں گے۔ جنگ کے میدانوں کی بھی ماشاء اللہ کوئی کمی نہیں مگر یہ دونوں خوبیاں بیک وقت جس کرکٹ گرائونڈ میں موجود ہیں (سطح سمندر اور شک و شبہ دونوں سے کافی بلند) وہ صرف میران شاہ میں ہے۔ آپ میں سے وہ خوش نصیب لوگ جن کا (اس کالم نگار کی طرح) فارسی ادب سے سلام دُعا کا رشتہ ہے، مغل بادشاہ (غالباً جہانگیر) کے اس شعر سے ضرور شناسا ہوں گے جو اُس نے وادیٔ کشمیر کی خوبصورت وادیوں اور جھیلوں کو دیکھ کر بے ساختہ کہا تھا ؎
اگر فردوس بر روی زمین است
ہمین است و ہمین است و ہمین است
بادشاہ سلامت کے طرزِ حکمرانی کے سامنے آپ جتنے چاہے سوالیہ نشان لگائیں مگر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ جمالیاتی حسن سے مالا مال تھے اور اپنے کسی درباری کو شعر کہنے کی زحمت دینے کی بجائے خود ایک شعر (اور وہ بھی بغیر کسی پیشگی تیاری کے) کی ادائیگی کے اہل تھے۔ شعر بھی ایسا کہ صدیاں گزر گئیں مگر ابھی تک ہمارے حافظہ کے طاق دانوں میں محفوظ ہے۔ آپ نے ضرور غور فرمایا ہوگا کہ موصوف نے ہمیں است کے الفاظ تین بار دہرائے۔ اس کا اُردو میں ترجمہ ہے۔ یہاں ہے، یہاں ہے، یہاں ہے۔ ہر وکیل کی طرح میں بھی عدالت میں اپنے دلائل دہراتا ہوں تاکہ مقدمہ جیت جانے کا امکان روشن ہو جائے مگر دو الفاظ کو تین بار دہرانے کی جسارت میں نے آج تک نہیں کی۔ ایسا کرنے کے لئے ہندوستان کا بادشاہ ہونا یا پھر شوقیہ‘ برطانوی کرکٹ ٹیم کا ایک کمال کا کھلاڑی ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کمال سے مراد کرکٹ کھیلنے میں مہارت نہیں بلکہ عالمی سطح پر انسانی ضمیر کی آواز بن جانا ہے جو کالم نگار کی نظر میں کرکٹ کھیلنے میں بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے سے بھی زیادہ مشکل اور بڑا کام ہے۔ اس کھلاڑی کا نام ہے Clive Stafford Smith ۔ میران شاہ کی کرکٹ گرائونڈ کو انہوں نے صرف تین بار نہیں بلکہ کئی بار میدانِ جنگ لکھا اور وجوہات اس مضمون میں بیان کیں جو روزنامہ Times کے ادبی ضمیمہ میں 22 دسمبر 2017ء کو شائع ہوا۔
میں آپ کو شاعر کا نام بتائے بغیر (غالباً الطاف حسین حالی تھے) یہاں ایک اور شعر لکھنے کی اجازت چاہتا ہوں ؎
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
پاکستان میں ہم نے پہلا فرشتہ اورنگی کالونی کراچی میں اختر حمید خان کی صورت میں دیکھا اور دوسرے فرشتے عبدالستار ایدھی اور کوڑھ کے مریضوں کا عمر بھر علاج کرنے والی جرمن نژاد خاتون ڈاکٹر رُتھ فائو اور چترال میں 60 سالوں سے بچوں کا سکول چلانے والے انگریز استادMaj. Geoffrey Langlands بھی (جو 1964ء میں میرے، حفیظ اختر رندھاوا اور اسکندر جمالی کے ساتھ ایچی سن کالج لاہور میں پڑھاتے تھے) یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ہر فرشتہ مشہور و معروف بھی ہو۔ آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ بعض فرشتہ صفت انسان گمنام رہ کر بلکہ بڑی تگ و دو سے گوشۂ گمنامی میں چھپ کر ساری عمر اس طرح نیکی کے کام کرتے ہیں اور اندھیرے میں چراغ جلاتے ہیں کہ ماسوائے ایک محدود حلقہ کے‘ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ یہی وہ فرشتہ صفت لوگ ہیں جو انجیل مقدس کے الفاظ میں زمین کا نمک ہیں۔ پاک دل و پاک باز۔ اقبال کے الفاظ میں نگاہ بلند سخن دلنواز اور جاں پُرسوز۔ معرکہ حق و باطل میں فولاد کی طرح سخت اور حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے اُن کا خدا پوچھتا ہے کہ ان کی رضا کیا ہے؟ یہی وہ فرشتہ صفت لوگ ہیں جو ہر معاشرہ کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ صرف پاکستان میں اور برطانیہ نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں (پڑوسی ملک بھارت میں یہ اعزاز دانشور خاتون ارون دھتی رائے کو حاصل ہے)، دنیا کے ہر ملک میں عقوبت خانے بااُصول اور باضمیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے لے کر کیوبا میں امریکی عقوبت گاہ (گوانتاناموبے) کے بے گناہ قیدیوں تک‘ ان فرشتہ صفت لوگوں‘ پر اُن کے بنانے والے کو بھی فخر ہو گا۔ وہ دنیاسے جائیں گے تو خداوند تعالیٰ اپنے فرشتوںکو حکم دیں گے کہ اُن کا آگے بڑھ کر استقبال کیا جائے اور ان پر پھول نچھاور کئے جائیں اور اُنہیں بارگاہ الٰہی میں وہ بلند مرتبہ دیا جائے جس کے وہ حق دار ہیں۔ میں کلام اقبالؔ دیکھے بغیر محض اپنے حافظہ کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ اقبالؔ کی ایک نظم کا موضوع ہے جنت کے دروازہ پر روحِ آدم کا وہ استقبال جو جبرائیل نے کیا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے بیانیہ کی تائید میں اقبالؔ کو بطور سند استعمال کروں۔ (جاری)

پاکستان میں ہم نے پہلا فرشتہ اورنگی کالونی کراچی میں اختر حمید خان کی صورت میں دیکھا اور دوسرے فرشتے عبدالستار ایدھی اور کوڑھ کے مریضوں کا عمر بھر علاج کرنے والی جرمن نژاد خاتون ڈاکٹر رُتھ فائو اور چترال میں 60 سالوں سے بچوں کا سکول چلانے والے انگریز استادMaj. Geoffrey Langlands بھی (جو 1964ء میں میرے، حفیظ اختر رندھاوا اور اسکندر جمالی کے ساتھ ایچی سن کالج لاہور میں پڑھاتے تھے) یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ہر فرشتہ مشہور و معروف بھی ہو۔ آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ بعض فرشتہ صفت انسان گمنام رہ کر بلکہ بڑی تگ و دو سے گوشۂ گمنامی میں چھپ کر ساری عمر اس طرح نیکی کے کام کرتے ہیں اور اندھیرے میں چراغ جلاتے ہیں کہ ماسوائے ایک محدود حلقہ کے‘ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں