شرف میں بڑھ کے ثریاّ سے مُشتِ خاکِ اس کی

اقبال کے تیسرے مجموعہ کلام (ضرب کلیم) کی نظم نمبر106 کے دُوسرے شعر کا پہلا مصرع آج کے کالم کا عنوان بنا۔ تین اشعار پر مشتمل مختصر نظم عورت کی تعریف میں لکھی گئی۔ مناسب ہوگا کہ یہ وضاحت کی جائے کہ جب اقبال نے عورت کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تو رنگ و نسل۔ تعلیم۔ سماجی مرتبہ ۔عمر ۔ ازدواجی مقام اور جغرافیائی حُدود اربعہ سے بالاتر ہو کر۔ اقبالؔ کی نظرمیں ہر عورت کی مشتِ خاک کو آسمان کے بلند ترین مقام (ثریا) سے بھی اُونچا مقام حاصل ہے۔ امیر ہو یا غریب۔ تعلیم یافتہ ہو یا اَن پڑھ (نہ صرف کالم نگار بلکہ اقبال کی والدہ مرحومہ کی طرح ) سفید فام یا سیاہ فام یا زرد رُو۔ مشرق میں رہتیء ہو یا مغرب میں ۔ جوان ہو یا عمر رسیدہ۔ وہ خود مکالمات افلاطون نہ بھی لکھ سکے۔ (اگرچہ اُس نے یہ لکھنے کا کارنامہ بھی سرانجام کر دکھایا) تب بھی بقول اقبال اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ:
اس کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطون
اقبال جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ شخض نے تاریخ میں جھانسی کی رانی کی طرح بہت سی خواتین کا تذکرہ ضرور پڑھا ہوگا جنہوں نے انسانی تاریخ میں اتنا بہادرانہ اور عہد ساز کردار ادا کیا کہ Hero کا درجہ حاصل کیا۔ تاریخ کا مطالعہ اپنی جگہ مگر اقبال کی ملاقات تو ترکی میں مصطفی کمال پاشا کی انقلابی قیادت کی ایک اہم رُکن۔ (ادیبہ خانم) سے بھی ہوئی تھی۔اُنہوں نے اقبال سے پوچھا (اس طرح اقبال کو ایک اور اچھی نظم لکھنے کا مواد مل گیا) کہ ہندوستان میں جو لوگ نماز پڑھتے ہیں وہ ترکی میں نمازیوں کی نسبت زیادہ دیر تک سجدہ ریز کیوں رہتے ہیں؟ اقبال نے جو کمال کا جواب دیا وہ آپ کلیات اقبال میں خود پڑھ سکتے ہیں۔ اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔ فرانس کی Madam Curie اقبال کی ہم عصر تھیں۔ جنہوں نے سائنس میں نوبل انعام دو بار حاصل کیا۔(کیمیا اور طبیعات دونوں میں نوبل انعام) ایران کی قرۃ العین طاہرہ سے لے کر برطانیہ کی ملکہ ایلزبیتھ اوّل تک ۔ ہمیں ساری انسانی تاریخ میں اَن گنت بہادرانہ اور بلند ہمت خواتین کا کردار جگمگاتا ہوا نظر آتا ہے۔ گھریلو سطح پر ماںیا بہن یا بیٹی یا بیوی کے رُوپ میں۔ جو اُن کی عظمت کو اور بڑھاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اقبال کی مذکورہ بالا نظم کے پہلے شعر کا دُوسرا مصرع ہر عورت کے مقام کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
اِسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دُروں
دُنیا بھر میں جتنے بھی معاشرے پسماندہ ہیں۔ جاہل ہیں۔ فرسودہ رسوم و قیود کے گہرے اندھیروں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ اُن میں انفرادی برُائیاں کئی ایک ہوں گی مگر ایک قدر مشترک ضرور ہوگی اور وُہ ہے عورتوں کی مساوی حقوق سے محرومی۔ عورتوں کے ہاتھوں پر زنجیریں۔پائوں میں بیڑیاں۔ زبانوں پر تالے۔ آنکھوں پر پردے اور کانوں میں روئی کے تہہ در تہہ پھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا بھر میں جہاں بھی سماجی انقلاب آیا۔ ڈیڑھ ہزار برس پہلے(اسلام کی صورت میں) سرزمین حجاز میں۔ رُوس۔چین۔ ویت نام اور وسط ایشیا میں اشتراکی انقلاب کی صورت میں۔ ہندوستان اور بہت سے افریقی ممالک میں (برطانوی راج کی بدولت)۔ عورتوں کو غلامی سے نجات ملی ۔ تعلیم اور ملازمت کے حصول کے مواقع ملے۔ صدیوں پرانی زنگ آلود ہتھکڑیاں اور بیڑیاں بتدریج ٹوٹتی گئیں۔ انصاف اور مساوات کی منزل (جو ابھی بھی ہزاروں کوس دُور ہے) کی طرف جانے والی شاہراہ کے راستہ میں کوئی کہکشاں نہیں۔ صرف سنگ گراں ہیں اور وہ بھی بے شمار۔
دو سال پہلے لندن میں حسب معمول بوندا باندی ہو رہی تھی۔ عورتوں کے بین الاقوامی دن پر ہر حلیہ اور ہر عمر کی خواتین لندن کی سڑکوں پر ایک لمبی دوڑ (Marathon Race) میں حصہ لے رہی تھیں۔ اُن میں ایک گمنام خاتون کا نام Caroline تھا۔ وہ برطانوی پارلیمان کے سامنے والے چوک سے بھاگتے ہوئے گزریں تو اُنہوں نے دیکھا کہ پارلیمنٹ سکوائر میں جن نامو ر لوگوں کے مجسمے نصب ہیں وہ سب کے سب مرد ہیں۔ ڈیزائریلی۔ چرچل۔ پالمرسٹن۔ گاندھی۔ کیننگKenning۔ ڈربی۔ Smuts ۔ لنکن۔ منڈیلا۔ Peel اور لائڈ جارج۔ کیرلائن نے تحریک چلائی اور Millicent Fawcett کے نام اور کام کو زدندہ جاوید بنانے کے لئے اُن کا مجسمہ بھی وہاں نصب کیا جائے۔ یہ تحریک کامیاب رہی اور 24 اپریل کو پارلیمنٹ سکوائر میں بارہویں مجسمہ کا اضافہ کر دیا گیا۔ مذکورہ بالا فرشتہ صفت خاتون۔ نہ صرف عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دلانے کی تحریک کے ہر او ل دستہ میں شامل تھیں بلکہ اُنہوں نے تعلیم نسواں کی فراہمی۔ طوائفوں کے حقوق کی حفاظت اور جنوبی افریقہ میں Boer War کے بعد بنائے جانے والے عقوبت گاہوں (Concentration Camps) کے خاتمے جیسے بڑے نازک اور اشتعال انگیز مسائل پر رائے عامہ کو اپنے موقف کا حامی بنانے کے لئے عمر بھر جدوجہد کی اوربہت سی سختیاں خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ آٹھ فٹ چار انچ بلند تانبہ کا بنا ہوا شاندار مجسمہ۔ وکٹورین دور کا روایتی لباس (ٹخنوں تک لمبا سکرٹ) اور ہاتھوں میں پانچ الفاظ پر مشتمل انقلابی الفاظ کا پرچم Courage Calls To Courage Every Where یہ وہ الفاظ ہیں جو موصوفہ نے خواتین کی مساویانہ حقوق کے لئے تحریک کی راہنماEmily Darison کے جنازہ پر اپنی تعزیتی تقریرمیں ادا کئے ۔Emily اُن خواتین میں شامل تھی۔ جو 1913 ء میں ہونے والی Epsom میں مشہور گھڑ دوڑ میں بطور احتجاج دوڑتے ہوئے گھوڑوں کے آگے گر پڑیں۔ Emily اُس وقت کے بادشاہ (جارج پنجم) کے گھوڑے کے نیچے آکر ہلاک ہوئی اور برطانوی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ مجسمہ جس چوکور بلاک پر نصب کیا گیا ۔ اُس پر خواتین کو ووٹ کا حق دلانے والی تحریک میں حصہ لینے والی 55 خواتین (اور چار مردوں) کے چہروں کے نقوش بھی کندہ کئے گئے ہیں۔کالم نگار معذرت خواہے کہ اُس نے اپنے قارئین کو 27 اکتوبر2017 ء کو برطانیہ کے موقر روزنامہ میں سارے صفحہ پر شائع ہونے والے مضمون کے بارے میں پہلے نہیں بتایا۔ جو پاکستان میں ظلم و تشدد (بالخصوص تیزاب کے حملوں) کا نشانہ بننے والی خواتین اور سوشل میڈیا میں اُن کے دفاع میں چلائی جانے والی بے حد قابل تعریف تحریکوں کے بارے میں تھا۔ اس مضمون میں تین خواتین (سارہ گل۔ ثمن علی۔ خدیجہ صدیقی) کی آپ بیتی بطور مثال پیش کی گئی تھی۔ خدیجہ کی قانونی معاونت کرنے والے نوجوان وکیل حسن نیازی کی تعریف کے ساتھ گارڈین نے اُن سب لوگوں کی خدمات کو سراہا۔ جو پاکستان میں ستم زدہ اور بے یارو مددگار خواتین کے دفاع میں آواز بلند کرتے ہیں۔ آج کا کالم ختم کرنے سے پہلے میں کالم نگار اور ایک محترم ساتھی اپنے چار قارئین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ کالم نگار ہیں۔ کٹہرا کے نام سے کالم لکھنے والے جناب خالد مسعود صاحب اور قارئین ہیں۔ فرقان صاحب ۔حسیب عارف صاحب۔ سرگودھا کے حسن کاظمی صاحب اور کینڈا کے محمد قیصر نیازی صاحب جنہوں نے میرے علم میں اضافہ کرتے ہوئے مجھے چار نئی باتیں بتائیں۔ اوّل فورٹ سنڈیمن کا نیا اور اسلامی نام ژوب ہے۔ دوم۔پہلے ژوب کا نامAppazai تھا (جو اس کے ایک پڑوسی گائوں کا نام تھا)سوم ۔ژوب وہاں کے مقامی دریا کا بھی نام ہے۔ چہارم۔ ژوب کی شہرت کی وجہ چلغوزے۔ چکور اور مولانا محمد خان شیروانی مرحوم ہیں۔ (افسوس کہ میرا اُن سے غائبانہ تعارف بھی نہیں۔)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں