مرزا جواد بیگ کی یاد میں

70ء کی دہائی کا ذکر ہے‘ سال مجھے یاد نہیں‘ لندن سے شائع ہونے والے ایک اُردو روزنامے میں چھوٹی سی خبر کی اشاعت مجھے کشاں کشاں کراچی لے گئی۔ خبر تھی‘ شہری حکومت کی نئی تحریک کی‘ جس کی روحِ رواں ایک غیر سیاسی اور غیر معروف شخضیت تھی۔ میں نے بمشکل ان کا نام معلوم کیا ‘اور اس سے زیادہ مشکل کام تھا ان کے گھر کا پتہ دریافت کرنا تھا۔ نام تھا: مرزا جواد بیگ۔ وہ کراچی میں متوسط طبقہ کے خوشحال افراد کی ایک بستی میں رہتے تھے۔ نقل مکانی کر کے یورپ چلے آنے اور برطانیہ میں سماجی علوم پڑھنے اور پڑھانے کے بعد مجھے یورپ کی سیاسی ترقی اور سیاسی استحکام کا راز جان لینے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ اس راز کو صرف ایک لفظ میں بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ لفظ انگریزی میں لکھا جائے‘ تو Decentralisation ہوگا۔ اس کا مطلب ہے عدم مرکزیت‘ اور اقتدار و اختیار کو نچلی سطح (جہاں عوام کی رسائی ہو) تک منتقل کرنا۔ اس اصول پر بنائے گئے نظام کو وفاق کہتے ہیں۔ مرکز کے پاس کم از کم اختیارات اور وفاقی وحدتوں (صوبوں یا ریاستوں) کے پاس زیادہ سے زیادہ اختیارات۔ حکومت کی ہر سطح پر عوام کی شرکت‘ شفافیت اور احتساب کی ضمانت‘یعنی نظم و نسق اور فلاح و بہبود کے کام میں بااختیار ادارے عوام کے اتنے قریب ہوں کہ انہیں اپنے گھر کی دہلیز پر نظر آئیں۔ حکومت اور عوام کا وہ قریبی رشتہ ہو‘ جو گھاس کی جڑوں کا زمین سے ہوتا ہے۔ جب کوئی غیر ملکی طاقت کسی بھی ملک پر قابض ہوتی ہے (جس طرح ہندوستان میں برطانوی راج اور اس سے پہلے مغلیہ اور اس سے پہلے سلاطین دہلی) تو سارے اختیارات مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں مرتکز کر دیئے جاتے ہیں۔ یہی ایک عوام دشمن سیاسی نظام کی پہچان ہوتی ہے۔ آزادی کا مطلب صرف حکمرانوں کی جلد کا رنگ بدل جانا نہیں‘ بلکہ اس نئے نظام کا قیام ہے‘ جس میں ہر سطح پر عوام شریک ہوں۔ رعایا پر افسر شاہی حکومت کرتی ہے۔ ایک آزاد ملک میں وہی افسر (چھوٹے اور بڑے افسر) عوام کے خادم ہوتے ہیں۔اب آپ اس معیار کو ذہن میں رکھ کر دیکھیں‘ تو آپ کو ہماری آزادی کا دعویٰ خلاف حقیقت نظر آئے گا۔ اسے بقول فیضؔ: داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر کہتے ہیں۔
عالمی سطح کے روسی ناول نگار ٹالسٹائی کا مشہور قول دہرا دیتا ہوں ‘ ٹالسٹائی نے کہا تھا :اگر جیل کے قیدیوں کو اپنا جیلر اپنے ووٹوں سے چننے کا حق دے دیا جائے‘ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آزاد ہو گئے ہیں۔کالم نگار کی وطن عزیز سے چھ ہزار میل کی دوری‘ نصف صدی سے جلاوطنی‘ وسائل کا فقدان‘ عوامی رابطہ سے محرومی‘ ذوق و شوق کی فراوانی‘ مگر سرو سامان سے رقابت؛چنانچہ شہری حکومتوں کی تحریک کی خوش خبری سنی تو یوں لگا کہ میرے خوابوں کی تعبیر کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔ میں مرزا جواد بیگ کے گھر پہنچا ‘تو وہ مل گئے‘ بڑی دوستانہ ملاقات ہوئی‘ ہم خیالی کی وجہ سے گرم جوشی کا دونوں فریقین نے مظاہرہ کیا‘ مگر بات آگئے نہ بڑھی۔ مرزا صاحب نہ میرے خط کا جواب دیتے تھے اور نہ فون اٹھاتے تھے۔ ایک عرصہ کے بعد خبر ملی کہ اپنی ناکامی سے دل شکستہ ہو کر وہ گمنامی کے مزید اندھیرے گوشے میں چھپ کر کئی سال زندہ رہے اور پھر وفات پاگئے ۔ وقت گزرتا رہا‘ مگر میرے دل و دماغ میں اُن کی یادتازہ رہی۔ دل کڑھتا تھا کہ وہ زندہ تھے‘ تو کسی گنتی میں نہ آتے تھے‘ جب دُنیا سے چلے گئے تو کسی کو خبر نہ ہوئی‘ نہ اخباروں میں ان کا ذکر پڑھا اور نہ ٹیلی ویژن پر تذکرہ سنا۔ان کا خمیر اسی مٹی سے تھا‘ اسی میں مل گیا۔
میں جناب رضا علی عابدی کا مشکور ہوں کہ انہوں ے ایک کتاب کا مختصر ‘مگر بہت جامع اور تعریفی تعارف نامہ لکھا ‘جو اس کتاب کی پشت پر شائع کیا گیا ۔ انشاء پردازی کے لحاظ سے یہ تعارف نامہ 259 صفحات کی کتاب پر بھاری ہے۔ کتاب کا نام ہے ''جو صورت نظر آئی‘‘۔مصنف کا نام ہے‘ فاروق عادل۔ 25 شخصیات کے خاکوں پر مشتمل کتاب میں دوسرے نمبر پر نواب موسیٰ خان کے نواسے مرزا جواد بیگ کا خاکہ پڑھا ‘تو مجھے بہت سی نئی باتوں کا پتہ چلا۔ مناسب ہوگا کہ میں فاروق عادل کا شکریہ ادا کروں کہ انہوں نے ایک بھولی بسری شخصیت کے نام اور کام سے گمنامی کے تہہ در تہہ گردو غبار کو ہٹایا اور ان کے خاکے کو اپنی کتاب کا حصہ بنا کر قارئین کی ایک بڑی تعداد سے متعارف کرایا۔ کتاب کے دو صفحات (30 اور 31 ) میں بتایا گیا ہے کہ 'شہری حکومتوں کے تصور کی پذیرائی وسیع پیمانہ پر ہوئی۔ پاکستان کے پہلے وزیرتعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی‘ پروفیسر اے ۔بی حلیم اور سید حسین امام جیسے سنجیدہ فکر بزرگوں نے بھی مرزا جواد بیگ کا ساتھ دیا۔ کراچی میں دیکھتے ہی دیکھتے شہری حکومتوں کے64 یونٹ قائم ہو گئے‘ ایک بڑے کنونشن کی تیاریاں بھی ہونے لگیں‘ لیکن کنونشن سے صرف ایک روز قبل مرزا صاحب کو گرفتار کر لیا گیا‘ نہ کوئی جرم‘ نہ کوئی الزام‘ نہ کوئی ایف آئی آر۔ان کی گرفتار ی کے ایک روز بعد ایک خصوصی آرڈیننس جاری کیا گیا‘ جس کے تحت ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کردیا گیا اور جسٹس عبدالحئی کی سربراہی میں ایک خصوصی عدالت نے مرزا صاحب کو عمر قید کی سزا سنا دی (محض ایک ٹیکسی ڈرائیور اور ویلڈر کی جھوٹی گواہی پر) دو سال تک ضمانت کی درخواست کی سماعت نہ ہوئی‘ آخر وہ سپریم کورٹ کے حکم پر رہا ہوئے۔
فاروق عادل ایک ذمہ دار شخص ہیں۔ یقینا انہوں نے مندرجہ بالا باتیں بغیر تحقیق کے نہ لکھی ہوں گی‘ مگر میں اپنی حیرت کا اظہار کئے بغیر رہ نہیں سکتا کہ شہری حکومتوں کی بظاہر بے ضرر تجویز سے (اور وہ بھی جسے مرزا جواد بیگ جیسا ایک عام شہری پیش کرے) حکومت وقت کو اتنا بڑا خطرہ کیونکرہو سکتا ہے کہ مرزا صاحب کو سزا (اور وہ بھی عمر قید کی) دلوانے کے لئے ایک آرڈی نینس جاری کر نا پڑے۔ میری رائے میں فوجداری مقدمات کو چلانے کے لئے آرڈی نینس جاری نہیں کئے جاتے۔قانونی موشگافیاں اپنی جگہ ‘مگر مرزا جواد بیگ کو دوسال جیل میں رکھنا (اور وہ بھی ایک سیاسی رائے ظاہر کرنے پر) اپنی جگہ بھٹو صاحب مرحوم کی حکومت کا نا قابل ِمعافی جرم ہے۔
اگر جنرل پرویز مشرف کے جرائم پتھروں کی شکل اختیار کر جائیں تو ممکن ہے ایک اونچا پہاڑ بن جائے‘ مگر دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی حکومت کے ایک روشن کارنامے کی ضرور تعریف کی جانی چاہیے کہ وہ اس کا مستحق ہے‘ وہ کارنامہ ہے مقامی اور شہری حکومتوں کے بااختیار نظام کو معرضِ وجود میں لانا اورڈپٹی کمشنر کے عہدے کو ختم کر کے ضلعی حکومت کو عوامی نمائندوں کے سپرد کرنا۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں جب فوجی آمروں کی حکومتیں ختم ہوں تو مقامی حکومتوں کی صف بھی لپیٹ دی جاتی ہے۔ وہ جمہوری نظام جس میں صرف صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں اور مقامی /شہری اورضلعی حکومتوں کا نام و نشان نہ ہو‘منطقی طور پر اپاہج رہے گا اور بری طرح ناکام ہوگا۔ میں جانے والی حکومت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اور اپنے ساتھی کالم نگار الیاس شاکر صاحب کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ جب ہر ڈویژن کو صوبہ بنا کر اسے تمام اختیارات تفویض کئے جائیں گے‘ تو ہم موجودہ گہری دلدل سے نکلنے کے لئے پہلا بڑا قدم اُٹھائیں گے۔ دورِ غلامی میں بنائے گئے صوبائی اور مرکزی نظام کے تصورات ہمارے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اور پائوں کی بیڑیاں بن گئے ہیں۔ ہم قومی اتفاق رائے سے ان زنجیروں کو توڑ سکتے ہیں۔ بقول اقبالؒ: 
آئین نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں