اقبالؔ کا شاہین اور برطانوی باز

آج تک میرا یہی خیال تھا کہ اقبال کے فرمودات کی خلاف ورزی پر دُنیا بھر کے مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کی مکمل اجارہ داری ہے۔ وہ ہمارے قومی شاعر ہیں تو کیا ہوا؟ ہم ہر سال یوم اقبال بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ کیا یہ کافی نہیں؟ ہمارے اچھے اچھے گلوکار کلامِ اقبال لہک لہک کر گاتے ہیں اور سامعین سر دُھنتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے قومی شاعر اس سے زیادہ کس عزت افزائی کے حقدار ہو سکتے ہیں؟ اور پھر مزارِ اقبال دیکھئے گا۔ دُنیا کا اور کون سا ایسا شاعر ہے جس کے مزار پر چاق و چوبند سپاہیوں کا دستہ دن رات پہرہ دیتا ہے؟ ذرا اس کا مقابلہ دہلی میں خواجہ نظام الدین اولیائؒ کے مزار اقدس کے پاس غالب کی قبر سے کیجئے۔ یہ کالم نگار جب بھی دہلی جائے‘ وہاں ضرور جاتا ہے اور اُن کی قبر کی پائنتی پر اکیلا بیٹھ کر سوچتا ہے کہ غالب نے بجا طور پر یہ اُمید ظاہر کی تھی کہ اگرغرق دریا ہو جائیں تو ان کے پسماندگان مزار کی تعمیر کی زحمت اُٹھانے سے بچ جائیں گے۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ جب غالب خستہ کا جنازہ اُٹھا ہو گا تو الطاف حسین حالی کے علاوہ (جنہوں نے اپنے ممدوح کا کمال مرثیہ لکھا) اور کون کون گھر سے قبرستان تک پیدل چلا ہو گا؟ آج ایک برطانوی اخبار پڑھا تو میرے قومی غرور کو ٹھیس پہنچی۔ پتا چلا کہ اقبال کے فرمودات کی کھلم کھلا اور بے دریغ خلاف ورزی کے میدان میں وہ پرندہ پاکستانیوں سے بازی لے گیا ہے جس کا نام بھی باز ہے۔ 
اقبالؔ باز کا حوصلہ بڑھانے کے لئے اُسے شہباز لکھتے تھے۔ یقینا یہ لفظ اعلیٰ نسل کے خونخوار شکاری پرندہ کے لئے زیادہ موزوں ہو گا۔ اس کالم نگار نے دُنیا کے ہر اچھے چڑیا گھر میں عقاب اور باز دیکھے ہیں مگر ان سے پہلا تعارف کلامِ اقبال نے کرایا۔ پڑھنے اور دیکھنے میں جو فرق ہوتا ہے وہ کالم نگار کے لئے (باز کے معاملہ میں) پچاس سال پہلے لندن آنے اور یہاں کا چڑیا گھر دیکھنے (اور اپنے بچوں کو دکھانے) پر ختم ہو گیا تھا۔ اقبال نے بڑے پیار سے شاہین (اور منطقی اعتبار سے باز کو بھی) کو سمجھایا کہ سنو میرے محبوب پرندے! تمہارا نشیمن قصرِ سلطانی کا گنبد نہیں (مطلب ہے کہ کوئی آرام دہ محفوظ اور پُرتکلف جگہ) تم پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کر کے اپنی زندگی گزارو (مطلب ہے کہ ساری عمر تکلیف، بے آرامی اور خجل خواری کا عذاب سہتے رہو) عقابوں کا ذکر تو کبھی بعد میں کریں گے، آج کے کالم کا موضوع باز (Falcons) ہیں اور وہ بھی برطانوی باز۔ جب ان بازوں کو جان کے لالے پڑے تو اُنہوں نے کلام اقبال کو طاقِ نسیاں میں رکھا۔ لق دق، ویران سنسان، کرخت اور سنگلاخ چٹانوں کو خیرباد کہا اور شہروں کا رُخ کیا تاکہ اپنی جان بچا سکیں۔ بازوں کو دو بڑے خطرات درپیش ہیں۔ ایک تو اُن کے انڈے چرانے والوں نے اس فن میں بڑی مہارت حاصل کر لی ہے۔ اقبال کے ایک اور مشورہ پر عمل نہ کرتے ہوئے باز ہمیشہ کارِآشیاں بندی کرتا ہے۔ (یعنی گھونسلا بناتا ہے چونکہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا) انڈوں کے چور ستاروں پر کمندیں ڈالنے سے تو رہے وہ بلند و بالا پہاڑوں کی کوہ پیمائی کرکے ان کے گھونسلوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ کامیاب ہونے کا گُر وہ جانتے ہیں۔ دوسرا بڑا خطرہ یہ ہے کہ شکاری باز کو گولی کا نشانہ بنا کر‘ اپنے راستے کی بڑی رکاوٹ اور بنا بنایا کھیل بگاڑنے والے کو ہٹا دیتے ہیں تاکہ جن معصوم پرندوں کو شکاری صاحبان کی گولیوں کا نشانہ بننا ہے‘ وہ باز کا لقمہ نہ بن جائیں۔ لگتا ہے کہ جب بازوں نے باز شماری کی اور اپنی تعداد گنی تو اُن کا ماتھا ٹھنکا کہ اُن کی تعداد اتنی تیزی سے گرتی جا رہی ہے کہ اب خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اُن کی نسل معدوم ہو جائے گی۔
میرے اہلِ وطن کے برعکس‘ بازوں میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ جب وہ مرض کی تشیخص کر لیں تو پھر اُس کا مؤثر علاج ڈھونڈ لیتے ہیں اور علاج ہے پہاڑوں سے مفرور ہو کر شہروں میں پناہ لینا۔ آپ جانتے ہیں کہ جنگل میں مور ہمہ وقت بھی ناچے تو کوئی نہیں دیکھتا۔ یہ نہیں کہ وہ اپنا ناچ دکھانا نہیں چاہتا، نہ جنگل میں کوئی آدم زاد ہوتا ہے (یہ لکڑی مافیا کے وجود میں آنے سے پہلے کی بات ہے) اور نہ کوئی مور کے ناچ کو دیکھ سکتا ہے۔ باز ہوں یا عقاب‘ جب تک پہاڑوں کی چٹانوں (مجھے بصد ادب لکھنا چاہئے کہ یہ الفاظ مجھے ہمیشہ کھٹکتے ہیں) میں رہے اور پرواز کرتے رہے‘ غیر مسلح پرندوں کا شکار کرتے رہے۔ ماسوائے اقبال کی عقابی آنکھ کے‘ اُنہیں نہ کسی نے دیکھا اور نہ اُن کی فقیری اور درویشی اور طاقت کے مظاہروں کی شان و شوکت کے مظاہروں کا ذکر کیا بلکہ اُنہیں اس حد تک سر پر چڑھایا گیاکہ جرمنی کی طرح وہ کئی دیگر ممالک کا قومی نشان بن گئے۔ تعلقات عامہ کی زبان میں Eagles/ Flalcons had Good Press۔ 
یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ باز اب شہروں کو اپنا مسکن بنائے اور اخباری نمائندوں (ہمارے جاسوس پیشہ افراد) کی متلاشی نظروں سے زیادہ دیر پوشیدہ رہے۔ جلد یا بدیر اُنہیں برطانوی اخباروں کے صفحات کی زینت بن کر ہی رہنا تھا۔ پہلی خبر تو یہ آئی کہ اچھے باز کی قیمت دو لاکھ پائونڈ (تین کروڑ روپے) سے شروع ہو کر سات لاکھ پینتیس ہزار پائونڈ تک جاتی ہے۔ (قریباً دس کروڑ روپے) باز اپنے شکار کا فضائی تعاقب کرے تو دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔ آج سے 18 سال پہلے لندن میں انڈے دینے والے بازوں کے صرف تین جوڑے تھے، جو اب بڑھ کر 17 ہو گئے ہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بازوں کا ایک ایک انڈہ (چرائے جانے کے بعد) کتنے ہزار پائونڈز میں مشرقِ وسطیٰ کے شیوخ کے پاس فروخت ہوتا ہو گا۔ یقینا آپ نے بازوں کے انڈوں کی اتنی زیادہ قیمت کے بارے میں پڑھ کر ان کا آملیٹ بنا کر ناشتہ کرنے کا پروگرام ترک کر دیا ہوگا۔ 2002ء اور 2013ء کے درمیان متحدہ عرب امارات میں سرکار کے کاغذوں میں رجسٹر ہونے والوں بازوں کی کل تعداد 28 ہزار تھی۔ اگر کسی باز کا مالک باز کے ساتھ سفر کرنا چاہے تو 95 پائونڈ (قریباً پندرہ ہزار روپے) خرچ کر کے اپنے باز کا پاسپورٹ بنوا سکتا ہے۔ سب فضائی کمپنیوں کی تفصیلات دینا تو ممکن نہیں مگر قطر ایئرلائنز کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ 330 پائونڈ کے عوض چھ بازوں کے پنجرہ کو مشرق وسطیٰ سے امریکہ تک لے جاتی ہے۔ برطانیہ بھی عرب امارات سے زیادہ پیچھے نہیں، یہاں بھی باز اڑانے والوں کی تعداد 25 ہزار بتائی جاتی ہے۔ باز اتنے ذہین ہیں کہ صرف چھ ہفتے کی تربیت کے بعد وہ شکار کا فن سیکھ لیتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ پاکستان میں پالتو باز رکھنے کا شوق یا رواج ہے یا نہیں مگر اتنا ضرور جانتا ہوںکہ پاکستان کے جنوب مغربی اور شمالی علاقوں میں لوگ اپنے بچوں کے نام شیر باز یا گل باز رکھتے ہیں۔ غالباً بازوں کی اتنی عزت افزائی دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہوتی۔ اس حقیقت کا علم روزنامہ Times کے رپورٹر کو بھی نہ تھا جس نے اپنے مضمون کے ساتھ دُنیا میں بازوں کے سب سے بڑے انڈا چور Jeffrey Lendrum کی تصویر شائع کی اور معافی کے اعلان پر دستخط کر دیئے۔
روٹی تو کسی طور کھائے مچھندر

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں