تابخاکِ کاشغر

اقبال نے حرم کی پاسبانی کا خواب دیکھا تو ایک مصرعے میں نیل کے ساحل سے لے کر خاک کاشغر تک کا ہزاروں میل کا فاصلہ تخیل کی ایک ہی جست میں سمیٹ لیا۔ یہ اقبال کا کمال تھا۔ اُنہیں یہ شعر لکھے ایک صدی گزری تو کالم نگار پہلے نیل کے ساحل پر گیا اور (اندازاً 40 سال) بعد ماہ اپریل کے دُوسرے ہفتہ میں خاکِ کاشغر‘ جو چین کی مغربی سرحد پر ہے۔ سرحد کے اُس پار چین کے پڑوسی ملک کا نام ہے کرغستان (Kyrgyzstan)‘ جہاں اس کالم نگار نے پانچ یادگار دن گزارے۔ ہوائی جہاز سات اپریل کی رات کو لندن کی ہیتھرو ایئرپورٹ سے اڑا۔ صبح سویرے ماسکو پہنچا۔ وہاں ہوائی اڈہ پر دو گھنٹے کا وقفہ اور پھر ماسکو سے Bishkek (اس ملک کا دارالحکومت) کی طرف پرواز۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنے میزبان کا شکریہ ادا کر سکوں‘ جنہوں نے اتنی خاطر تواضع کی کہ میرا دل تشکر کے جذبات سے بھر تو سکتا ہے مگر ممکن نہیں کہ اُسے الفاظ میں بیان کر سکے۔
وسط ایشیا کے دوسرے چار ممالک کی طرح کرغستان شروع سے لے کر آخری دن تک سوویت یونین کا حصہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف شاہراہیں بلکہ تعلیمی اور طبی سہولیات بھی بلند معیار کی ہیں۔ قرونِ وسطیٰ کے قبائلی دور میں صدیوں تک غلام رہنے والی خواتین نے اُن رسوم و قیود کو توڑ ڈالا جو ان کی ترقی کے راستہ میں رُکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ کالم نگار نے پاکستانی سفارت خانے میں اپنی حاضری لگوا کر اپنے اس یادگاری سفر کا آغاز کیا۔ Head of Chancery جناب الطاف حسین صاحب اپنائیت اور گرم جوشی سے ملے۔ دو یونیورسٹیوں میں طلباء اور طالبات کو برطانیہ میں قانون کی حکمرانی پر ایک ایک گھنٹہ لیکچر دیا۔ ایک سابق وزیر خارجہ Alikbek-Dzhekshenkulov اور سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب Emil J.Oskon Baev نے شرف ملاقات بخشا۔ ایک سنجیدہ ہفت روزہ Obshest Venniji Reiting کو اپنا انٹرویو ریکارڈ کروایا۔ ایوانِ صنعت و تجارت کے افسروں کے علاوہ چوٹی کے وُکلا سے ملاقات اور تبادلہ ٔ خیال بہت مفید رہا۔ ممتاز وکیل اور ثالثی جج Aibekm Chekoshev اُسی دوستانہ انداز میں ملے جو دُنیا بھر میں پہلوانوں کی خوبی ہوتی ہے۔ میری میزبان خاتون راحت کے والدین ڈاکٹر ہیں۔ اُنہوں نے مجھے نہ صرف برف پوش پہاڑوں کی سیر کرائی بلکہ پانچویں دن میری سواری کا بہترین انتظام کیا اور عمدہ تحائف دے کر مہمان کو اس طرح الوداع کیا کہ اس کالم نگار کو اُس وقت کا بے تابی سے انتظار شروع ہو گیا جب وہ اس شاندار ملک دوبارہ جا کر وہاں کے شاندار لوگوں سے پھر مل سکے گا۔
اُن تمام لوگوں کی اہمیت سے انکار کئے بغیر جن سے Bishkek میں اتنی اچھی ملاقات ہوئی میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے لئے سب سے ناقابل فراموش اور یادگار تجربہ ایک خوبصورت اور پُرشکوہ عقاب سے ملاقات تھی‘ جو کافی دیر تک میرے بازو کو اپنا آشیانہ بنا کر بیٹھا اور میرے ساتھ دوستی کی پتنگیں بڑھائیں۔ موصوف کا نام تھا Karan۔ (مقامی زبان میں اس کا مطلب وہ تمام خوبیاں ہیں جو اقبال کو شاہین میں نظر آتی تھیں)۔ Bishkek کا شہر سردیوں کے موسم کے خاتمہ کے باوجود برف پوش پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا اور یہ دلفریب منظر ناقابل فراموش ہے۔ 
کرغستان میں مجھے یہ بات سب سے زیادہ اچھی لگی کہ اس ملک سے کوئی بھی بن بلایا مہمان حملہ آور بن کر ہندوستان کو لوٹنے یا اُس پر حکومت کرنے نہیں آیا۔ یہ اعزاز کرغستان کی مغربی سرحد پر پھیلی ہوئی فرغانہ وادی (جو ازبکستان کا حصہ ہے) کو حاصل ہے۔ یہ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کا آبائی وطن ہے اور بابر مرتے دم تک اسے (خصوصاً اس کی صاف ہوا اور ٹھنڈے پانی اور اس کے رَس بھرے پھلوں) کو یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتا رہا۔ کرغستان پر سکندر اعظم (یونانی) چنگیز خان (منگول) اور امیر تیمور (ازبک) کی فوجوں نے یلغار کرکے اسے بار بار تاخت و تاراج یعنی تباہ و برباد کیا۔ کرغستان کا ایک جنوبی شہر افغانستان کے ایک مشرقی شہر (جلال آباد) کا ہم نام ہے اور اس کی ایک ہزار سال پرانی گرد آلود سڑک اس لحاظ سے بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ یورپ سے چین جانے والے شاہراہ ریشم اس کی نانی یا دادی تھی۔ پندرہویں صدی سے چین اور یورپ کے درمیان سمندروں کے راستے بحری تجارت شروع ہوئی تو شاہراہ ریشم اور اس کے کنارے بنائی جانے والی سرائیں اور قلعہ بند عمارتیں بھی زیر استعمال نہ رہیں اور آہستہ آہستہ کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں۔ اگرچہ کرغستان میں ہمارے قدیم شہروں (موہنجوداڑو‘ ہڑپہ اور ٹیکسلا) کے ہم عصر شہر کبھی معرض وجود میں نہیں آئے۔ پھر بھی یورپی مورخین کی تحقیق کے مطابق کرغستان کے ایک شہر Ala-Buka سے صرف پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پر Safid-Bulan نامی بستی کے کھنڈرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ جو آج سے ایک ہزار سال پہلے (دسویں‘ گیارہویں صدی میں) وسط ایشیا کی سب سے بارونق بستی تھی۔ ان کھنڈرات میں ایک عمارت آج بھی صحیح سلامت ہے اور وہ ہے شیخ فاضل کا مزار جو ایک پتھریلی چٹان کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ کرغستان کی سرزمین پر نہ صرف بلند و بالا پہاڑوں کے سلسلے ہیں بلکہ ان پر پڑی ہوئی برف سے بہتے ہوئے دریا اور بہت سی چھوٹی بڑی جھیلیں‘ دُنیا بھر میں اخروٹوں کے سب سے بڑے جنگل اور اُفق تک پھیلی ہوئی وادیاں۔ کرغستان کے شمال مشرق اور قازقستان کی سرحد پر جھیل کا نام ہے۔ Issyk Kuz سطح سمندر سے 1609 میٹر بلند۔ لمبائی 111 میل چوڑائی37 میل اوسط گہرائی913 فٹ۔ کل رقبہ 2408 مربع میل ۔ ظاہر ہے کہ اس کا شمار دُنیا کی بڑی جھیلوں میں ہوتا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمہ پر اس ملک کو صدیوں بعد 31 اگست1991ء کو (ایک انگلی ہلائے بغیر) آزادی مل گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 2005ء اور پھر 2010ء میں دو کامیاب عوامی انقلابوں کے باوجود آج بھی نظام حکومت پر دورِ غلامی کی عوام دُشمنی غالب ہے اور کرپشن کا سرطان ختم نہیں کیا جا سکا۔ کوہکن بدل گئے ہیں مگر (بقول اقبال) حیلے وہی پرویزی ہیں۔ سوویت یونین کا اتنا عرصہ حصہ رہنے کا یہ بڑا فائدہ ہوا کہ یہاں تعلیم کی روشنی پھیلی۔ خواتین کو آزادی ملی اور یہ ملک بھی دورِ جدید کی تمام برکتوں سے فیض یاب ہوا مگر بڑے نقصانات یہ ہوئے کہ یہاں کے لوگ اپنی تہذیب‘ اپنی ثقافت‘ اپنی معاشرت اور اپنی ماں بولی سے محروم ہو گئے۔ مساجد کی تعداد اور اُن کے اندر نماز پڑھنے والوں کی تعداد سکڑتے سکڑتے برائے نام رہ گئی۔
پاکستان اور کرغستان کے درمیان قریبی تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کے لوگ کسی دوسرے شخص کو Hello کہنا ہو تو سلام کہتے ہیں اور شکریہ ادا کرنا ہو تو رحمت۔ میں کو ''من‘‘ (جیسے فارسی میں) اور ہمارے محبوب مشروب کو وہاں بھی چائے کہتے ہیں۔ اُردو اور کرغستان کی مقامی زبان میں اتنے لفظ یکساں ہیں یا ملتے جلتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے خوشی بھی۔ 
کرغستان میں ہر سرکاری یونیورسٹی (جن کی کافی تعداد ہے) میں بلند معیار کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے وہاں تعلیم کا ایک متوازی نظام بھی قائم ہے جو تجارتی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے۔ اِن میں سب سے پست معیار وہاں کے غیر سرکاری پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کا ہے۔ ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق پاکستان میں محض میٹرک پاس اور F.Sc. میں فیل ہو جانے والوں کو بھی ان کالجوں میں داخلہ مل جاتا ہے۔ وہاں پانچ چھ سال کی بری بھلی (بلکہ یقینا بری) تعلیم کے بعد جب یہ طلبا پاکستان واپس آتے ہیں تو نیم حکیم ہونے کی وجہ سے مریضوں کے لئے خطرۂ جان بن جاتے ہیں۔ ایک اور غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ایسے اتائی پاکستان میں بھاری رشوت دے کر پاکستان میڈیکل کونسل کا امتحان پاس کر لیتے ہیں اور پاکستان میں بطور ڈاکٹر کام کرنے کا سرٹیفکیٹ (طبی علم کے فقدان کے باوجود) محض رشوت کے بل بوتے پر حاصل کر لیتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ یہ کالم چیف جسٹس صاحب کی نظر سے گزرے تاکہ وہ اس معاملہ کی تحقیق کا حکم دیں اور اگر میرے لکھے ہوئے الزامات درست ہوں تو اس خرابی کی روک تھام کی تدبیر کی جا سکے۔ کرغستان رقبہ کے اعتبار سے سوئٹرزلینڈ سے دو گنا بڑا ملک مگر کل آبادی صرف ساٹھ لاکھ یعنی لاہور سے بھی کم ۔ بہادر‘ جفاکش‘ خوبصورت‘ خوددار اور مہمان نواز لوگوں کا ملک وہاں سے واپسی پر کالم نگار (جو دن میں زیادہ اور رات کو کم خواب دیکھتا ہے) وہاں ہر سال ایک بار جانے کی دعا مانگ رہا ہے۔ قارئین برائے مہربانی مین ضرور کہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں