نیل کے ساحل سے آنے والی اچھی خبر

جب اقبالؔ کو یہ فکر ستائی کہ حرم کی پاسبانی کون کرے گا اور کس طرح کرے گا تو اُن کے ذہن میں اس کا صرف ایک جواب آیا اور وہ یہ تھا کہ نیل کے ساحل سے لے کرتابخاک کاشغر (مغربی چین کا تاریخی شہر) سارے مسلمان ایک ہو جائیں۔ نہ رنگ، نہ نسل، نہ ثقافت، نہ ذات پات، نہ انفرادی یا طبقاتی مفادات۔ ان تعصبات اور کثافتوں سے بالاتر ہو کر دریائے نیل اور کاشغر شہر کے درمیان رہنے والے سارے مسلمانوں کا ایک ہوجانا واحد شرط ہے۔ ایک بڑی مضبوط رسی کی طرح۔ (یہ شرط پوری ہوگی تو حرم کی حفاظت ہو سکے گی‘ ورنہ نہیں۔ مسلمانوں کو تو اقبالؔ کی بات ابھی تک سمجھ نہیں آئی) آپ پر شام عراق اور یمن میں ہونے والی بے حد ہولناک خانہ جنگی ملاحظہ فرمایئے گا مگر برطانوی حکومت نے سو سال پہلے (پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد) مذکورہ بالا شرط کو کسی قیمت پر پورا نہ ہونے دینے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ لارنس آف عریبیہ کے ذمہ پانچ کام لگائے گئے۔ جاسوسی، دہشت گردی، عرب قبائل کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف بھڑکانا، تخریب کاری اور حرم کے پاسبانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا۔ لارنس نے یہ پانچوں کام اتنے اچھے طریقہ سے سرانجام دیئے کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے 25 سالوں کے اندر سرزمین حجاز پر اسرائیل کا ایک ناسور کی شکل میں اُبھرناممکن ہو گیا۔ کیا گزشتہ نصف صدی میں دُنیا کے کسی اور حصہ میں آپ اس سے زیادہ خون ریزی، تباہی و بربادی اور پرُتشدد کارروائیاں دیکھ سکتے ہیں؟ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہو گا۔
برطانیہ اور امریکہ کی دوغلی پالیسی اور منافقت قابل صد مذمت ہے۔ اگر کسی بھی اسلامی ملک میں انتخابات ہوں اور وہاں مغربی سامراج کے دُشمن جیت جائیں (جس طرح الجزائر اور مصرمیں ہوا) تو ان منافقوں کو جمہوریت ایک آنکھ نہیںبھاتی۔ وہ پوری کوشش کرتے ہیں (اور بدقسمتی سے ہمیشہ کامیاب ہو جاتے ہیں) کہ جمہوری نظام کی صف لپیٹ دی جائے اور فوج اقتدار پر قبضہ کر لے اور فوجی آمر پر امریکی نوازشات کی بارش کر دی جائے۔ جونہی جمہوری طریقہ سے اقتدار میں آنے والا کوئی بھی راہنماعوامی تائیدسے محروم ہو جائے (جس طرح پاکستان میں جناب بھٹو صاحب کے زوال کا المیہ رُونما ہوا) تو امریکی تائید کی سرپرستی سے ایک آمر مطلق کو تخت پر بٹھایا جائے۔ (جس طرح جنرل ضیاء الحق، اُس سے پہلے جنرل ایوب خان اور اُس کے بعد جنرل مشرف) ہر فوجی آمر کو امریکی خیرات (ہر قسم کی خیرات) اسی طرح زندہ رکھتی ہے جس طرح ہسپتال میں جاں بلب مریض کو مصنوعی تنفس۔ جونہی کوئی امریکی پٹھو اپنے امریکی آقائوں کے کسی ایک حکم کی بھی تعمیل نہ کرنے کی جرأت کرے تو اُس کا وہی عبرت ناک حشر کیا جاتا ہے جو عراق میں صدام حسین اور لیبیا میں کرنل قذافی کا۔ ایران میں شاہ ایران اور پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا ہوا۔ پاکستان میں رُتبہ شہادت پانے والے صدر کا ہوائی جہاز کس طرح زمین پر گرایا گیا؟ اُن کے دونوں بڑے باخبر اور ذہین بیٹوں، لاکھوں مداحوں اور عقیدت مندوں (جن میں سرفہرست ہونے کا اعزاز میاں نواز شریف کو حاصل ہے) پر آج تک یہ راز نہیں کھلا اور نہ کھلے گا۔ چونکہ یہ ایک کھلا راز (Open Secret ) ہے۔ کھلے راز کو اور کیا کھولیں؟ یہی حال بھٹو خاندان کے بچوں کا ہے۔ اُن کا باپ صدر بنا اور پانچ سال رہا۔ مگر برُا ہو اُس کی مصروفیت کا‘ جس نے اُسے اپنی بیوی کے دن دیہاڑے قتل کی تفتیش اور قاتلوں کی گرفتاری کی طرف متوجہ نہ ہونے دیا۔ جس طرح کی سازش سے مرتضیٰ بھٹو کو اُس کے گھر کے قریب پولیس کی گولیوں کی بوچھاڑ سے قتل کیا گیا۔ بالکل اُسی طرح کی سازش نے اُس (بے نظیر) کی جان لی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ دونوں کا مرکزی کردار ایک ہی ہے۔ 
تیسری دُنیا کا بالعموم کوئی بھی ملک ہو (بالخصوص ایک اسلامی ملک) ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں (معمولی فرق کے ساتھ) سیاسی حرکیات (Dynamics ) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ آیئے! اب ہم نیل کے ساحل کی طرف واپس چلیں جہاں سے یہ اچھی خبر آئی ہے کہ ایک نوجوان اور بہادر اور عوام دوست وکیل (نام ہے خالد علی) نے 23/24 مئی 2018ء کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں فوجی آمر (جنرل سیسی) کے خلاف کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان اتنا اہم ہے کہ یورپ کے تمام بڑے اور اچھے اخباروں (برطانیہ میں روزنامہ گارڈین) نے کرسمس کے لگ بھگ یہ خبر نمایاں طور پر شائع کی۔ خالد علی نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے منشور کا تعارف بطور ایک سوشلسٹ کرایا۔ کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کا تحفظ، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا سدباب، افسر شاہی کی کرپشن کی روک تھام، اجارہ داریوں اور غریبوں کے استحصال کے خلاف قانون سازی، امریکہ اور اسرائیل کی بندہ پروری سے دستبرداری، سرکاری محصولات (Taxes)کی وصولی کو عوام دوست بنانا (اشیائے ضرورت کی بجائے آمدنی پر ٹیکس لگانا) حکومت کے ہر شعبہ میں عوام دوست اصلاحات کرنا۔ سماجی اور معاشی انصاف، انسانی حقوق کی حفاظت، قانون کی حکمرانی کے اُس خواب کی عملی تعبیر جسے مصری عوام نے اتنی بڑی تعداد میں دیکھا کہ حسنی مبارک کا آمرانہ دور ختم ہو گیا۔ اس تاریخی کامیابی کا سہرا جس انقلابی تحریک کے سر باندھا جاتا ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے۔ جنرل سیسی کی فوجی بغاوت کی بدولت بدترین ردّ انقلاب (Counter Revolution) کا شکار ہو کر مصر کی صحرائی ریت میں دفن ہو گئی۔
خالد علی نے قاہرہ کی جس یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اُس کا نام (Zagazig) اتنا انوکھا ہے کہ مجھے آپ کو ضرور بتانا چاہئے۔ 22 سالہ وکالت میں خالد علی نے کئی ایسے مقدمات میں کامیابی حاصل کی جو مصر کی قانونی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے حسنی مبارک کے آمرانہ دور میں کئے جانے والے اُن غیر قانونی احکامات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جن کی بدولت سرکاری زمینوں اور قومی ملکیت میں چلنے والے صنعتی اداروں کو ملکی اور غیر ملکی ارب پتی افراد کو اونے پونے داموں فروخت کیا جاتا تھا۔ خالد علی ہر اُس قانونی کاوش کا حصہ بنے جس کا مقصد احتساب اور شفافیت کے زریں اُصولوں کی روشنی میں‘ سرکاری اقدامات کو عدالتی احکامات کے ذریعے منسوخ کرانا تھا۔ صدارتی انتخابات میں خالد علی کی کامیابی کے امکانات ہرگز روشن نہیں مگر اُن کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے اعلان نے ہی دریائے نیل میں بہتے ہوئے پانی کی رفتار اور مصر کے طلباء و طالبات، وُکلا اور محنت کشوں کے دلوں کی دھڑکن تیز کر دی ہے۔ وہ مصر کے تاریک اُفق پر ایک روشن ستارہ بن کر اُبھرے ہیں۔ اُن کا مقابلہ اتنی بڑی قوت سے ہے کہ اس کا اندازہ کرنے کے لئے آپ کو انجیل مقدس میں لکھی ہوئی وہ ولولہ انگیز کہانی پڑھنا پڑے گی جو ایک نوجوان (جس کے ہاتھ میں غلیل تھی) اور Goliath (ایک بڑا تنومند اور گرانڈ پل پہلوان‘ جس کے ہاتھ میں وزنی گز تھا) کے درمیان میدان جنگ میں لڑنے جانیوالے تاریخی معرکہ کو بیان کرتی ہے۔ یہ کہانی اس لئے خصوصی اہمیت رکھتی ہے کہ خلافِ توقع اس معرکہ میں David (حضرت دائود علیہ السلام) جیت گئے اور Goliath پیشانی پر لگنے والے پتھر کی چوٹ کی بنا ہلاک ہو کر زمین پر اوندھے منہ گرا۔
یہ کالم نگار پاکستان میں وُکلا کی برادری سے اپیل کرتا ہے کہ وہ خالد علی کو پاکستان آنے اور اُن سے خطاب کرنے کی دعوت دیں۔ میں کوشش کرو ں گا کہ لارڈ نذیر احمد، لارڈ قربان حسین اور یاسمین قریشی (رُکن دارالعوام) کے توسط سے خالد علی کو برطانیہ آنے اور یہاں کے عوام دوست حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کی دعوت بھی دی جائے۔ عوام دوستی اور عوام دُشمنی کا نہ کوئی جغرافیہ ہے اور نہ کوئی حدود اربعہ۔ مصر میں خالد علی کو مقبولیت حاصل ہو گی تو پاکستان میں عوام دوستوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ دریائے نیل تو دریائے سندھ سے کافی دُور ہے۔ دریائے جمنا تو ہماری سرحدوں سے بہت قریب ہے۔ اُس کے کنارے عام آدمی پارٹی کے بانی اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجری وال رہتے ہیں۔ وہ دہلی کے وزیراعلیٰ ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم نے آج تک اُنہیں ایک بار بھی نہیں بلایا۔ اگر ایسا کرنا بہت مشکل کام ہے تو ہمارے وُکلا اور صحافی انہیں دہلی جا کر مل ہی آئیں۔ برصغیر میں امن قائم کرنے کے لئے ہمیں بھارت کے انصاف پسندوں اور عوام دوستوں کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ یاد رکھیں کہ ہم نہ اپنا جغرافیہ بدل سکتے ہیں اور نہ اپنی تاریخ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں