MUNRO

معافی چاہتا ہوں کہ ایک بار پھر کالم کا عنوان انگریزی میں لکھا گیا۔ عُذرِ گناہ یہ ہے کہ Pocahuntas کی طرح یہ بھی ایک نام ہے‘ جسے انگریزی میں لکھنا زیادہ مناسب (اور محفوظ) ہے۔ ماضی قریب میں یہ خبر آئی تو مغربی دُنیا میں صفِ ماتم بچھ گئی کہ سفید رنگت کا آخری گینڈا (Rhino) بھی اس جہانِ فانی سے چل بسا۔ مغربی ممالک میں جنگلی حیات میں گہری دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہے۔ اُنہوں نے اپنی ہچکیوں پر بمشکل قابو پاتے ہوئے دریافت کیا کہ شیر کتنے بچ گئے ہیں؟ جو شیر شکاریوں کی گولیاں برساتی ہوئی بندوقوں کی زد میں ابھی تک نہیں آئے‘ وہ کتنے دن مزید زندہ رہ سکنے میں کامیاب ہوں گے؟ آپ نے یہ محاورہ (خصوصاً بڑی عید کے قریب) ضرور سنا ہوگا کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ لگتا ہے کہ اب جہاں تک خیر منانے یعنی خیر خیریت کی دُعا مانگنے کا تعلق ہے‘ شیروں کی ماں بھی ہمہ وقت دعا مانگنے میں بکرے کی ماں سے کچھ کم مصروف نہ ہو گی۔ اٹھارہویں صدی تک شیروں کا پلڑہ بھاری رہا چونکہ وہ دُنیا بھر میں انسانوں کا شکار کر کے اُنہیں کھا جاتے تھے۔ اٹھارہویں صدی کے بعد آتشیں اسلحہ نے انسانوں کو شیروں کا شکار بن جانے سے بچا لیا اور اب شیروں کی یوں شامت آگئی چونکہ اب وہ اندھا دھندگولیاں چلانے والے ''شیر دل‘‘ انسانوں کا شکار بننے لگے۔ اب جو چند ہزار شیر بچ گئے ہیں‘ وہ بے چارے یا تو چڑیا گھروں کے پنجروں میں بند ہیں یا دُم دبائے کسی تاریک جنگل میں چھپے ہوئے ہیں۔ اتنے خوفزدہ ہیں کہ اکثر خاموش رہتے ہیں۔ مجھے آپ کو یہ ساری کتھا سنانے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ لندن سے شائع ہونے والے ایک ادبی جریدہ میں Colin Munro نے لکھا کہ 1702ء میں ایک انگریزجس کا نام Hector Munro تھا‘ کلکتہ کے پاسSaugor نامی جزیرہ میں شیر کا شکار کھیلنے گیا تو خود شیر کا شکار بن کر ہلاک ہو گیا۔ نام کے دُوسرے لفظ کی مماثلت کے باوجود لکھنے والے Munro کی شیر کا شکار بن جانے والےMunro سے کوئی رشتہ داری نہیں۔ یہ مگر کوئی انوکھا واقعہ ہرگز نہ تھا اور نہ ہی سر زمین بنگال تک محدود تھا۔ برطانیہ میں سفر کرتے ہوئے میں ایک بارMales Bury نامی قصبہ سے گزرا۔ خوبصورت مکانوں اور دُکانوںکی سیر کرتے کرتے میں وہاں کے گرجا گھر کے ملحقہ قبرستان میں جا نکلا‘ جہاں 1703ء میں شیر کے قاتلانہ حملے کا شکار ہو جانے والی ایک نوجوان (غیر محتاط اور یقینا کم عقل) خاتون کی قبر پر لگا ہوا ٹوٹا کتبہ میری توجہ کا مرکز بنا۔ نام تھا Hannah Twynnoy اور کام تھا سرکس کے شیر کی نگہداشت اور خوراک کی فراہمی۔ کچھ عرصہ تو خیریت رہی مگر ایک دن اس لڑکی نے ایسی غلطی کی جس کے مہلک نتائج نکلے۔ وہ چھڑی لے کر شیر کو زچ کرنے لگی۔ اُس نے شیر کو اتنا تنگ اور ناراض کیا کہ وہ غیظ و غضب کے عالم میں پنجرہ کو توڑ کر باہر نکلا اور اس بدنصیب لڑکی کو چیر پھاڑ کر کھا گیا۔ نامہ نگار کوشش کے باوجود یہ معلوم نہ کر سکا کہ شیر کو اس جرم کی سزا دی گئی یا معاف کر دیا گیا۔ Hannah کی قبر پر لگے ہوئے کتبہ پر جو نظم کندہ تھی‘ وہ میں نے ڈائری میں لکھ لی تھی۔ یہ برسوں پرانی بات ہے‘ آج ڈائری ڈھونڈنے لگا تو وہ بمشکل ملی۔ اب آپ یہ نظم (یا مرثیہ) اُسی زبان میں پڑھئے جس میں یہ لکھا گیا:
ٰIN bloom of Life... She's snatched from hence... She had not room... To make defence;... For Tyger fierce...Took Life away.... And here she lies...In a bed of Clay.... Until the Resurrection day.
نظم کالم نگار نے روانی میں تو لکھ دی لیکن اب سوچتا ہوں کہ اپنی ایک دوست خاتون فاطمہ قمر (جو پاکستان میں اُردو کو سرکاری زبان بنوانے کی تحریک میں سرگرم عمل ہیں) سے بھی جان کی امان مانگوں کہ نہ صرف کالم کا عنوان انگریزی میں ہے بلکہ اس میں ایک انگریزی نظم بھی شامل ہے۔ کتنا اچھا ہوکہ آج کا کالم فاطمہ کی نظر سے نہ گزرے۔ یہاں میں فاطمہ کو خوش کرنے کے لئے نہیں بلکہ دیانتداری سے اپنی رائے لکھے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا کہ انگریز کے مقابلہ میں انگریزی زبان کو دیس نکالا دینا کئی درجہ زیادہ مشکل کام ہے۔ 14 اگست کا دن آئے تو ہم سب ایک لمحہ کے لئے ضرور سوچیں کہ آزادی تو ہمیں 70 سال پہلے مل گئی مگر صحیح معنوں میں آزادی حاصل کرنے کے لئے ہمیں جو پاپڑ بیلنا اور جو جتن کرنا ہوں گے‘ وہ جہدوجہد اردو کو سرکاری زبان بنانے سے شروع ہو گی۔ اقبال نے کسی مختلف سیاق و سباق میں لکھا تھا:
کس کی یہ جرأت کہ مسلمان کو ٹوکے
یقینا اُن کا اشارہ ہندی مسلمانوں کی طرف تھا‘ جو پنجاب میں رہتے ہوں تو بیٹی کو وارثت میں حصہ نہیں دیتے، بھارت میں آباد ہوں تو تینوں طلاقیں ایک سانس میں دینے کو عین اسلام سمجھتے ہیں، خواتین کو مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے اور اُن کا قبرستانوں میں داخلہ بھی ممنوع سمجھتے ہیں۔ وہ نہ انصاف کی ابجد جانتے ہیں اور نہ مساوات کی۔ نہ خداوند تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ اُس کے بندوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ آسمانوں پر خوشی کی قوسِ قزح ہے اور نہ زمین پر امن و سکون۔ نہ پھولوں میں خوشبو اور نہ پھلوں میں رس۔ نہ برکت اور نہ فضل و کرم ۔ میں نے Munro کا لفظ لکھا‘ لکھ کر پڑھا تو مجھے ڈیرہ غازی خان کا ایک پہاڑی مقام فورٹ منرو یا دآیا جہاں آج سے بہت سال پہلے (1942ء میں) میں اپنے والدین کے ساتھ تین ماہ رہا۔ میرے والد مرحوم ڈاکٹر تھے اور سول ہسپتال تونسہ شریف کے انچارج تھے۔ انگریز افسروں کی طرح انہیں بھی یہ سہولت دی گئی تھی کہ وہ موسم گرما اس ضلع کے پہاڑی مقام پر گزاریں۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ ایم آر کیانی (جو 1958ء میں سارے مغربی پاکستان کے چیف جسٹس بنے) اُن دنوں سیشن جج تھے اور ہمارے پڑوسی تھے‘ میری والدہ مرحومہ کو وہ اتنے ناپسند تھے کہ وہ نہ کبھی اُن کے گھر گئیں اور نہ اُنہیں گھر بلا کر چائے پلائی۔
میں پاکستان میں رہنے والے تاریخ اور جغرافیہ کے ماہرین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ فورٹ منرو کا نام کس انگریز افسر کے اعزاز میں رکھا گیا۔ غالباً ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر اپنا سرکاری ریکارڈ دیکھ کر ہمارے علم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ کاش کہ میرے ہمعصر اور پیارے دوست امتیاز جاوید آج زندہ ہوتے (وہ 1974ء میں ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر تھے) تو میں اُن سے رجوع کرتا۔ 
کالم نگار نے تاریخ اور ادب کی کتابوں کو کھنگالا تو میری ملاقات تین لوگوں سے ہوئی جن کے نام کا آخری لفظ (Surname) Munro تھا۔ ایک تھے Hector Munro (1870-1916)سکاٹ لینڈ کے رہنے والے اور اپنے وقت کے مقبول افسانہ نگار جن کا قلمی نام ساقی تھا۔ وہ پہلی جنگ عظیم لڑنے گئے مگر زندہ واپس نہ آئے۔ آج بھی ان کی شگفتہ انداز میں لکھی ہوئی کہانیاں دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں مگر پڑھنے والوں میں سے شاید ہی کسی کو اُن کے قلمی نام (ساقی) کے مفہوم کا پتا ہو۔ دُوسرا Munro اُن کا ہم نام تھا‘ وہ اُنیسویں صدی میں اُس برٹش آرمی میں افسر تھا جس کا کام پہلی جنگ آزادی (1857ئ) کو ناکام بنانا اور ہندوستان کو فتح کرنا تھا۔ John Key کی لکھی گئی ہندوستان کی تاریخ میں اُس کا نام تین بار آیا مگر اِسی مؤرخ نے ایک اور Munro کا ذکر چھ بار کیا۔ اُس کا پہلا نام Thomas تھا۔ وُہ اس لئے قابل تعریف سمجھا گیا کہ اُس نے جنوبی ہندوستان میں کاشتکاروں (Ryots) سے براہ راست مالیہ وصول کرنے کا نظام قائم کیا‘ جو Ryotwari کے نام سے مشہور ہوا۔ میرے ناقص مطالعہ کے مطابق یہ بنگال میں لارڈ کارنوالس کے قائم کردہ مالیہ کی وصولی کے بندوبست دوامی سے ملتا جلتا تھا۔ سنی سنائی بات لکھ کر کالم ختم کرتا ہوں کہ پاکستان میں مالیہ کا موجودہ نظام تقریباً وہی ہے جو مغل بادشاہ اکبر کی کابینہ کے ایک رُکن راجہ ٹوڈرمل نے وضع کیا تھا۔ کیا یہ درست ہے؟ یہ درست ہو یا نہ ہو‘ ہمارے موجودہ نظام کے فرسودہ، سو فیصد بیکار اور عوام دشمن ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ ہم جس گاڑی کے ڈرائیور کی تلاش میںسرگرداں ہیں‘ اُس کا انجن ہی گل سڑ چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں