اللہ رکھی کا رب راکھا

قارئین سے معذرت کہ آج کالم کے عنوان میں ایک لفظ پنجابی سے لیا گیا ہے۔ پنجابی میں راکھا محافظ اور نگہبان کو کہتے ہیں۔ قصور میں ایک بچی پیدا ہوئی تو ماں باپ نے اُس کا نام اللہ رکھی رکھا۔ اہل پنجاب خدا حافظ کے معنوںمیں رب راکھا کہتے ہیں۔ آج کل (بلکہ گزشتہ کئی سالوں سے) پاکستان کے کسی شہر کا نام اس برُی طرح رُسوائی کے بدنما اور بھیانک دھبوں سے داغدار نہیں ہوا جتنا قصور کا۔ قصور بھی وہ جہاں بابا بلھے شاہ جیسے بڑے صوفی شاعر کا مزار ہے۔ وہ بلھے شاہ جن کا کلام پڑھیں تو ہمارے کانوں میں سائیں ظہور کی سریلی آواز گونجنے لگتی ہے۔ بلھے شاہ کے بلند رُوحانی مرتبہ سے ہٹ کر دیکھیں تو ہمیں یہ بات یاد کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ اسی قصور میں ملکہ ترنم (میڈم) نور جہاں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اتنے کمال کے گیت گائے کہ سننے والوں کے ہوش اُڑا دئیے۔ گھر کے باورچی خانہ (چاہے وہ لندن میں ہو) میں جھانکیں توخاتون خانہ بتاتی ہیں کہ میں کھانا پکانے میں سب سے اعلیٰ درجے کی جو میتھی استعمال کرتی ہوں‘ وہ قصور میں اُگتی ہے۔ کالم نگار کو فخر ہے کہ وہ پچاس کی دہائی سے‘ چوٹی کے وکیل اور انسانی حقوق کے بڑے ترجمان میاں محمود علی قصوری سے متعارف تھا اور یہ تعلق قصور کے اس نامور سپوت (اور ایک جلیل القدر باپ کے بیٹے) کی وفات تک قائم رہا۔ ان کے والد گرامی کا نام مولانا عبدالقادر قصوری تھا‘ جو انگریزی عہد میں تحریک مجاہدین کے سر گرم رہنما اور پنجاب خلافت کمیٹی کے صدر تھے۔ آج کے دور میں ہم اپنے عظیم المرتبت بزرگوں کے کارناموں تو کجا اُن کے ناموں سے بھی واقف نہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ صدی میں پنجاب میں عربی زبان کے ایک بہت بڑے اُستاد اور محقق کا نام ڈاکٹر مولوی محمد شفیع تھا۔ وہ 1880ء میں قصور کے ایک علمی اور ادبی گھرانہ میں پیدا ہوئے؛ تاہم آج کے کالم کا موضوع مذکورہ بالا بڑی شخصیات میں سے ایک بھی نہیں بلکہ قصور میں رہنے والی ایک معذور و اپاہج اور بالکل عام سی‘ گمنام گھریلو عورت ہے۔ بہادر اور بلند ہمت۔ جسمانی معذوری پر قابو پا کر اپنا گھر چلانے اور دو بچوں کو پالنے والی خاتون۔ نام ہے اللہ رکھی۔ برطانیہ کے سب سے بڑے اخبار (گارڈین)نے دو دسمبر 2017ء کی اشاعت میں اس کی تصویر نمایاں طور پر شائع کی۔ مجھے اس کا دو ماہ بعد پتا چلا اور وہ بھی یوں کہ مجھے لندن کے OXO Tower Wharf میں ہونے والی تصویری نمائش کا دعوت نامہ ملا‘ جس میں یہ تصویر نمایاں طور پر دکھائی جائے گی۔ اللہ رکھی کے دونوں ہاتھ جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ اُس نے اپنے دائیں پائوں سے چرخہ چلانا سیکھ لیا ہے۔ وہ بازار سے استعمال شدہ سویٹر خریدتی ہے‘ جنہیں اپنے بچوں کی مدد سے اُدھیڑتی ہے اور پھر اُنہیں چرخہ پر کات کر قابل فروخت بناتی ہے۔ میں نے اللہ رکھی کی تصویر کاٹ کر سنبھال لی ہے‘ یہ مجھے حوصلہ اور ہمت دیتی ہے۔ میرے دل میں ولولہ پیدا کرتی ہے اور میرا سر فخر سے اُونچا کرتی ہے۔ اللہ رکھی صرف قصور‘ پنجاب یا پاکستان ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر کے محنت کشوں (خصوصاً وہ جو جسمانی طور پر معذور ہوں) کے لئے ایک Icon ہے‘ یعنی قابل فخر علامت۔
برطانیہ میں ایک بہت بڑی اور یقینا بے حد قابل تعریف و احترام خیرایتی تنظیم ہے جس کا نام ہے Care International۔یہ لوگوں کو گفٹ وائوچرز فروخت کرتی ہے اور ان چیزوں کے خریدار‘ تیسری دنیا کے ملکوں میں لوگوں (زیادہ تر خواتین کو) چھوٹی رقم کا بلا سود قرض (Micro Finance) دے سکتے ہیں۔ سمندر میں مچھلی پکڑنے والے ماہی گیر‘ تیسری دُنیا کے کسی شہر کے بازار میں ریڑھی لگانے والے یا زمبابوے میں کپڑے سینے والے درزی۔ جب قرض لینے والے اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں تو وہ قرض واپس کر دیتے ہیں تاکہ وہ کسی اور کے کام آ سکے۔ چھوٹے قرض لینے والوں میں 83فیصد خواتین ہیں چونکہ وہی غربت اور مالی پریشانیوں کا سب سے پہلے اور سب سے زیادہ شکار بنتی ہیں۔ مذکورہ بالا ویب سائٹ آج سے صرف سات سال پہلے شروع کی گئی اور اتنے مختصر عرصہ میں 42000 افراد نے 70,000 لوگوں کو کل 15.8 ملین پائونڈ (ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ) قرض دیا ہے۔ اس خیرایتی تنظیم کی روح رواں Helen نامی خاتون ہیں۔Emmeline Pankhurst ان کی پردادی اور Syrian Pankhurst اُن کی دادی تھیں۔ ایک سو سال قبل ان دونوں خواتین نے عورتوں کو ووٹ دینے کا حق دلانے کی مہم اتنی بہادری اور ثابت قدمی سے چلائی کہ برطانوی تاریخ میں اپنا نام روشن حروف میں لکھوایا۔ اس تحریک کا نام Suffragette تھا۔ چھوٹے قرض دینے والی تنظیم کا جال جن دس ملکوں میں پھیلا ہوا ہے اُن میں فلسطین کے علاوہ پاکستان بھی شامل ہیں۔ یہاں یہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی قابل صد فخر ''اُخوت‘‘ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ جن عورتوں نے چھوٹے قرض لئے اور پھر کمائی شروع ہونے کے بعد یہ قرضے واپس کرکے ایک قابل تقلید مثال قائم کی‘ اُن میں سے ایک سو خواتین کی تصاویر کی نمائش 28 فروری سے لے کر بارہ مارچ تک لندن میں میرے گھر کے قریب کی جائے گی۔ اس نمائش میں اللہ رکھی کی وہ ولولہ انگیز تصویر بھی شامل ہے‘ جس میں وہ اپنے پائوں سے چرخہ چلا رہی ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ اللہ رکھی کی یہ تصویر دیکھیں تو آپ کا سر فخر سے اونچا نہ ہو اور آپ کی آنکھیں اس بہادر خاتون کا کمال کی ہمت کا مظاہرہ دیکھ کر پرُنم نہ ہو جائیں۔ بات شروع ہوئی تھی ایک ایسی خاتون کے تذکرہ سے جو جسمانی معذوری پر قابو پاکر روزی کما رہی ہے اور اپنے بچوں کو پال رہی ہے۔ اُس کیلئے زیادہ آسان ہوتا کہ خود گداگر بن جاتی اور بھیک مانگ مانگ کر ساری زندگی گزار دیتی لیکن اس کا کیا نتیجہ نکلتا؟ اُس کے بچے بھی یا تو گداگر بن جاتے یا جرائم پیشہ۔
آج کا کالم برما کی مصیبت زدہ روہنگیا مسلمانوں کے تکلیف دہ تذکرہ پر ختم کیا جائے گا۔ پچھلے پانچ سال میں برما سے جان بچا کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے والوں کی تعداد سات لاکھ کے قریب ہے۔ برطانیہ کے معتبر ہفت روزہ اکانومسٹ کے 27 جنوری کے شمارہ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تین لاکھ‘ سعودی عرب میں ڈھائی لاکھ اور ملائیشیا میں لاکھ کے قریب روہنگیا رہتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے جس نے اقوام متحدہ کے مہاجروں کے بارے میں کنونشن پر آج تک دستخط نہیں کئے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس بات کا علم نہ ہمارے صحافیوں کو ہو گا اور نہ سیاستدانوں کو اور نہ انسانی حقوق کی حفاظت کے علمبرداروں کو۔ پاکستان میں روہنگیا غیر قانونی طور پر کام کر کے بڑی مشکل سے گزارا کرتے ہیں‘ بطور ماہی گیر یا بطور مکینک یا ہوٹلوں میں برتن دھونے کا کام‘ برائے نام اُجرت پر۔ اُن کی مجال نہیں کہ کسی کو یہ بتائیں کہ وہ روہنگیا ہیں۔ انہوں نے خود پر بھارت سے نقل مکانی کرکے کراچی آنے والے مہاجرین کا لیبل لگا رکھا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے برما (نیا نام میانمار ہے) کے خلاف جوش و خروش کے ساتھ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں روہنگیا پر کئے جانے والے مظالم انسانی ضمیر کے لئے چیلنج ہیں‘ وہ بالکل لاعلم تھے کہ پاکستان میں آباد تین لاکھ روہنگیا آبادی پرلے درجے کے دُکھوں اور عذابوں میں گھری ہوئی ہے۔ کالم نگار آخری سطور لکھ رہا تھا کہ اُسے دو پرانی تصویریں نظر آئیں‘ ایک کا تعلق بھارت سے ہے اور وہ گارڈین میں نومبر میں شائع ہوئی اور دُوسری کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ یکم جنوری کو شائع ہوئی۔ بھارت کے جنگلوں میں بے گھر لوگوں نے غیر قانونی طور پر جھونپڑیاں بنا لیں تو اُنہیں بے دخل کرنے اور ان کی جھونپڑیوں کو مسمار کرنے کے لئے ہاتھیوں کی مدد لی گئی۔ ایک ہزار سے زیادہ (بانس اور ٹین سے بنائی گئی جھونپڑیاں) ہاتھیوں نے پیوندِ زمین کر دیں۔ شکر ہے کہ پاکستان سے ملنے والی تصویر ہرگز پریشان کن نہیں۔ ایک بچہ سائیکل چلا رہا ہے‘ دُوسرا مزے سے ہینڈل پر بیٹھا ہوا ہے اور تیسرا پیچھے سے سائیکل کو دھکیل رہا ہے۔ آسمان پر غروب ہوتا ہوا سورج آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ 2017ء کا آخری سورج۔ میں نے تصویر دیکھی تو سوچا کہ ہماری قوم بھی تین طبقوں میں تقسیم ہے۔ایک وہ جو سائیکل چلا رہے ہیں‘ دوسرے وہ جو بیٹھے مفت کی سیر کر رہے ہیں اور تیسرے وہ جو محنت کش ہیں اور اسے پیچھے سے دھکیل رہے ہیں۔ میں نے ہاتھ اُٹھائے اور دُعا مانگی کہ اس ملکِ خداداد کی سائیکل ترقی اور خوشحالی‘ امن و انصاف اور قانون کی حکمرانی کی منزل کی طرف بڑھتی جائے۔ افتاں و خیزاں یعنی گرتی پڑتی مگر ہمیشہ آگے کی طرف بڑھے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں