کوئے ملامت کا طواف

اس کالم نگار کی طرح اس کے قارئین بھی ان دنوں یہی سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ 68 سال پرانی عمارت شکست و ریخت کا شکار ہو کر کھنڈر بن جائے گی یا اس کی مرمت ہوسکے گی؟ ہم نے اتنے زیادہ سال (قیام پاکستان کے بعد کے صرف تین سال نکال دیں) جس درخت کے سائے میں پائوں پسارے ہوئے چین کی بانسری بجائی تھی‘ اب (تازہ خبروں کے مطابق) اُس کی شاخیں سوکھ رہی ہیں‘ بہار قصہ ماضی بن چکی ہے اور خزاں کے زرد پتوں کی آمد آمد ہے۔ آج تک جس ملک کو ہم نے اپنا سرپرست‘ محافظ اور اَن داتا بنائے رکھا‘ اُس نے نظریں پھیر لیں ۔ آپ نے سنا ہوگا کہ قدیم قصے کہانیوں کے مطابق‘ جس شخض کے سر پر ہما نامی پرندہ بیٹھ جائے‘ اُسے تخت و تاج مل جاتا ہے۔ ہما کو ایرانی اساطیری ادب (Mythology) نے جنم دیا۔ وہ ایران سے اڑتا ہندوستان آپہنچا۔ انگریزی میں غالباً اس بابرکت پرندے کا نام Phoenix ہے؛ اگر میرے سامنے آکسفرڈ اُردو لغات کے صفحہ نمبر1143 کے پہلے کالم میں لکھے ہوئے تیسرے لفظ کا یہ انگریزی ترجمہ نہ ہوتا تو میں یہ کبھی نہ لکھتا‘ چونکہ (میرے محدود علم کے مطابق) مذکورہ بالا انگریزی نام اس فرضی پرندے کا ہے‘ جو آخر کار خود اپنی آگ میں جل کر راکھ ہو جاتاہے۔ بہرحال یہ موقع محل زبان دانی کا مظاہرہ کرنے یا ایک لفظ کے حدود اربعہ پر بحث کرنے کا نہیں۔ ہما کا ذکر یوں آیا کہ پچاس کی دہائی سے (جو روایت ایوب خان کے مارشل لا سے شروع ہوئی) سے لے کر جنرل ضیاء الحق کے برسر اقتدار آنے اور پھر ان کے جہاز کو گرا کر انہیں اور ان کے ساتھیوں کے قتل کئے جانے تک‘ ہر اس شخص کو حکومت ملی‘ جس کے سر پر ہما بیٹھا یا نہ بیٹھا‘امریکہ نے اپنا دستِ شفقت ضرور رکھا۔ 1950 ء سے لے کر آج تک ہمارے پیارے ملک میں اقتدار کا سرچشمہ امریکہ رہا۔ سیاسی اقتدار‘ معاشی اقتدار‘ تہذیبی اور ثقافتی اقتدار‘ آپ کی مرضی ہے کہ اپنے حکمرانوں کی عقل پر روئیں یا ہنسیں ‘مگر امر واقع یہ ہے کہ پہلے فوجی آمر ایوب خان نے اپنے وزیر اطلاعات الطاف گوہر سے اپنی (نام نہاد) خود نوشت لکھوائی تو کتاب کا نام رکھا Friends Not Masters (یعنی پاکستان کو دوستوں کی ضرورت ہے‘ آقائوں کی نہیں)۔ خیرات مانگنے والے گدا گر کی خیرات دینے سے والی دوستی! اس سے بڑا لطیفہ تو اکبر کے نور تن بیر بل کو بھی نہ سوجھاہوگا۔ امریکی سرمائے اور امریکی اسلحے کے بل بوتے پر افغانستان میں نام نہاد (میں نے تین سطور میں یہ الفاظ تین بار لکھے ) جنگ کر کے ہم نے اپنی دنیا اور آخرت دونوں خراب کیں۔ ادھر روسی فوج کی پسپائی ہوئی اور پاکستان نے امن معاہدے پر دستخط کئے اور اُدھر امریکہ اورپاکستان کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوا۔ غالباً اس جرم کے ارتکاب پر جنرل ضیاء الحق کو سزائے موت دی گئی۔ چین بڑی طاقت بن کر اُبھرا اور پاکستان سے اس کے دوستانہ رشتے کا پودا جڑیں پکڑنے لگا اور باہمی تعلقات اور گہرے ہوئے‘ تو امریکہ نے بھارت کو اپنی آنکھ کا تارا بنا کر اسے چین کے آگے مغربی ڈھال بنا لیا اور اُس پر اپنی عنایات اور مراعات کی بارش شروع کر دی۔
اب آپ بتایئے کہ اگر پاکستان کی حکومت اور عوام دونوں اس خطے پر بھارت کی بالا دستی قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے تو وہ امریکہ بہادر کو خوش رکھ سکیں تو کیونکر؟ جب دل کا جانا ٹھہر گیا‘ تو وہ آج جائے یا کل۔ آپ نہ گھڑی دیکھیں نہ کیلنڈر۔ آپ اپنی نظر اس حقیقت پر جمائے رکھیں کہ اب ایک زلزلہ انگیز (Seismic ) تبدیلی آچکی ہے یا آنے والی ہے۔ باہمی رنجش کی دو سری وجہ افغانستان میں 17 سال تک زبردست بمباری کرنے اور اور ہر قسم کے اسلحہ کا استعمال کرنے اورکشت و خون کے دریا بہا دینے کے بعد امریکہ اپنی فوجی شکست کا پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ تیسری وجہ یہ کہ امریکہ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا اتنا زیادہ مخالف ہے کہ نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔ وجہ؟ان ہتھیاروں کی موجودگی میں پاکستان پر بھارت کے فوجی حملے کے امکانات صفر ہو گئے ہیں۔ طاقت کے توازن کا مطلب ہے برابری کا رشتہ ‘نہ کہ بھارت کی نمبرداری کے آگے سرجھکانا اور اس کی تابعداری۔
اس سارے عرصہ میں امریکی حکومت ہر ممکن کوشش کرتی رہی کہ وہ ہمارے ملک کے چوٹی کے بااثر لوگوں کو کسی طرح اپنے شیشے میں اتارے۔ بھلا ہو دو فرشتہ صفت لوگوں کا۔ ایک نام تھاManningاور دوسرے کا نامAssange‘جن کی وجہ سے Viki Leaks کی ہانڈی چوراہے میں پھوٹی۔ لاکھوں خفیہ ای میل کالم نگار کی طرح ہر عام شہری کے پاس پہنچے۔ یہ معجزہ ‘ ہزاروں لوگو ں کو بے نقاب کر گیا۔ میری نظر میں جناب اعتزاز احسن‘ نصف صدی سے میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں اور مجھے بڑے عزیز ہیں‘ مگر یہ دوستانہ رشتہ میرے لئے خصوصی دکھ کا باعث بنا اور میرا فرض ہے کہ میں اپنے شدید غم و غصہ کا اظہار کروں‘ جب مجھے مذکورہ بالا ای میلز کے ذریعہ (ان کا انتخاب ایک موقر انگریزی روزنامے نے شائع کیا تھا) پتا چلا کہ اعتزاز احسن اور عاصمہ جہانگیر رات کی تاریکی میں سب لوگوں سے چھپ چھپا کر خصوصی امریکی سفیرRichard Holbrooke سے ملے۔ کیوں ملے‘کیا بات طے پائی؟ اعتزاز احسن اپنی قوم کے صدر مملکت بننا چاہتے تھے۔ وہ تو نہ بن سکے ‘مگر کیا یہ اُن کا اخلاقی فرض نہیں کہ وہ قوم کو مذکورہ بالا ملاقات کے بارے میں بتائیں۔ میں نہیں جانتا کہ اعتزاز احسن میرا اخبار اور اس میں شائع ہونے والی یہ سطور پڑھیں گے یا نہیں ؟مگر میں یہ کالم اُنہیں بذریعہ ڈاک اُن کے گھر کے پتا پر بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
مجھے غالبؔ ایک بار پھر یاد آئے‘ جنہوں نے اپنے طوطا چشم اور سنگ دل محبوب کے بارے میں لکھا تھا:ع
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
اس سے زیادہ موزوں کوئی اور الفاظ نہیں ہو سکتے جو ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے امریکی امداد کو بند کرنے کی خبر پر ان کے ردّعمل کو بیان کر سکیں۔ یہ تو ابھی ابتدا ہے۔ امریکہ ہم سے اپنی امداد کی جو قیمت مانگے گا ‘ وہ ہم کبھی بھی ادا نہیں کرسکتے۔27 فروری2017 ء کو (صرف ڈیڑھ دو سال پہلے) دُنیا ٹی وی کے پروگرام (جاوید اقبال میزبان تھے) میں جناب عمران خان نے جو کچھ کہا‘ وہ دُنیا ٹی وی کو آج دوبارہ نشر کرنا چاہئے۔ میں صرف چند سطور نقل کرتا ہوں: ''میں نے بار بار کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نہ برابری (Parity) کی بنیاد پر ہیں اور نہ باہمی عزت پر۔ یہ آقا اور غلام کا رشتہ ہے‘ جس کا واحد مقصد امریکی مفادات کی تکمیل ہے۔ امریکہ ہمیں کرائے کا ٹٹو سمجھ کر ہمیں ڈالر دیتا ہے اور ہماری خدمات حاصل کرتا آیا ہے۔ ہماری قیادت نے ہمیشہ پاکستان کے قومی مفادات کو نظر انداز کر کے امریکی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔
انتخابات میں پیدا ہونے والی بدمزگی اور تلخی اپنی جگہ‘ مگر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ امریکہ کے جارحانہ رویے کی ابتدا ہو جانے اور ہوا کے رُخ میں واضح تبدیلی کے آثار دیکھ کر جناب عمران خان قومی سلامتی کی آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور مولانا فضل الرحمن کی دلجوئی کی خاطر (وہ پاکستان کی صدارت نہ ملنے کے صدمہ پر بدستور نڈھال ہوں گے) اُن سے اجلاس کی صدارت کرائیں تاکہ پاکستانی قوم اپنے دشمن کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کرسکے۔ ہم برس ہا برس سے اپنا پندار کا صنم خانہ ویران کرتے آئے ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ ہم کوئے ملامت کا طواف ترک کر دیں۔ اگر ہم نے امریکی دہلیز پر پھر سر جھکایا‘ اگر ہم نے اپنے قومی مفادات کی پھر قربانی دی‘ اگر ہم نے شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان پھر اُٹھائے تو چھ ہزار میل فاصلہ سے اہل وطن کو اس کالم نگار کی آواز میں غالبؔ کا یہ شعر سنائی دے گا ؎
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں