تذکرہ ایک کتاب کا

کالم نگار اس کتاب کا تذکرہ لکھنے کو تھا کہ اچانک ایک خبر نظروں سے گزری۔ بے حد اچھی خبر۔ دلوںکو خوشی اور خدائے ذوالجلال کے شُکر کے جذبات سے بھر دینے والی خبر۔ تشکر سے سر جھکا دینے والی اور انسانی عقل کی عظمت پر فخر سے سر اُونچا کر دینے والی خبر۔ آنکھوں کی روشنی کو دوچند کر دینے والی خبر‘ جس کا تعلق ہی بینائی سے ہے۔ یہ خبر 20 مارچ کو برطانیہ میں شائع ہونے والے ہر اچھے اخبار میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ خبر یہ ہے کہ سائنس دانوں نے Stem Cells کو استعمال کر کے اندھوں کو بصارت کی وہ نعمت عظمیٰ (جو وہ اپنے بڑھاپے کی وجہ سے کھو بیٹھتے ہیں) لوٹانے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں یہ طریقۂ علاج اتنی آسانی سے دستیاب ہو گا کہ دُنیا بھر میں لاکھوں عمر رسیدہ بوڑھے اپنے اندھے پن کے عذابِ عظیم سے نجات حاصل کر سکیں گے۔ کالم نگار کے دل سے ان کمال کے ذہین سائنس دانوں کے لئے دُعا نکلی۔ مناسب ہو گا کہ اس مرحلہ پر برطانوی حکومت پر تحسین و تعریف کے پھول نچھاور کئے جائیں جس نے یہ قابل صد تعریف فیصلہ کیا ہے کہ وسط مارچ میں وفات پا جانے والے عظیم سائنس دانStephen Hawking کو برطانوی پارلیمنٹ کے قریب برطانیہ کے سب سے اہم اور عالی مقام گرجا گھر Westminster Abbey (جہاں برطانیہ کے بادشاہوں کی تاج پوشی اور تدفین کی جاتی ہے) میں دفن کیا جائے گا۔ برطانیہ کے دو بڑے سائنس دانوں (نیوٹن اور ڈارون) کو بھی سرکاری اعزاز کے ساتھ اسی گرجا گھر میں دفن کیا گیا تھا۔ براہ مہربانی ذرا اس شاہانہ برتائواور اعزاز کا مقابلہ اُس سلوک سے کریں جو ہم نے اپنے ملک کے اُن نامور سائنس دانوں سے کیا (ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند) جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔ مذکورہ بالا دونوں سائنس دان اور ان کے تمام ساتھی (جن کے تعاون کے بغیر یہ کارنامہ سرانجام نہ دیا جا سکتا تھا) ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں۔ ڈاکٹر قدیر کو ٹیلی وژن پر اپنے اُن جرائم کا اعتراف کرنا پڑا جو امریکی حکومت کے لگائے گئے سنگین الزامات کی فوٹو کاپی تھے۔ ہماری قوم آج تک نہیں جانتی کہ وہ قصوروار تھے یا بے قصور؟ غنیمت یہ کہ امریکی مطالبہ کی تعمیل کرتے ہوئے ڈاکٹر قدیر کو امریکہ کے حوالہ نہ کیا گیا ورنہ اُن کی ساری عمر گوانتاناموبے کی عقوبت گاہ میں بدترین تشدد کا نشانہ بنتے گزرتی۔ میرے خیال میں ڈاکٹر قدیر اپنے گھر میں نماز فجر ادا کرنے کے لیے بیدار ہوتے ہوں گے تو غالباً ہمیشہ شکر ادا کرتے ہوں گے کہ وہ مذکورہ بالا عذاب اور ذلت سے بچ گئے۔ اُن کے معاملہ میں جان بچی سو لاکھوں پائے کے الفاظ تو بہت کمزور اور ناکافی لگتے ہیں۔ 
اب ہم واپس چلتے ہیں اُس کتاب کی طرف جو آج کے کالم کا موضوع بنی۔ مصنف کا نام یقینا غیر رواجی ہے۔ گزشتہ 50 سالوں میں، میں نے Isambard کسی انگریز کا نام نہیں سنا۔ پڑھا صرف ایک بار اور وہ تھا مغربی لندن کی Brumell یونیورسٹی کے ایک ستون پر‘ جہاں نہ صرف یہ نام بلکہ انیسویں صدی کے ایک موجد اور ماہر و تعمیرات کے کارناموں کا خلاصہ بھی پتھر پر کندہ تھا۔ پورا نام ہے Isambard Wilkinsonنام کا دوسرا حصہ خالص برطانوی ہے۔ فاضل مصنف نے پاکستان پر کتاب لکھی تو اس کا نام عجیب و غریب رکھا۔ Travels in a Dervish Cloak (درویش کا چغہ پہن کر کئے جانے والے سفر کی داستان)۔ مصنف کا ہماری سر زمین سے بڑا پرانا رشتہ ہے۔ پاکستان اُس کے لئے ہرگز ایک اجنبی ملک نہ تھا۔ اُس کی دادی ہندوستان میں رہتی تھیں‘ اُن کی لاہور میں رہنے والی ایک ٹھسے دار بیگم کے ساتھ گہری دوستی تھی۔ مصنف کا بچپن اپنی دادی کے البم میں لاہور کی تصاویر دیکھتے گزرا۔ ایک دن خوابوں کی تعبیر دیکھنے کا وقت آگیا۔ وہ پاکستان اتنی بار آیا کہ اُسے گنتی یاد نہیں رہی۔ پہلے بطور سیاح اور پھر 2006ء میں برطانیہ کے ایک بڑے اخبار (ٹیلیگراف) کے نامہ نگار کے طور پر پاکستان آیا اور پھر یہاں رہنے کے بعد مصنف نے ملک کے طول و عرض کا سفر کر کے یہاں کا چپہ چپہ دیکھا اور وہ بھی چاہت، گرم جوشی اور محبت بھری نظروں سے۔ افسوس کہ مصنف تعلیمی میدان میں (اس کالم نگار کی طرح ) ہرگز کامیاب نہ ہوا۔ پندرہ برس کی عمر میں بورڈنگ سکول سے نکالا گیا۔ (بدقسمتی سے کالم نگار یہ اعزاز حاصل کرنے میں ناکام رہا) مصنف نے اُن غیر معمولی چیزوں کا بھی ذکر کیا ہے جو عام طور پر غیر ملکیوں کو نظر نہیں آتیں۔ یہ کتاب شگفتہ، دلچسپ اور مضحکہ خیز مشاہدات میں بیان کردہ تذکروں سے مرتب کی گئی ہے۔
مصنف کی بہادری ملاحظہ فرمائیے کہ اُس نے پاکستان کی رُوح (Essence of Pakistan ) کا اپنے الفاظ میں احاطہ کرنے کا چیلنج قبول کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اُس کا حدود اربعہ یوں ہے۔ صوفیا کرام سے جڑی ہوئی روحانیت، خود ساختہ پیر فقیر، دور دراز پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کے غیر مذہبی رسم و رواج، قبائلی سردار اور بڑے جاگیردار۔ مصنف نے یہ تلخ حقیقت بھی بیان کی کہ پاکستان میں رسوم، آداب، روایات، ظاہری دکھاوے اور منافقانہ طرزِ عمل کو سچائی پر فوقیت دی جاتی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ مصنف کی نظر میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مقابلہ میں ماڈرن ہونے کا مریضانہ شوق پاکستان کے تہذیبی ورثہ کے لئے زیادہ مضر اور خطرناک ہے۔ مصنف کی جرأت قابلِ داد ہے کہ وہ خیبر ایجنسی میں رہنے والے دہشت گردوں کا اتنا قریبی دوست بن گیا کہ وہ اُن کے ساتھ جا کر رہنے لگا جہاں نشہ آور ڈرگز، شراب اور فوک موسیقی کی صورت میں اُس کی مہمان نوازی کی گئی۔ چاندنی رات ہوتی تو مہمان اور میزبان مدہوشی کے عالم میں رقص کرتے۔ مصنف آخری اخباری نمائندہ تھا جو نواب اکبر بگٹی کو اُن کی موت سے پہلے بلوچستان کے ایک غار میں جا کر ملا۔آپ کو اس سے اندازہ ہوگیا ہو گا کہ مصنف کا پاکستان میں قیام صرف کھیل کود اور سیر و تفریح میں نہیں گزرا‘ اُس نے اپنے آپ کو ایک اچھا صحافی بھی ثابت کیا۔
اس کتاب کو لکھنے والے نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ 2006ء میں جب اُس نے اپنے اخبار میں اسلام آباد برٹش کلب اور برٹش ہائی کمیشن کے بارے میں ایک ایسا ''اشتعال انگیز‘‘ مضمون لکھا جو بیک وقت طنزیہ اور مزاحیہ تھا تو اسلام آباد میں رہنے والے انگریزوں نے اس کا سماجی بائیکاٹ کر دیا۔ (پنجابی زبان کے محاورہ کے مطابق حقہ پانی بند کر دیا) جس سے پردیس میں رہنے والے انگریزوں کے تحمل اور قوتِ برداشت کا پول کھل گیا۔ مصنف نے زیرِ نظر کتاب میں ایسی بہت سی باتیں لکھی ہیں۔ (اُس کے ناشرین Eland کی جرأت بھی کچھ کم قابلِ داد نہیں) جو یقینا کوئی بھی اخبار شائع کرنے پر تیار نہ ہوتا۔ انگریزی میں اس طرح کی باتوں کو Juicy Details (رس بھری تفصیلات) کہتے ہیں۔ نہ یہ کالم نگار ان باتوں کو دُہرانے کی ہمت رکھتا ہے اور اگر وہ پاسبانِ عقل کو تھوڑی دیر کے لئے تنہا چھوڑ کر اُنہیں لکھ بھی دے تو یقینا میرے فاضل مدیر عقل و فراست کے اتنے بڑے دُشمن نہیں کہ اُنہیں چھاپ کر اپنے آپ کو ایک بڑی سزا کا حقدار بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔
کالم نگار کو مصنف کی اس رائے سے شدید اختلاف ہے کہ پاکستان ایک تاریخی حادثہ کی پیداوار ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک جو ستر سال گزرے ہیں اُس میں سرکاری اور غیر سرکاری پروپیگنڈہ نے عام لوگوں کو قائل کر لیا ہے کہ تحریکِ پاکستان کے صفِ اول کے رہنما راسخ العقیدہ، قدامت پسند اور سنی مسلک پر سختی سے کاربند تھے۔ چہروں پر کالی داڑھی، سر پر سبز رنگ کی پگڑی اور شانے پر زرد رنگ کا بڑا رومال۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی مؤرخین سارے مغلوں کو بھی اسلامی تاریخ کی رسی میں باندھ دیتے ہیں حالانکہ کم از کم تیسرے مغل بادشاہ (اکبر) کا ساری عمر اسلام پر کاربند رہنا کافی مشکوک نظر آتا ہے۔ Wilkinson کی پاکستان میں دلچسپی اس حد تک ہے کہ اسے نفسیات کی زبان میں Obsession کہتے ہیں۔ میں مثال ڈھونڈوں تو مجھے فرانس کے بلند پایہ ادیب اور چوٹی کے ناول نگار Gustave Flaubert ( جناب محمد حسن عسکری نے اُس کے شاہکار ناول کا سُرخ سیاہ کے نام سے اُردو میں کمال کا ترجمہ کیا) کی مصر میں گہری دلچسپی اور اندھی محبت (محبت تو ہوتی ہی اندھی ہے) سے زیادہ موزوں مثال نہیں ملتی۔ بقول فیضؔ صاحب مصنف پاکستان کی ہر گلی پر نثار ہوا اور وہ بھی اس طرح کہ ہرگلی میں سر اُٹھا کر چلا۔ میں اس کے لئے زندہ باد کی دعا نہ مانگوں تو اور کیا کروں؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں