’’چارٹر 2020ئ‘‘

قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم نے صرف چہرے تبدیل کئے ہیں‘ محض لیبل بدلے ہیں‘ مگر نظام میں انقلاب تو کجا کسی بڑی اصلاح کی طرف بھی ہر گز توجہ نہیں دی گئی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہر قسم کی سطحی اور نمائشی تبدیلیوں کے باوجود ہمارے حالات بہتر ہونے کی بجائے بد سے بدتر ہوتے گئے۔ روشنی اور امید اس وقت تک اندھیروں اور مایوسی کی جگہ نہ لے گی‘ جب تک ہم اپنے نظام حکومت میں بنیادی‘ مثبت اور بامعنی جاندار اور پائیدار تبدیلی نہیں لاتے۔ اس نصب العین کی خاطر برطانیہ میں پاکستان کے دوستوں پر مشتمل بین الاقوامی کمیٹی نے دس نکاتی منشور ترتیب دیا ہے۔ پاکستان کے دوستوں‘ بہی خواہوں اور خدمت گزاروں کے مطالبات کا نام 'چارٹر2020ئ‘ ہے‘ جو مندرجہ ذیل ہے:۔ 
- 1مرکزی حکومت کا دائرہ اختیار‘ دفاع‘ اُمور خارجہ‘ مالیات اور بین الصوبائی رابطہ تک محدود کر دیا جائے۔موجودہ انتظامی ڈھانچہ اور آئینی نظام برطانوی راج کا ورثہ اور یادگار ہے‘یہ ہمارے اوپر اس لئے ٹھونسا گیا کہ اس کے بغیر کروڑوں لوگوں کو چند ہزار سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کا محتاج بلکہ غلام نہیں بنایا جا سکتا۔- 2 پاکستان کے ہر ڈویژن کو صوبائی درجہ دے دیا جائے‘ (یہ صوبے بھی یورپ کے کئی ایسے ملکوں سے بڑے ہوں گی‘ جو پاکستان کو مالی امداد دیتے ہیں)۔ہر ڈویژنل صوبہ کو مکمل داخلی خود مختاری دی جائے‘ کم از کم اتنی خود مختاری جو امریکی آئین کے تحت ہر ریاست کو حاصل ہے۔عوامی فلاح و بہبود‘ تعلیم‘ علاج‘ زرعی اور صنعتی ترقی‘ انصاف اور امن و امان کے قیام کی مکمل ذمہ داری ان صوبوں کو سونپی جائے۔ہر خود مختار صوبہ کے اندر ضلع‘ تحصیل اور گائوں کی سطح پر بھی عوامی نمائندوں پر مشتمل جمہوری جاندار اور بااختیار ادارے تشکیل دیئے جائیں تاکہ کروڑوں لوگ کسی نہ کسی طرح کاروبارِ حکومت میں حصہ لیں اور اپنا اپنا کردار ادا کریں اور ان میں احساسِ شمولیت پیدا ہو۔- 3مرکز اور صوبوںمیں انتظامیہ کی سربراہی براہ راست منتخب صدر اور گورنروں کو دی جائیا‘ جن کے عہدے کی معیاد 3 سال ہو۔ صدر کو مرکزی اور گورنر کو صوبائی اسمبلی توڑنے کا اختیار نہ ہو اور نہ ہی کوئی اسمبلی انتظامیہ کے سربراہ یا عدلیہ کے کسی رکن کو برطرف کرنے کی مجاز ہو۔ -4مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی اسمبلیوں کو قانون سازی کے مکمل اختیارات دیئے جائیں۔ صدر یا گورنر کو آرڈیننس کے ذریعہ قانون سازی کا کوئی اختیار نہ ہو۔مرکزی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کو متناسب نمائندگی (Proportional Representation) کی بنیاد پر 3 سالوں کے لئے چنا جائے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کا براہ راست انتخاب بذریعہ متناسب نمائندگی ہو اور سینیٹ کے ارکان کو پیشہ ورانہ بنیادوں پر چنا جائے ‘تاکہ متوسط طبقہ اورمحنت کش طبقہ کے افراد بھی اسمبلی کا رکن بن سکیں۔- 5عدلیہ کو ہر سطح پر انتظامیہ سے علیحدہ کر کے مکمل آزادی عمل دی جائے‘ (موجودہ آئین کے تحت اور 1947 ء سے لے کر اب تک مجسٹریٹ سے لے کر ہائی کورٹ کے جج تک سرکاری دبائو کے ماتحت ہیں)۔سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کے لئے عدالتی نظام میں موثر تبدیلی کی جائے۔ - 6تعلیم پر پاکستان صرف ایک فی صد صرف کرتا ہے۔ اس میں پانچ گنا اضافہ کیا جائے۔ ہر سطح پر اساتذہ کی تنخواہیں کئی گنا بڑھائی جائیں اور تدریس کو اتنا پرکشش بنا دیا جائے کہ ہرقابل آدمی اس معزز پیشہ کو اپنائے ۔- 7نہ صرف آئین کے مطابق اردوکو سرکاری زبان بنایا جائے بلکہ انگریزی کی بجائے اردو کو اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بھی بنایا جائے۔ پاکستان کے ہر سکول‘ کالج اور یونیورسٹی میں ساری علاقائی زبانیں (پنجابی‘ سندھی‘ بلوچی اور پشتو) پڑھائی جائیں۔ - 8بار بار موجودہ پارلیمانی نظام کی ناکامی یہ ثابت کرتی ہے کہ اس کے نقائص ناقابل علاج ہیں۔ہمیں ڈاکٹرعطاء الرحمن‘ سید فیروز شاہ گیلانی‘جماعت اسلامی اور پاکستان عوامی تحریک کی صدارتی نظام اور متناسب نمائندگی کے حق میں دی گئی تجاویز کو قبول کرنا چاہیے۔ - 9ان دنوں پاکستان کی آبادی کا صرف ایک فی صد اپنی آمدنی پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ٹیکس کے سارے نظام کو موثر‘ جامع‘ ہمہ گیر‘ قابلِ عمل اور قابلِ قبول بنایا جائے۔ چھوٹے کسانوں کو چھوڑ کر بڑے زمینداروں سے زرعی ٹیکس وصول کیا جائے۔ قومی آ مدنی میں کئی گنا اضافہ کر کے صنعتی ترقی اور عوامی فلاح وبہبود پر اتنی رقم خرچ کی جا سکے گی جو دور حاضر کا تقاضاہے۔ ہر سال ایک ہزار ارب روپے کے ٹیکس اور محصولات وصول نہیں کئے جاتے اور یہی خسارہ ہمارے مالی بحران کا موجب ہے۔ - 10پانی کی قلت ختم کرنے کے لئے سینکڑوں چھوٹے آبی ڈیم بنائے جائیں۔ مزدوروں کو کارخانوں میں حصہ دار بنایا جائے۔لاکھوں ایکڑ غیر آباد زمین لاکھوں بے زمین کاشتکار وں میں برائے نام قیمت پر تقسیم کر دی جائے۔ 
بدقسمتی سے ہماری کوئی بھی سیاسی جماعت نہ دیکھ سکتی ہے‘ نہ سن سکتی ہے اور نہ سوچ سکتی ہے۔ ان کی تمام تر توجہ اقتدار (Power Politics) پر مرکوز رہتی ہے۔ ہمارے ملک کو مزید بحرانوں سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ قومی سیاست سے اندھی طاقت کے استعمال کو بالکل نکال دیا جائے‘ جسم کے سرطان زدہ حصہ کی طرح۔ ہم چند سالوں کے اندر کروڑوں افراد کو لکھا پڑھا کرجہالت کو کس طرح ختم کریں؟ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کا علاج کس طرح کریں؟ گنے اور کپاس کا بالخصوص اور زراعت کا بالعموم بحران کس طرح ختم کریں؟ متوازن بجٹ کس طرح بنائیں؟ آنے والے سالوں میں ہماری زراعت اور صنعت کا کیا حشر ہوگا؟ وہ کن بڑے صدمات سے دوچار ہوں گی؟ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ان اہم سوالوں کا جواب نہیں‘ نہ علم ہے ‘ نہ احساس اور نہ شعور۔ یہ بے حد ضروری کام صرف عوام کی اپنی غیر سرکاری تنظیمیں کر سکتی ہیں‘ وہ عوام کی راہنمائی کی ذمہ داری سنبھالیں۔ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی محدود افادیت اپنی جگہ مگر قومی سطح پر موثر کردار ادا کرنے کے لئے سینکڑوںغیر سرکاری تنظیمیں کو مل کر مشترکہ پلیٹ فارم بنانا ہوگا‘ اپنی آواز بلند کرنا ہوگی۔ وہ آواز جو محب وطن ہو اور عالمانہ بھی۔ غو رو فکر‘ مطالعہ اور تحقیق کے بعد قوم کو آنے والے خطرات سے باخبر کیا جائے اور ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے قابل عمل تدابیر بنائی جائیں۔ پاکستانی عوام کے لئے نہ صرف غیر سرکاری تنظیمیں بلکہ ہر سیاسی جماعت میں بکھرے ہوئے روشن خیال کارکن‘ آزاد‘ بااصول‘ معیاری اور صاف گو اخبارات اور رسائل امید کی کرنیں ہیں۔ 
عوام کی غیر سرکاری تنظیموں نے سول سوسائٹی کی خدمت بھی کی ہے اور ترجمانی بھی۔ قابل تعریف کام کرنے والی غیر سرکاری اور عوامی تنظیموں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ان سب کا انفرادی تذکرہ ناممکن ہے۔ مناسب ہوگا کہ غالباً سب سے روشن کارنامہ کا ذکر کیا جائے اور جناب اختر حمید خان مرحوم پر عقیدت کے پھول برسائے جائیں‘ جنہوں نے 1980ء میں اورنگی (کراچی) کی سب سے بڑی کچی آبادی میں ایک پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز کیا۔ اس منصوبے پر بغیر حکومت کی شرکت کے 'اپنی مدد آپ‘ کے اصول پر کام ہوا اور ایک ایسی مثالی بستی آباد ہو گئی جس کے چھ ہزار گلی کوچوں میں سیوریج اور صفائی کا تسلی بخش انتظام ہے اور بچوں کی تعلیم کے لئے بے شمار ماڈل سکول و کالج ہیں۔ ان تمام تعمیراتی کاموں کی نگرانی مقامی لوگوں پر مشتمل کمیٹیوں نے کی‘ جنہوں نے بے مثل خدمات انجام دیں۔ ایدھی صاحب مرحوم کے کارنامے محتاجِ بیان نہیں۔ کراچی میں شہریوں کی ایک تنظیمCitizens Foundation نے تحریک علی گڑھ کی طرح ہزاروں سکول بنائے ہیں‘جہاں اعلیٰ معیار کی تعلیم دی جاتی ہے۔ 
سیاسی جماعتوں کی سطح سے بلند ہو کر محنت کشوں‘ صحافیوں‘ دانشوروں‘ وکیلوں‘ اساتذہ‘ طالب علموں‘ سیاسی اور سماجی کارکنوں‘ غیر سرکاری عوامی تنظیموں کے نمائندوں‘ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے روشن خیال اور عوامی دوست ممبروں ‘صدیوں سے خاموش رہنے والی اکثرت کے ترجمانوں کی اُبھرتی ہوئی جاندار‘ بامقصد اور باعمل برادری کی آواز کا نام آواز ِ خلق ہے۔لوک برادی کی اس آواز کا مقصد عوام کو زیادہ سے زیادہ بااختیار‘ ہم خیال اور ہم زبان بنانا ہے۔ نیا اور بہتر اور خوشحال پاکستان بنانے کے لئے نئے خیالات اور اچھی تجاویز‘ مفید مشوروں اور ٹھوس عمل کی ضرورت ہے اور وہ ضرورت جتنی آج ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔آج پاکستان کو سب سے زیادہ ان لوگوں کی ضرورت ہے جو آوازِ خلق کو نقارہ ٔخدا سمجھتے ہوں۔
جہان تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا(اقبالؔ)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں