? Pocahontas

امریکہ بلاشبہ دُنیا کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہے مگر وہ 16 سالوں سے دُنیا کے غریب ترین ملک (افغانستان) کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے اور یقینا رہے گا۔ سوا سال ہونے کو ہے‘ جب امریکی عوام نے ہیلری کلنٹن سے اپنی شدید ناپسندیدگی کا اظہار یوں کیا کہ ایک بے حد امیر کبیر مگر بے حد بدتمیز اور بے لحاظ، منہ پھٹ اور کندہ ناتراش (آپ کو اجازت ہے کہ اس طرح کے مزید اسم ہائے صفات کا اپنی طرف سے اضافہ کر لیں) کو اپنا صدر بنا لیا۔ ساری دُنیا امریکی صدر کا نام (Trump) جانتی ہے مگر آپ چاہے جتنے بھی تعلیم یافتہ ہوں آپ موصوف کی بہت سی بے ہودہ باتوں اور نازیبا جملوں میں استعمال ہونے والے الفاظ کا مطلب نہیں جانتے۔ یہ کالم نگار اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے کہ آپ کو اُن کا مطلب بتائے۔
میں صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کروں تو مناسب ہو گا۔ 8 مارچ کو دُنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا تاکہ اُن کے حقوق کی حفاظت کے لئے لڑی جانے والی اورخصوصاً اُنہیں مردوں کے مساوی حقوق دلوانے والی جنگ کو وہ توجہ دی جا سکے‘ جس کی وہ بجا طور پر حقدار ہے۔ اس تاریخی دن امریکی کانگریس (پارلیمان کے ایوان بالا) کی بڑی ممتاز اور بے حد قابل صد احترام خاتون رُکن Elizabeth Warren نے خواتین کے ایک بڑے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح ایک بڑی اچھی تقریر کی اور امریکی صدر کی انسان دُشمنی اور نسل پرستی کی جی بھر کر مذمت کی۔ کوئی مہذب شخص ہوتا تو وہ خاموش رہتا اور تنہائی میں غور کرتا کہ اگر اتنی سیانی خاتون اُس پر تقریری لاٹھی چارج کر رہی ہے تو اُس کی کڑی تنقید میں یقینا کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہو گی اور کتنا اچھا ہو کہ میں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینا شروع کر دوں اور پہلے کے مقابلہ میں زیادہ بہتر شخص بن جانے کی طرف قدم بڑھائوں مگر موجودہ امریکی صدر (ٹرمپ) سے اس رویہ کی اُمید رکھنا عبث ہے۔ ایسا کرنے کے لئے احمقوں کی جنت میں مستقل قیام کا بندوبست کرنا ضروری ہو گا۔ ٹرمپ نے مذکورہ بالا خاتون کے لئے جو نام (بطور اسم صفت) استعمال کیا‘ وہ تھا Pocahantas۔ یہ پڑھ کر میں نے ضروری سمجھا کہ پتا کروں کہ اس لفظ کا معنی اور مطلب کیا ہے۔ میری لائبریری میں دُنیا کے تمام جانے پہچانے انسائیکلو پیڈیا موجود ہیں۔ میں نے Britannica کو زحمت دیئے بغیر Longman سے رجوع کیا۔ امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی پریس کا 1990ء میں شائع کردہ تیسرا ایڈیشن صفحہ نمبر 840۔ بائیں ہاتھ کے پہلے کالم میں گیارہویں نمبر پر مذکورہ بالا لفظ لکھا نظر آیا۔ یہ امریکی ریاست Virgina میں ریڈانڈین قبیلہ Powhatan کے سردار کی بیٹی کا نام تھا جو 1595ء میں پیدا ہوئی اور صرف21 سال کی عمر میں 1617ء میں وفات پا گئی۔ اُس نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ایک امریکی سفید فام فوجی افسر (کیپٹن جان سمتھ) کی جان بچائی ورنہ اُس کے قبیلہ کے افراد پر مشتمل جرگہ نے اُسے موت کی سزا سنائی تھی اور اُس سزا پر عمل درآمد ہونے میں چند لمحات رہ گئے تھے۔ جب اس بچی نے جان بخشی کے لئے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی اور وہ بھی اتنے پُراثر انداز میں (کاش کہ میرے جیسا ناکام وکیل اس کی برابری کا دعویٰ کر سکتا) کہ جرگہ نے (اپنی صدیوں پرانی روایت کے برعکس) اپنا فیصلہ بدل دیا۔ اس شاندار کامیابی سے نوجوان خاتون کا حوصلہ اتنا بڑھا کہ وہ مذکرات کرنے سفید فام آباد کاروں کی James Town نامی بستی پہنچ گئی‘ جہاں وہ یرغمال بنا لی گئی۔ اُسے قید کرنے والوں کا مطالبہ یہ تھا کہ لڑکی کا باپ اپنے انگریز قیدی رہا کرے گا تو ہی اس ریڈ انڈین لڑکی کو اپنے گھر واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔ قید کے دوران اس بچی نے دو کام کئے۔ ایک تو یہ کہ اُس نے مسیحی مذہب اختیار کر لیا اور دوسرا یہ کہ ایک سفید فام آباد کار (John Rolfe) سے شادی کر لی۔ یہ شادی نہ صرف موصوفہ کے لئے خانہ آبادی کا باعث بنی بلکہ مقامی باشندوں (ریڈ انڈین نسل کے قبائل) اور سفید فام آباد کاروں کے درمیان آٹھ سال تک امن و امان کے قیام کا بھی۔ 1616ء میں یہ نوجوان خاتون اپنے خاوند کے ساتھ انگلستان آگئی جہاں مقامی آبادی (انگریزوں) نے اُسے شہزادی تسلیم کرتے ہوئے اس کا بڑا پُرجوش استقبال کیا۔ انگلستان میں رہائش اختیار کرنے کے صرف ایک سال بعد اُسے اپنے آبائی وطن اور اپنے ریڈ انڈین قبیلہ کی یاد نے اس حد تک ستایا کہ وہ امریکہ جانے والے ایک بحری جہاز پر سوار ہو کر اپنے میکہ والوں سے ملاقات کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے واپسی کا سفر کرنے لگی۔ بدقسمتی سے وہ سفر کے دوران اتنی بیمار ہوئی کہ وفا ت پا گئی۔ بحری جہاز انگلستان کے ساحلوں سے زیادہ دُور نہ گیا تھا اس لئے Pocahontus کی وصیت کے مطابق اُس کے جسدِ خاکی کو برطانیہ لانے میں مشکل پیش نہ آئی۔ وہ جنوب مشرقی لندن کے مضافات میں Gravesend کے مقام پر دفن کی گئی۔ جہاں آج بھی اُس کی یاد میں بنائی جانے والی یاد گار کو‘ دُور دُور سے سیاح دیکھنے اور احتراماً پھول رکھنے آتے ہیں۔ مذکورہ بالا شہر میرے گھر سے اتنا قریب ہے کہ میں وہاں کار پر سفر کرتے ہوئے 20/25 منٹ میں پہنچ سکتا ہوں۔ ماہِ اپریل میں موسم بہار آئے گا تو یہ کالم نگار وہاں جائے گا تاکہ وہ بھی یاد گار پر پھول رکھنے والوں میں شامل ہو سکے۔ امریکہ ہو یا آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ‘ سفید فام آباد کاروں نے تشدد اور بدترین بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقامی آبادی کو اس حد تک تباہ و برباد اور نیست و نابود کیا کہ اُس کا وجود ختم ہوتے ہوتے صفر کے قریب پہنچ گیا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سندھ میں رہنے والے ہندو قبائل اور چترال کی برف پوش وادیوں میں رہنے والے غیر مسلم کلاش قبائل پر بھی ریاستی جبر کا Bulldozer چلا کر اُنہیں بزورِ شمشیر دائرہ اسلام میں داخل کر دیں۔ (بلکہ زور سے دھکیل دیں)۔ چترال کا ذکر چھڑ گیا تو اجازت دیجئے کہ میں اپنے قارئین کو بتائوں کہ وہاں کی مقامی آبادی (KHO) ایک انڈو‘ یوروپین زبان Khwar بولتی ہے۔ چترال کی ثقافت پر ایرانی موسیقی اور شاعری کا گہرا اثر ہے۔ پولو کا کھیل وہاں کا مقامی (یعنی دیسی) کھیل ہے۔ ستر فیصد آبادی سُنّی عقیدہ کی مسلمان ہے اور تیس فیصد کا تعلق شیعہ مسلک کے اسماعیلی فرقہ سے ہے۔ (جن کے درمیان 1982ء اور 1999ء میں پُر تشدد تصادم ہوئے تھے) چترال کی آبادی کا ایک حصہ پشتو Wakhi، گجری اور فارسی بولنے والوں پر مشمل ہے مگر چترال کے دور دراز علاقوں میں جو چار زبانیں بولی جاتی ہیں‘ اُن کے نام Gawa-Bati, Dameli, Yidgah اور Phalura ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان زبانوں کے بولنے والوں کی اپنی منفرد ثقافت بھی ہو گی۔ کیلاش (کافر) قبیلہ کے افراد کی زبان کا نام Korasha ہے۔ جو چترال کے جنوب میں صرف تین وادیوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اب ہم پاکستان کے شمال سے جنوب کی طرف نظر دڑائیں تو ہمیں وہاں ہندو قبائل نظر آتے ہیں۔ غالباً بھیل اُْن میں سے ایک کا نام ہے جو تھر میں آباد ہیں۔ اسی ثقافتی تنوع نے پاکستان کو بہت سے رنگوں پر مشتمل قوسِ قزح بنا دیا ہے۔ جو اس کی قابل صد افتخار امتیازی خصوصیت ہے۔ حال ہی میں دلت ذات کی ایک ہندو خاتون (کرشنا کماری کوہلی) سینیٹ کی رُکن منتخب ہوئی اور کالم نگار کی طرح سارے پاکستانیوں کا دیارِ مغرب میں سر فخر سے اُونچا ہوا۔ انسانی تہذیب کی عمارت جن ستونوں پر صدیون سے کھڑی ہے‘ اُن میں سب سے توجہ طلب اور غور طلب اقلیتوں کا احترام اور اُن کے جداگانہ تشخص کی حفاظت ہے۔ بقول غالبؔ بت خانہ میں مرنے والا برہمن (جو وفا داری بشرطِ استواری کے معیار پر پورا اُترے) بھی یہ حق رکھتا ہے کہ اُسے کعبہ میں دفن کیا جائے۔ میرے گھر کے قریب امریکہ کے ریڈ انڈین قبیلہ میں پیدا ہونے والی اور پھر انگریزوں کی بہو بن جانے والی لڑکی کی یادگار پر رکھے جانے والے پھولوں سے لے کر قائداعظم کی تقاریر تک‘ سب ہمیں یہی سبق سکھاتے ہیں۔ آئیے! ہم سب اس سبق کو یاد رکھیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں