حکمرانوں کا ذہنی افلاس…(2)

پچھلے ہفتہ کا کالم جن الفاظ پر ختم کیا گیا تھا۔ آج کا کالم انہی الفاظ سے شروع کیا جاتا ہے۔عمران خان اور اُن کی سیاسی جماعت کی کامیابی کے لئے اُن کے اور ملک و قوم کے خیر خواہ جتنی بھی دُعائیں مانگیںکم ہوں گی ‘مگر کالم نگار کی طرح یقینا اور لوگوں کے دلوں میں بھی خدشات ہیں۔ دیانتداری کا تقاضا ہے کہ انہیں بھی کھل کر بیان کیا جائے۔ سب سے بڑا وسوسہ یہ ہے کہ عمران خان کی کامیابی کے راستے میں جو دیوارہے‘ اس کا نام ہے ہمارا حکمران طبقہ‘ سرکاری مشینری اورنظام کہنہ(Status Quo ) کا بوسیدہ نظام۔ مغرب کی ذہنی غلامی‘ شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان اٹھاتے اٹھاتے خوئے غلامی ہماری ہڈیوں میں رچ بس گئی ہے۔ عمران خان نے نظام میں تبدیلی لانے کا خواب پورا کر دکھایا تو یہ حکمران طبقے کے ذہنی افلاس کے باوجود ہوگا۔ صرف ذہنی افلاس نہیں‘ بلکہ حکمرانوں کی عوام دشمنی اور عوام سے دوری کے باوجود‘ ہر دیسی چیز (بشمول مادری زبان اور مقامی ثقافت) سے نفرت کرنے والوں کی بالا دستی کے باوجود‘ بھنور کی گرہ کو تقدیر کابہانہ سمجھنے والوں کے باوجود‘ پندار کا صنم کدہ ویران کر کے کوئے ملامت کا طواف کرنے والوں کے باوجود‘ غریبوں اور محنت کشوں کو جگانے کی بجائے سلانے کے باوجود‘ کاخ اُمرا کے دور دیوار ہلانے والوں کو صفحہ ہستی سے غائب کر دینے والوں کے باوجود‘غلاموں کا لہوسوز یقین سے گرمانے کی بجائے ‘انہیں اپنی حالت زار سے سمجھوتے کا سبق سکھانے والوں کے باوجود‘ سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوبنے کے دور دور تک کوئی آثار نہ ہونے کے باوجود اور روزِ مکافات کے نہ ختم ہونے والے انتظار کے باوجود۔
مذکورہ بالا تمام رکاوٹوں اورزنجیروں کے باوجود اقبالؔ نے ہمیں جو فرمانِ خدا سنایا (بال جبریل کی نظم نمبر112 کے آٹھ اشعار کی صورت میں) آپ اُس کے دوسرے شعر کا دوسرا مصرع پڑھ لیجئے گا۔ع
کنجشک فرومایہ کو شاہین سے لڑا دو
اقبال مذکورہ بالا لڑائی پر قناعت نہیں کرتے‘ بلکہ وہ ایک دوسری جنگ میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔اس جنگ میں وہ ممولہ کو شاہباز سے لڑانا چاہتے ہیں اور بین السطور یقین دلاتے ہیں کہ بظاہر کمزوری کے باوجود ممولہ ہی جنگ جیتے گا۔ بالکل اُسی طرح جیسے 1947 ء میں قائداعظمؒ ہمالیہ جتنی بڑی مشکلات کے باوجود پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے ‘ پھر 1970 ء میں بھٹو صاحب اور ان کی پیپلز پارٹی اور 2018 ء میں عمران خان اور ان کی تحریک انصاف ۔ کرکٹ کے میدان سے نکل کر بہترین ہسپتال اور معیاری یونیورسٹی کو معرض وجود میں لانے تک‘ اور قومی سیاست اور انتخابات کے میدان میں کامیابی تک۔ ذہنی افلاس اپنی جگہ‘ مگر حکمران طبقہ اربوں کھربوں روپے ہر ناجائز طریقہ سے کما کر یا چوری کر کے ناصرف خوشحال‘ بلکہ ہمارے تصور سے زیادہ امیر کبیر بن گیا۔ اتنے بڑے پیمانہ پر لوٹ کھسوٹ اور استحصال کرنے والوں کی آنکھوں پر حرص و ہوس نے اتنی موٹی پٹی باندھ دی کہ انہیں یہ بھی نظر نہ آسکا کہ وہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کی جان کے درپے ہیں۔ انہوں نے اپنے قومی خزانہ کو اس حد تک لوٹا کہ ملکی بقا اور سلامتی کو خطرہ درپیش ہو گیا۔ جب چور پارٹی کے دل و دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی‘ تو اس نے پانامہ‘ دبئی‘ جنیوا اور لندن کا رُخ کیا اور ان مقامات پر اتنی دولت چھپائی کہ میں حساب میں اپنی پرانی کمزوری کی وجہ سے نہ اعداد گن سکتا ہوں اور نہ شمار کر کے آپ کو بتا سکتا ہوں‘ مگر آپ مطمئن رہیں‘ اس طرح کے تمام انکشافات ہماری سپریم کورٹ کر کے رہے گی۔
یہاں تک لکھ چکا ‘تو خیال آیا کہ کیوں نہ اس کالم کے وسط میں چند سطور حکمران طبقہ کے ایک (زیر عتاب) فرد کے بارے میں لکھی جائیں۔ میرے خیال میں میرے قارئین اتنے سنگ دل تو ہر گز نہ ہوں گے کہ بے چارے شرجیل میمن کے لئے اُن کے دل میں ہمدردی کا کوئی جذبہ پیدا نہ ہو۔ آپ ذرا سوچئے کہ اُس نے تمام انتظامات میں نقب لگا کر کس طرح اپنی پسند کا مشروب حاصل کیا ہوگا؟ ہسپتال میں اپنے آرام دہ بستر پر لیٹا ہوگا کہ اچانک جناب چیف جسٹس آن پہنچے‘اگر ان لمحات میں شرجیل میمن کا آپریشن کیا جاتا ‘تو سرجن یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ مریض کے جسم میں خون کی ایک بوند نہیں۔ جو تھوڑا بہت خون ہوگا ‘وہ چیف جسٹس صاحب سے ملاقات کے پہلے چند سیکنڈوں میں بھاپ بن کر اُڑ گیا ہوگا۔
اب ہم اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں ۔ وہ اعلیٰ مقاصد جن کے لئے پاکستان بنایا گیا تھا‘ اُن میں سے ایک بھی آج تک پورا نہ ہو سکا۔ بنیادی مقصد تھا اسلامی فلاحی مملکت کا قیام۔ حاصل کیا ہوا؟دفاعی مملکت‘ نہ مساوات ‘نہ قانون کی حکمرانی۔ کمزور اور غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بقول اقبالؔ:بندہ ہے کوچہ گرد ابھی‘ خواجہ بلند بام ابھی۔جب قومی خزانہ اربوں کھربوں کی لوٹ مار کا شکار ہوا تو پھر یہ ضرورت پیش آئی کہ گلشن کا کاروبار چلانے کے لئے دھڑا دھڑ نوٹ چھاپے جائیں۔ اس کا نتیجہ افراط زر اور اُس کا نتیجہ مہنگائی۔ ہر سال‘ بلکہ ہر ماہ اور ہر روز بڑھتی ہوئی مہنگائی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 70 لاکھ کے قریب پاکستانی بیرون ملک اپنا کاروبار یا ملازمت کرتے ہیں؛ اگر مشرق وسطیٰ‘ یورپ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور امریکہ میں افرادی قوت کی ضرورت نہ ہوتی‘ تو یہ 70 لاکھ‘ یعنی بیرون ملک کمائی کی خاطر نہ جا سکتے‘ اسی وجہ سے نہ صرف ملک میں آبادی کا بوجھ کم ہوا‘ بلکہ سالانہ اربوں ڈالروں کی ترسیلات کا دروازہ کھلا۔ خوش قسمتی سے اب تحریک انصاف خود ایک بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ متوسط اور محنت کش طبقہ کے بہت سے روشن دماغ لوگ خصوصاً تعلیم یافتہ خواتین اس میں شامل ہو کر سرگرم عمل ہیں اور انتخابات میں کامیابی کا سہرا اُن کے سروں پر باندھا جا سکتا ہے۔ سرکاری اختیارات کی ہر سطح پر مذکورہ بالا طبقات کے افراد کو خدمت کمیٹی کے رکن کے طور پر رضا کارانہ طور پر عملی خدمت کا موقع دیا جائے۔ لاکھوں چھوٹے مقامات کی سماعت محلہ کمیٹی کر سکتی ہے۔ عوامی عدالت کا اجلاس مسجد میں ہو یا گرجا گھر میں یا مندر میں۔ عمران خان صاحب کو صرف شراکتی جمہوریت اور عوامی حصہ داری کامیابی کی منزل تک لے جا سکتی ہے۔ وہ عوامی نمائندوں اور اپنی پارٹی کے سیاسی کارکنوں کی بجائے صرف سرکاری افسروں پر انحصار کریں گے‘ تو اُن کا وہی حال ہوگا ‘جو مرحوم بھٹو صاحب کا ہوا۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو‘ کہ دس سال بعد عمران خان کے وزیر خزانہ (اسد عمر) کتاب لکھیں تو اُس کا بھی وہی عنوان ہو جو ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کی کتاب کا ہے:The Mirage of Power (اقتدار کا سراب)۔ 
اگر عمران خان کے اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں ‘تو انہیں عوام کو بااختیار بنانا ہوگا۔ مثبت‘ جاندار اور تعمیری کردار ادا کرنے والے عوام ہی انہیں کامیاب بنائیں گے۔ یہ ہے وہ سبق جو ہم چین کی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کے باہمی تعلق سے سیکھ لیں‘ تو بہت فائدے میں رہیں گے۔ آخر میں ایک لطیفہ پڑھیں‘ جو شاید آپ نے پہلے بھی سُن رکھا ہو۔ ایک بار پاکستان کا سرکاری وفد کابل گیا‘ تو افغان صدر مملکت نے اپنی کابینہ کے اراکین کا فردا ً فرداً تعارف کرایا۔ جب ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ریلوے کا وزیر ہے تو مہمان چونک پڑے اور یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ جب افغانستان میں ریلوے کا نام و نشان نہیں تو وزیر ریلوے کا کیا کام اور کیا جواز ہے؟ میزبان مسکرائے اور جواب دیا کہ آپ کے ملک میں بھی تو قانون اور انصاف کی وزارتیں ہیں۔ لطیفہ اپنی جگہ‘ مگر میں پاکستان کے وزیر اطلاعات کی اطلاع کے لئے یہ برُی خبر سنانا چاہتا ہوں کہ کسی بھی مہذب اور ترقی یافتہ‘ بلکہ ترقی پذیر ملک میں اطلاعات کی وزارت نہیں ہوتی‘اگر وہ کبھی ملک سے باہر گئے تو انہیںاسی سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جو ایک سرکاری وفد کو کابل میں برداشت کرنا پڑا۔ ہمارے ملک میں وزارت اطلاعات کا وجود ہی ہمارے حکمرانوں کے ذہنی افلاس کی زندہ مثال ہے۔ اس مضحکہ خیز وزارت کو ختم کر کے ذہنی افلاس کچھ تو کم کریں۔ اُونٹ بھوک سے مر رہا ہو تو وہ روایتی زیرہ کھا کر ہی خوش ہو جائے گا کہ جان بچ گئی۔ المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں کا ذہنی افلاس اُنہیں اُونٹ کو زیرہ کھلانے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں