آئین نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پہ اُڑنا …(1)

میرے دوست اور پاکستان کے چوٹی کے قابل ِاحترام وکیل سید فیروز شاہ گیلانی نے ایک بار نہیں‘ بلکہ بار بار وہ تحریر اخباروںمیں شائع کرائی ہے ‘ جس میں قائداعظم ؒنے اپنے ہاتھوں سے صدارتی نظام کے حق میں پرُ زور سفارشی اور تائیدی سطور لکھی ہیں۔ پاکستان کو بنانے والے سے بہتر اور کون جانتا تھا کہ اُن کے ہاتھوں سے بننے والے ملک کے لئے بہترین انتخابی نظام کون سا ہوگا؟ یاد رہے کہ قائداعظمؒ نہ جرنیل تھے‘ نہ زمیندار‘ نہ صنعت کار اور نہ تاجر۔ وہ بے حد قابل وکیل تھے‘ جو نہ صرف برطانیہ‘ بلکہ امریکہ اور دُوسرے ملکوں کے آئین پر بھی عبور رکھتے تھے۔ امریکہ کے آئین کے وفاقی پہلو سے وہ اس درجہ متاثر تھے کہ انہوں نے 1946 ء میں ہندوستان کو متحد رکھنے کے لئے وفاقی فارمولا پیش کیا ‘جو کانگریس نے نامنظور کر دیا۔ 71 برس پہلے پاکستان معرضِ وجود میں آیا‘ تو 1935 ء میں برطانوی راج کے ہاتھوں وضع کردہ اور نافذ کیا جانے والا آئینی بندوبست من و عن نئی آزاد مملکت کا آئین بن گیا۔ اس کا نام تھا:Government of India Act 1935 ۔ 
سارے کا سارا آئینی ڈھانچہ وہی رہا ‘ جو اس نظام کے تحت ہمارے انگریز حکمرانوں نے کروڑوں لوگوں کو غلام رکھنے اور بے حد محدود آزادی دینے کے لئے بڑی محنت اور ذہانت سے بنایا تھا۔ ہم نے 14 اگست 1947 ء کی رات کو اس قانون کے کتابچہ کا سرورق پھاڑ کر پھینک دیا۔ 15 اگست کا دن طلوع ہوا ‘تو اس کتابچہ کے بیرونی صفحہ پر چار نئے الفاظ ٹائپ کر دیئے گئے:The Constitution of Pakistan ۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ نو برس یونہی گزر گئے۔ مرکزی اسمبلی کے اراکین کی سیاسی پوزیشن اس لئے کمزور تھی کہ وہ 1947 ء سے پہلے (یعنی قبل از آزادی) ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ مذکورہ بالا ایکٹ میں چند تبدیلیاں کر کے اور بنیادی بندوبست کو جوں کا توں رکھ کر بصد مشکل 1956 ء میں جو آئین بنایا گیا‘ اس کے تحت اگلے انتخابات کی تاریخ بھی اگلے دو سال تک مقرر نہ کی گئی۔ ہمارے ملک کے پہلے قومی انتخابات میں چند ہفتے باقی تھے کہ پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔
جنرل ایوب خان نے 9 سال کے عرصہ میں بنایا جانے والا آئین قلم کی ایک جنبش سے منسوخ کر دیا ‘تو ملک بھر کے وکلاء ایسے خاموش رہے‘ جیسے گونگے‘ بہرے اور اندھے ہوں۔ سپریم کورٹ (اس زمانہ کی فیڈرل کورٹ) نے فوجی آمریت کے ہر غیر قانونی اور غیر آئینی قوم پر منظوری کی مہر لگانے کا وہ سلسلہ شروع کیا‘ جو جنرل ایوب کے دس سال‘ جنرل ضیاء الحق کے دس سال اور جنرل پرویز اشرف کے دس سال جاری رہا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے استعفیٰ دینے کے انکار کے تاریخ ساز مرحلہ تک۔ میں یہاں اپنے قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ جنرل مشرف اور چیف جسٹس افتخار کے تصادم کی وجہ یہ تھی کہ چیف جسٹس افتخار نے (حالانکہ وہ PCO کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں میں شامل تھے ) سٹیل مل کو شوکت عزیز کے بنائے ہوئے ملک دشمن فارمولے کے تحت قومی ملکیت سے نکال کر نجی ملکیت میں اونے پونے داموں فروخت کرنے کے خلاف عدالتی فیصلہ دیا تھا۔ جنرل ایوب گیا‘ تو اپنے ساتھ اپنا بنایا ہوا آئین بھی لے گیا۔ بھٹو صاحب مرحوم نے دو سال کی محنت کے بعد 1973 ء میں جو آئین بنایا ‘وہ اپنے تین پیش رو آئینی نظاموں (جو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ء کا نام بدل کر‘1956 ء اور 1962 ء میں بنائے گئے تھے) کا چربہ تھا۔وہی انگریز کے بنائے ہوئے چار صوبے‘وہی گورنر‘وہی مضبوط اور قادر مطلق قسم کا مرکز‘وہی چاربے اختیار صوبائی حکومتیں‘مقامی اور بلدیاتی اداروں اور شراکتی جمہوریت کی وہی غیر حاضری‘وہی انتظامیہ کی بالا دستی‘وہی سرکاری ملازمین کی افسر شاہی‘ نہ احتساف نہ شفافیت‘ رعایا بدستور محکوم‘ بدستوربے زبان بے بس اور لاچار بنائے رکھنے کا وہی قانونی اہتمام اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہی فرسودہ‘ عوام دشمن اور گلاسڑا پارلیمانی نظام۔ اس نظام کے تحت بڑے جاگیردار۔ بڑے صنعت کار اور ارب پتی لوگ کروڑوں روپے خرچ کر کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور اسمبلی میں جس پارٹی کی اکثریت ہو ‘وہی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم چن لینے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہی اراکین اسمبلی قائدایوان سے ناراض ہو جائیں ‘تو وہ عدم اعتماد کی تحریک منظور کرا کے اسے عہدہ سے ہٹا سکنے کے مجاز ہیں۔Horse Trading‘یعنی نوٹ کے بدلے ووٹ کی خرید و فروخت کی شاخ بھی اس پارلیمانی نظام کے درخت سے پھوٹی۔
اب آپ حال ہی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیں‘ تو آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اگر تحریک انصاف کی نشستوں کی تعداد سو سے کم ہوتی تو وہ کبھی حکومت نہ بنا سکتی اور الیکشن ہار جانے والی جماعت (مسلم لیگ ن) ایک لمحہ کے توقف کے بغیر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اسی طرح مخلوط حکومت بنالیتی‘ جس طرح وہ اس کے ساتھ حزب اختلاف میں شیر و شکر ہوگئی ہے۔ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ہوئی اس لئے آپ کو یاد ہوگا کہ سیاسی تجزیہ نگاروں کی اکثریت (24 جولائی تک) معلق پارلیمنٹ کی پیش گوئی کر رہی تھی۔ اگر ایسا ہو جاتا‘ تو اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد ہمیں ان انتخابات سے ایک شدید سیاسی بحران کا ''تحفہ‘‘ مل جاتا۔ اس بات کی ہر گز ضمانت نہیں دی جاسکتی تھی کہ آزاد اراکین اور چھوٹی جماعتیں (مسلم لیگ ق‘ ایم کیو ایم‘ جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی) اپنا وزن کس پلڑہ میں ڈالیں گی۔ اب آئیں ایک اور مسئلہ کی طرف اور وہ ہے؛ مختلف و زارتوں کے لئے اہلیت اور قابلیت۔
اسحاق ڈار محض ایک اکائونٹینٹ تھا۔ شوکت عزیز محض ایک امریکی بینک کا درمیانے درجہ کا افسر تھا‘ جس کا کام جنرل مشرف کی حرام کی کمائی کو امریکی بینک میں چھپانا اور اسے طرح طرح کی مراعات سے فیض یاب کرنا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے وزیر خزانہ (ڈاکٹر مبشر حسن) انجینئر تھے۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ پچاس کی دہائی کے آخر میں پنجاب یونیورسٹی میں میرے ایک ہم عصر اور اچھے دوست کا نام تھا؛ میاں محمد یاسین وٹو۔ اُن کا تعلق ایک زمیندار گھرانہ سے تھا۔ وہ ساہیوال میں اچھی وکالت کرتے تھے۔ ون یونٹ کے زمانہ میں وہ مغربی پاکستان کے وزیر تعلیم اور نواب کالا باغ کے چہیتے تھے۔ وہ بعد میں قومی اسمبلی کا رکن بنے‘ تو آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ علم معاشیات کی ابجد سے ناواقف شخص کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ ان کے عہد وزارت میں میری اُن سے اتفاقاً ملاقات ہوگئی (ہوائی سفر کے درمیان) میں نے اپنے پُرانے دوست (اللہ تعالیٰ جنت میں ان کے درجات بلند فرمائے) سے پوچھا کہ سنائو بھائی ‘یاسین! مالیات اور خزانہ کی وزارت کس طرح چلا رہے ہو؟ میاں یاسین صاف گو اور دیانت دار شخص تھا۔ کھسیانی ہنسی کے بعد جواب دیا: میں وزارت خزانہ کے اعلیٰ سرکاری افسروں کی بنائی ہوئی فائلوں پر دستخط کر دیتا ہوں۔ یہ تو کوئی مشکل کام نہیں۔ 
پاکستان کے بزرگ۔ جانے پہچانے اور عزت و احترام کے مستحق صحافی جناب محمود شام کا شکریہ کہ انہوں نے اسی ماہ کے شروع میں ایک روزنامہ کے ادارتی صفحہ پر جو قابل صد تعریف اور قابل صد توجہ مضمون لکھا ‘اُس کا عنوان یہ تھا ''ترقی میں رُکاوٹ۔ پارلیمانی نظام‘‘۔ غالباًاُن کا یہ مضمون آپ کی نظروں سے نہ گزرا ہوگا۔ میں دیانتداری سے کہتا ہوں کہ پاکستانی قوم سے زیادہ باشعور اور عقل مند قوم دُنیا میں کوئی اور نہیں‘ نہ انگریز (جنہوں نے یورپی یونین چھوڑنے کا احمقانہ فیصلہ کیا)‘نہ جرمن (جنہوں نے ہٹلر کو اپنا قائد بنالیا تھا) ‘اور نہ امریکی (امریکی تو بالکل ہی نہیں‘ جو ٹرمپ جیسے شخص کو اپنا صدر چن سکتے ہیں) کراچی کے عوام نے ایم کیو ایم سے اور لیاری کے عوام نے پیپلز پارٹی سے اپنی حمایت واپس لے لی۔ 
1970 ء کے بعد ہماری تاریخ میں اتنے بڑے لیڈر اپنے حلقوں میں دوسری بار اتنی برُی طرح ناکام رہے۔ سندھ میں مسلمانوں کے حلقہ انتخاب میں ہندو امیدوار کا کامیاب ہونا بھی ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ پیپلز پارٹی (جس میں اب بدقسمتی سے ماسوائے اس کے نام کے اور کوئی خوبی نہیں رہ گئی) نے یہ کمال کر دکھایا کہ ایک افریقی نسل کی سیاہ فام خاتون کو سندھ اسمبلی کا رُکن بنوایا(جاری)
۔ مگر کالم نگار کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کے حکمران سیاسی طبقہ کی کوتاہ اندیشی۔ کم ظرفی۔ کم نگاہی۔ نالائقی۔ بددیانتی۔ بزدلی۔ موقع پرستی۔ رُوباہی۔ زہر ہلاہل کو ہمیشہ قند کہئے۔ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے اور بوقت ضرورت (اور یہ ضرورت اُنہیں اکثر درپیش رہتی ہے) گدھے کو باپ بنانے جیسی مہلک خامیوں نے ہمیں اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ ایک قابل فخر قوم قابل رحم بن گئی ہے۔ نہ اعلیٰ اخلاقی قدریں رہیں۔ نہ نظم و ضبط۔ نہ حب الوطنی۔ نہ ایثار۔ نہ کوئی اعلیٰ مقصد اور نہ نیک نیتی۔ قومی خزانہ خالی۔ دماغ اچھے خیالات سے خالی۔ دل خوفِ خدا اور خدا کی مخلوق کی محبت سے خالی۔ مان لیجئے کہ ہمارے نیم مردہ سیاسی نظام کے کفن میں پارلیمانی نظام آخری کیل ثابت ہوگا۔ اگر آپ میری بات نہیں مانتے تو ڈاکٹر عطا الرحمن اور جناب محمود شام کے صدارتی نظام حق میں دیئے گئے دلائل پر غور کریں اور اُن کادیا ہوا مشورہ مان لیں۔ استصواب رائے کے ذریعہ ایک نیا آئین اور نیا معاہدہ عمرانی مرتب کیا جانا چاہئے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں