یورپ کی سردی اور ایمان کی حرارت …(قسط سوم)

آیئے ‘ہم برطانیہ میں تعمیر کی جانے والی سب سے آخری اور تازہ ترین مسجد کو دیکھیں۔ نہ گنبد نہ مینار۔ داخلہ کے دروازہ پر لگا ہوا ہلال کا نشان اور دروازے کے باہر جوتوں کا انبار۔ صرف ان نشانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت (جو ایک عام گھر کی ہے) پڑوسی مکانوں سے یقینا جداگانہ نوعیت کی ہے‘ پھر بھی یہاں نماز پڑھنے والوں کو اس عبادت گاہ کی تلاش میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ جمعہ کے دن یہاں بعد دوپہر باقی دنوں کے مقابلہ میں نمازیوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ شروع میں تو مقامی آبادی کے لئے یہ لوگ (قمیص شلوار پہنے اور پگڑیاں باندھے ہوئے) بڑے تجسس کا باعث تھے ‘مگر اب یہ مرحلہ طے پاچکا ہے۔ یہ مسجد سکاٹ لینڈ کے ساحل کے قریب ایک چھوٹا سے جزیرہ میں ہے‘ جس کا نام ہے Isle of Lewis ‘کل آبادی 21 ہزار ہے۔ بروقت چلنے والی تند وتیز برفیلی ہوائیں بھی اس جزیرہ میں رہنے والے صرف 60مسلمانوں کے ایمان کی حرارت پر غالب نہیں آسکیں۔ یہ جزیرہ برطانیہ کا روایتی موٹا اُونی کپڑا (Tweed) قدیم کھڈیوں پر کات کر برآمد کرتا ہے۔ نمازی صرف 60‘ مگر وہ برفانی اور ہمہ وقت ناراض رہنے والے سمندر سے 3408 میل دُور مشرق کی طرف قبلہ رُو ہو کر عبادت کا فرض باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ لندن سے ڈھائی سو میل دُور شمال میں یارک شائر کی کائونٹی کے شہر Leeds میں رہنے والے ایک کاروباری شخص احتشام رشید نے برس ہا برس اس مسجد کے لئے چندہ اکٹھا کیا اور یقینا ثوابِ دارین بھی کمایا۔ 
برطانیہ میں مسلمانوں کی کل آبادی 2.8 ملین (26 لاکھ) ہے۔ (برطانیہ کی کل آبادی چھ کروڑ ہے) مسلمانوں کی زیادہ آبادی تین بڑے شہروں میں رہتی ہے۔ لندن برمنگھم اور بریڈ فورڈ۔ جب برطانیہ میں آخری مردم شماری ہوئی تو کُل گیارہ ہزار Parishes میں 4781 ایسے تھے‘ جہاں ایک بھی شخص نے مذہب کے خانہ میں اسلام نہ لکھا۔ شاید آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں کہ Parish 1130 ایسے تھے‘ جہاں صرف ایک مسلمان رہتا تھا۔ یارک شائر کے شہر بریڈ فورڈ (لیڈز کا جڑاواں شہر) کی آبادی کا ایک چوتھائی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ حیرت کا دوسرا مقام یہ ہے کہ 1960ء تک وہاں ایک بھی مسجد نہ تھی۔ اب سارے ملک میں اُن کی تعداد بڑھتے بڑھتے 2000 تک جا پہنچی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جب دور دراز برطانوی جزیرہScilly Isle میں مردم شماری کی گئی‘ تو وہاں تین مسلمانوں کی موجودگی کا پتہ چلا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں برطانیہ میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے باشندوں کی نقل مکانی (اور ترکِ وطن) کا سلسلہ شروع ہوا تو اُنہوں نے ساحلی شہروں کے Dock Yards اور لنکا شائر میں کپڑا بننے والے کارخانوں کی وجہ سے اِن شہروں کا رُخ کیا۔ برطانیہ کے چپہ چپہ میں جو ریستوران انڈین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘اُن کی بڑی اکثریت بنگلہ دیشی مسلمان چلاتے ہیں۔ مذکورہ بالا سکائش جزیرہ میں آنے والے پہلے مسلمان کا نام ہے‘ محمد بوٹا۔ جو یہاں کم عمری میں 65 سال پہلے آیا۔ وہ ایک سوٹ کیس میں رکھے ہوئے کپڑے گلی گلی پھر کر فروخت کرتا تھا۔ اُس کے بھتیجے (نذیر احمد) نے اتنی رقم جمع کر لی کہ اپنی دکان کھول سکے۔ اب اُس کا کاروبار اتنا پھیل گیا ہے کہ اس کے ملازمین کی تعداد سو سے بڑھ چکی ہے۔ دیہاتی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں میں ڈاکٹروں کا نمایاں مقام ہے۔ شام سے جان بچا کر بھاگ کر برطانیہ آنے والے مہاجرین کو حکومت نے دیہات میں آباد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1sle of Lewis بھی چھ شامی خاندانوں کا میزبان بنا ہے۔ اس جزیرہ پر رہنے والے مسلمان بچوں کو قرآن پاک عربی میں پڑھنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی سہولت حاصل ہے۔ اس جزیرہ میں حلال گوشت بھی ملناشروع ہو گیا ہے‘ مگر ہر ماہ میں صرف ایک بار گلاسکو سے بحری جہاز آتا ہے۔ برطانیہ میں مساجد کا سب سے ماہرانہ مطالبہ کرنے والے کا نام عبدالعزیز احمد ہے۔ اُن کی تحقیق کے مطابق دیہاتی اور مضافاتی علاقوں میں رہنے والے مسلمانWebsite اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنی مساجد کو آباد رکھنے کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔
میرے قارئین کو غالباًعلم ہوگا کہ برطانوی قانون کے تحت کوئی بھی عبادت گاہ بنانے سے پہلے عملوں کی مقامی حکومت (Borough ) سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ Planning کے قوانین کے تحت اجازت صرف اُسی صورت دی جاتی ہے کہ وہ عبادت گاہ مقامی آبادی کے آرام میں مخل نہ ہو اور معمولات زندگی کو درہم برہم نہ کرے۔ برطانوی ہفت روزہ اکانومسٹ کا نامہ نگار جب Isle of Lewis کی مسجد پہنچا ‘تو اُس نے یہ مناظر دیکھے کہ وردی میں ملبوس خاتون پولیس آفیسر (برطانیہ میں پولیس کے سپاہی کو بھی افسر کہتے ہیں) آلو گوشت کھا رہی تھی۔ ایک غیر مسلم شخض (نمازیوں کی آخری صف میں سر جھکائے کھڑا اپنے انداز کی عبادت کر رہا تھا۔ ایک سوشل ورکر خاتون نے مسجد کو چندہ دینا چاہا جب اُسے کوئی ڈبہ نہ ملا تو اُس نے ایک نمازی کے ہاتھ میں چھ پائونڈ تھما دیئے۔ ایک زمانہ میں اس جزیرہ کے لوگ اتنے راسخ العقیدہ مسیحی تھے کہ وہ اتوار کے دن گلاسکو کی طرف بحری جہازوں کے سفر کرنے کے بھی مخالفت کرتے تھے اور آج وہ اتنے روادار اور بقائے باہم کے حامی ہو گئے ہیں کہ اپنے جزیرہ میں بننے والی نئی مسجدپر بھی اعتراض نہیں کرتے۔ اسے (بقول اقبالؔ) کہتے ہیں :
ز مانے کے انداز بدلے گے‘ نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
آج کا کالم حال ہی میں شائع ہونے والے چار کمال کی کتابوں کے تذکرہ کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا ‘جو مغربی دُنیا میں چوٹی کے چار علماء (افسوس کہ اُن میں سے ایک بھی مسلمان نہیں) قرآن پاک کے نفس مضمون کے بے مثال حُسن اور فصاحت و بلاغت اور پوشیدہ معانی کے موضوع پر لکھی ہیں۔ اُن کی چار دانگ عالم میں دھوم مچ گئی ہے‘ مگر مجھے خدشہ ہے کہ غالباً تمام اسلامی ممالک (خصوصاً اہل پاکستان) اُن کی اشاعت سے بھی بے خبر ہوں گے ۔ اب میں اُن چاروں کتابوں کے نام ۔ مصنفین کے نام بھی لکھ رہا ہوں‘ اگر آپ کے وسائل اجازت دیں‘ تو آپ اُنہیں کسی نہ کسی طریقہ سے حاصل کر کے ضرور پڑھیں اور اپنے ذہن کو جلا بخشیں۔پہلی کتاب ہے:The Koran in English. By Bruce B.Lawrence.دوسریExploring the Quranاز: عبدالحکیم‘ تیسریThe Quran.by Nicolai Sinasاور تیسری The Sanaa Prism.از: عاصمہ ہلالی۔
کتنا اچھا ہو کہ یہ ساری بہترین کتابیں نیشنل بک فائونڈیشن (ناشرین سے اجازت لے کر) پاکستان میں نہ صرف شائع کرے‘ بلکہ اور اچھا ہوگا کہ ان کا اُردوترجمہ شائع کروا کر شائع کیا جائے‘ تاکہ اُنہیں زیادہ ست زیادہ لوگ پڑھ سکیں۔ اگر ہم عالمی معیار کی کتابیں لکھ نہیں سکتے (ہماری توجہ یا تو خود جلد از جلد زیادہ سے زیادہ مال بنانے پر ہے یا قومی سرمایہ کو چوری کرنے والوں کو پکڑنے پر مرکوز ہے) تو کیا یہ مغربی ممالک میں شائع ہونے والی کمال کی کتابوں کا اُردو ترجمہ میں کر کے اپنے نام نہاد تعلیم یافتہ (مگر نیم خواندہ) لوگوں تک بھی نہیں پہنچا سکتے؟ غالبؔ آج کے دور میں زندہ ہوتے تو یقینا ہمیں مخاطب کر کے کہتے :
؎ اے رُو سیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
کالم کے آخر میں پانچ لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ اپنے ساتھی کالم نگار الیاس شاکر کا‘ جنہوں نے زیادہ صوبے بنانے اور اقتدار کی مرکزیت کو ختم کرنے کے حق میں بہت اچھا مضمون لکھا۔ ایک صحافی (حبیب اکرم) اور ایک وکیل (سعد رسول) کا ‘جن کی درخواست پر انتخابی فارم میں خاموشی سے کی گئی شرمناک تبدیلی منسوخ کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک صاحبہ کا جنہوں نے یہ درخواست منظور کی۔ ڈاکٹر صغرا صدف کا ‘جنہوں نے پنجابی کی سات جلدوں کی لُغت شائع کی۔ چھ ہزار میل سے ان پانچوں کے لئے بے شمار دُعائیں۔
آج کے کالم کو اقبالؔ کے اُس شعر پر ختم کرتا ہوں‘ جو بال جبریل کے صفحہ اوّل پر لکھا ہوا ہے:
اُٹھ کہ خورشید کا ساماں سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں