فرانس اور بیلجیئم سے آنے والی خبریں

آج کے کالم کے موضوع پر لکھنے سے پہلے میں دو صاحب علم دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ کیلی فورنیا سے کریم نواز بلوچ صاحب اور لاہور سے بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اختر صاحب نے میرے علم میں اضافہ کر کے مجھے بتایا کہ Robert Groves Sandeman نے اُنیسویں صدی کے آخر میں کرنلCol.Munro کی یاد میں ڈیرہ غازی خان کے ایک پہاڑی مقام کو Fort Munro کا نام دیا۔ موصوف ڈیرہ جات کے کمشنر رہ چکے تھے جو ڈیرہ غازی، ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ بگٹی کے اضلاع پر مشتمل ڈویژن تھا۔ آپ جانتے ہوں گے کہ غالباً بلوچستان میں فورٹ سنڈیمن نامی شہر بھی ہے۔ میرے پاس پاکستان کی بہترین اٹلس ہے۔ (سروے آف پاکستان کی شائع کردہ) مگر افسوس کہ میں کوشش کے باوجود اسے نقشے پر ڈھونڈ نہیں سکا۔ میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ میں اپنے مذکورہ بالا دوستوں سے درخواست کروں کہ وہ مجھے نہ صرف یہ بتائیں کہ سنڈیمن کون تھا بلکہ اُس کے نام پر رکھی ہوئی بستی کہاں ہے؟
فورٹ سنڈیمن کی تلاش میں مجھے پتہ چلا کہ پاکستان میں تین اور مقامات کا نام بھی فورٹ سے شروع ہوتا ہے۔ فورٹ عباس۔ فورٹBara اور فورٹ Lock Hunt ۔ اوّل الذکر تو بہاول پور ڈویژن میں ہے مگر میں نہیں جانتا کہ موخر الذکر دو کہاں ہیں اور اُن کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اب میں کبھی کیلی فورنیا کی طرف اور کبھی لاہور کی طرف دیکھتا ہوں۔ 
فرانس اپریل کے پہلے ہفتے میں اُسی طرح ہڑتالوں سے مفلوج اور معطل رہا جس طرح سال کے پہلے تین ماہ میں برفباری کی وجہ سے۔ اپریل کا مہینہ چڑھا توریلوے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے دوسرے شہروں کے محنت کشوں کا پارہ بھی چڑھ گیا۔ وہ حکومت فرانس کی عائد کردہ مجوزہ اصلاحات کو سخت ناپسند کرتے ہیں ۔ہزاروں کارکنوں نے اپنی ناپسندیدگی کے موثر اظہار کے لئے ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ میں پیرس جانا چاہتا تھامگر اس پہیہ جام ہڑتال کی خبر سن کر یہ ارادہ ملتوی کر دیا۔ یقینا میری طرح ان گنت مسافروں نے بھی یہی فیصلہ کیا ہوگا۔ نیا سال فرانس کے سابق صدر Sarkozy کے لئے خوشی کی بجائے عذاب اور مصیبت (اور وہ بھی بہت بڑی مصیبت) لایا۔ پولیس نے اُنہیں اس جرم میں گرفتار کر کے اُن کا چالان عدالت میں پیش کیا کہ اُنہوں نے اپنی صدارتی انتخابی مہم کو شان و شوکت اور دھوم دھام سے چلانے کے لئے لبیا کے سابق حکمران قذافی سے کروڑوں ڈالرزکا عطیہ وصول کیا تھا۔ ابھی Sarkozy کی خبر کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ جنوبی افریقہ ،جنوبی کوریا اور برازیل سے اطلاع موصول ہوئی کہ ان تینوں ممالک کے سابق صدور کو کرپشن کے الزامات ثابت ہو جانے پر قید کی سزائیں مل چکی ہیں یا ملنے والی ہیں اور آخری گنتی کے مطابق کل چار صدور جیل کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ فرانس کے ریلوے ملازمین کی پہیہ جام ہڑتال کا تذکرہ یہ بتائے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا کہ اب وہاں کی دس یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء اور طالبات نے بھی دھرنے دے کر وہاں کی زندگی غیر فعال بنا دی ہے۔ وہ اپنی جگہ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ چونکہ وہ فرانس کے نئے صدر (Macron) کی تجویز کردہ تعلیمی اصلاحات کے سخت مخالف ہیں۔ یقینا نئے صدر نے جو تجاویز پیش کی ہوں گی وہ نیک نیتی اور دیانتداری پر مبنی ہوں گی مگر انگریزی زبان کے ایک محاورے کے مطابق جہنم کو جانے والا راستہ جن اینٹوں سے بنایا جاتا ہے وہ نیک نیتی سے گوندھی جاتی ہیں۔ اب ہم مغربی یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک بلجیئم چلتے ہیں جہاں آج سے ساٹھ سال پہلے ایک بڑی چکا چوند کر دینے والی عالیشان اور زرق برق قسم کی عالمی نمائش کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد افریقہ اور ایشیا کے درجنوں ممالک پر یورپی ممالک کے قبضے کی عہد ساز داستان کو بیان کرنا اور وہاں رونما ہونے والی بڑی بڑی تبدیلیوں کو دکھانا اور مقامی (سفید فام) آبادی پر آبادکاروں کے کارناموں کی دھاک بٹھانا تھا۔ 1958 ء میں بلجیئم وسطی افریقہ کے جس ملک کانگو پرنوآبادیاتی قبضے کی بدولت حکومت کرتا تھا وہ بلجیئم سے 80 گنا بڑا تھا۔ (برطانیہ اور ہندوستان کا موازنہ کیا جائے تو اِسی قسم کا تناسب سامنے آئے گا۔) اس نمائش کے ایک حصے میں انسانی چڑیا گھر بنایا گیا تھاجہاں کانگو کے سیاہ فام مردوں، عورتوں اور بچوں کو اُن کے دیسی اور روایتی لباس میں دیکھا جا سکتا تھا۔ اس نمائش کو تیرہ لاکھ لوگوں (بلجیئم کی کل آبادی کا ایک تہائی) نے اُسی ذوق و شوق اور تجسس سے دیکھا جس کا مظاہرہ اس سے پہلے لندن ِ OSLO (ناروے) اور Hamburg (جرمنی) میں ہونے والی نمائشوں میں وہاں کی مقامی سفید فام آبادی کر چکی تھی۔ بھلا امریکہ اس کارخیر میں بھرپور حصہ کیوں نہ لیتا؟ 1906 ء میں نیویارک کے چڑیا گھر میں کانگو سے پکڑ کر لائے گئے ایک نوجوان (جو اپنے بڑے بڑے تیز دھار دانتوں کی بدولت دُور سے پہچانا جاتا تھا) کو بندروں کے احاطہ میں ایک عرصہ قید میں رکھا گیا۔ 1897 ء میں بلجیئم کے بادشاہ (Leopolda II) کے حکم کے مطابق کانگو سے 267 افراد کو برسلزلایا گیا تھا۔ وہ سارا دن شاہی محل کی جھیل میں چھوٹی کشتی ( Canoe) چلا کر دیکھنے والوں کو محظوظ کرتے تھے۔ موسم گرما کے باوجود درجہ حرارت اتنا کم تھا کہ سات Congolese نمونیا سے ہلاک ہو گئے۔بلجیئم کی طرح برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، اٹلی ، سپین اور پرتگال کی سامراجی اور استعماری حکومتوں نے اپنے سادہ لوح عوام سے اپنے شب و روز کئے جانے والے پروپیگنڈہ کی بدولت یہ جھوٹ منوا لیا کہ سفید فام آباد کاروں نے نیکی کا یہ کام کیا ہے کہ سیاہ فام وحشی اور پسماندہ قبائلی لوگوں کو جدید تہذیب سے متعارف کرایا۔ اُنہیں تعلیم دی۔اُنہیں آداب سکھائے اور مہذب بنایا۔ ہر یورپی آباد کار سامراجی نظام کی بنیاد مذکورہ بالا جھوٹ پراستوار تھی۔ آپ جانتے ہوں گے کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ بیلجئم سے آنے والی ایک اور دلچسپ خبر سن لیں۔ برطانیہ کی طرح یورپ کے چھ اور ممالک (سپین۔ بلجیئم۔ ہالینڈ۔ ڈنمارک۔ ناروے اور سویڈن) کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ وہاں کا نظام حکومت سوفیصدجمہوری ہونے کے باوجود اُن کا سربراہ مملکت آج بھی بادشاہ یا ملکہ ہے۔ ہے نا کمال کی بات؟ لطیفہ یہ ہے کہ تیسری دُنیا میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والے صدر صاحبان ٹھاٹھ باٹھ (ہماری زبان میں پروٹوکول) کے اعتبار سے بادشاہوں کی بھونڈی نقل اُتارتے ہیں اور دُوسری طرف مذکورہ بالا ساتوں ممالک میں تخت پر بیٹھنے اور تاج پہننے والے بڑی سادگی اور انکساری سے اپنی رعایا سے قریبی رشتہ پر مبنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ بلجیئم کے شاہی خاندان کو وہاں کے عوام میں جو مقبولیت حاصل ہے وہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں صدر مملکت کو بھی حاصل نہیں۔ مگر بلجیئم کے جمے جمائے رنگ میں وہاں کے بادشاہ کے چھوٹے بھائی کے قابلِ اعتراض طرزِ زندگی نے بھنگ ڈال دی۔ شاہی خاندان کے اس فرد کی ایسی حرکات منظر عام پر آئیں(آزاد پریس کی وجہ سے) جو اُس کے شاہی منصب کے منافی تھیں تو ارباب اقتدار (عوامی نمائندوں) کے ماتھوں پر کئی شکنیں اُبھریں۔ فیصلہ کیا گیا کہ اس کے سرکاری وظیفہ کو ایک تہائی گھٹا دیا جائے۔ ولی عہد تک یہ برُی خبر پہنچی تو اس نے اپنی فریاد کو ایک عرضداشت کی صورت میں لکھا (اور واقعی بڑے موثر انداز میں لکھا) اور پارلیمنٹ کے سپیکر کو بھیج دیا جس نے اِسے ایوان میں پڑھ کر سنا دیا۔ ولی عہد کی توقع کے برعکس اُس کی فریاد سن کر ایک بھی آنکھ پرنم نہ ہوئی اور اُس کے وظیفہ میں ایک تہائی کمی کا بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اسے کہتے ہیں قانون کی حکمرانی اور سلطانیٔ جمہور ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں