متوسط طبقہ کی حکومت

دوردیس سے ایک اُڑتی خبر آئی ہے‘ (زبانی طیورّ کی) کہ نئی وفاقی حکومت کے ایک وزیر نے لاہور میں ہونے والی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت دراصل مڈل کلاس (متوسط طبقہ) کی حکومت ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ملک سے ہر طرح کی مالی بدعنوانی‘ لوٹ مار‘ استحصال‘اربوں روپوں کے قرضوں کی معافی اور اربوں ڈالر کی چوری کا قلع قمع کر کے دیانت ‘ امانت اور صداقت کے ستونوں پر اک نئے پاکستان کی تعمیر کرنا چاہتی ہے۔یہ بیان نہ صرف سطحی ہے بلکہ آدھا سچ ہے اور گمراہ کن ہے۔ نرم سے نرم الفاظ بھی استعمال کئے جائیں (اگرچہ موصوف خود ان کو استعمال کرنا ہر گز پسند نہیں کرتے) تو بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کا بیان صرف وہ شخص دے سکتا ہے جو نیم خواندہ ہو‘ جو بے دھڑک بول تو سکتا ہو مگر سوچنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو‘ جو بولتا پہلے اور تولتا بعد میں ہے۔ شاید تولنے کی زحمت بھی گوارا نہ کرتا ہو۔پاکستان کی 20 کروڑ سے زائد آبادی میں متوسط طبقہ بمشکل دس فیصد ہوگا‘ (اگر میرا اندازہ غلط ہو تو قارئین میری تصحیح فرمائیں)۔ غالباً آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ ہماری فوج کے افسروں کا تعلق متوسط طبقہ سے ہونے کی وجہ سے ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے لگائے ہوئے مارشل لا بھی دراصل متوسط طبقہ کے مسلح اور باوردی لوگوں کے عہدِ اقتدار تھے۔ چاروں مارشل لا ادوار کی مدت 30 سال بنتی ہے۔ اس اعتبار سے ہماری ریاست کی کل زندگی کا نصف حصہ متوسط طبقہ کا اقتدار لے گیا ‘جو ہر لحاظ سے اُن تمام خامیوں اور خصلتوں کی زندہ مثال تھا جو فسطائیت کی اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا فقدان‘ جعلی اور مصنوعی معاشی ترقی‘ سطحی اصلاحات‘ نظم و ضبط کو غیر معمولی اہمیت‘ رائے عامہ کی پامالی‘ محنت کشوں پر عتاب‘ سرکاری بیانیہ سے اختلاف کو غداری اور بغاوت کے مترادف قرار دینا‘ نادر شاہی احکامات کی ہر قیمت پر تعمیل پر اصرار‘ آمرانِ مطلق کی تعریف کرنے والوں کی سرپرستی اور بالادستی۔ قلعہ لاہور میں حسن ناصر کی شہادت سے لے کر بلوچستان میں سردار اکبر بگتی کے قتل تک‘حیدر آباد میں پکا قلعہ سے لے کر راولپنڈی میں لال مسجد اور 12 مئی کے سانحہ کراچی تک۔ امریکی سامراج اور مغربی ممالک سے خیرات (سرمایہ اور اسلحہ کی خیرات) مانگ مانگ کر وقت گزارنے کی بدترین حکمت عملی۔ اب رہے عوام تو اُن کے لئے نہ تعلیم ‘نہ علاج‘ نہ صحت نہ صاف پانی نہ بنیادی انسانی حقوق۔ ہر طرف ڈنڈا اور لاٹھی چارج۔ محب وطن اور عوام دوست افراد نے کچھ آنسو ملک کی حالت زار دیکھ کر بہائے اور کچھ اشک آور گیس کی بدولت ‘ دکھ زیادہ اور آنسو کم۔ مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں(غالب)۔کالم نگار کا اپنا تعلق متوسط طبقہ ہے۔ اس لئے وہ اپنے طبقہ کے تاریخ میں شرمناک کردار‘اس کی موقع پرستی‘ بے اصولی ‘چڑھتے سورج کی پوجا کرنے‘ ہوا کے رُخ پر چلنے‘ اقتدار کی میز سے گرے ہوئے ٹکڑے اُٹھانے‘ شاہ کی مصاجی پر اِترانے اور برسر اقتدار طبقہ کی خدمت گزاری سے بخوبی واقف ہے۔ اپنے مطالعہ اور عمر بھر کے مشاہدہ کی بدولت۔
پاکستان میں فیض ؔہوں یا فرازؔ‘ہندوستان میں ارون دتی رائے ہوں یا روس میں لینن اور ٹرانسکی‘ کیوبا میں کاسترو ہوں یا چی گویرا‘ ایران میں فاطمی ہوں یا ڈاکٹر مصدق‘ ترکی میں اردوان ہوں یا برطانیہ میں جریمی کار بین ‘جو لیبر پارٹی کے قائد ہیں۔ اس طرح کی ان گنت مثالیں دی جا سکتی ہیں‘ جہاں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ادیبوں‘ دانشوروں‘ شاعروں‘ لکھاریوں اور سیاسی راہنمائوں کا تعلق متوسط طبقہ سے تھا مگر ان کی سو فیصدی نظریاتی وابستگی اور وفا داری محنت کش طبقہ سے تھی۔ ان کے دل و دماغ کسانوں اور مزدوروں سے جڑے ہوئے تھے۔ ان کے شعور کی جڑیں افتادگانِ خاک میں تھیں۔ یہی ان کی بڑائی اور ان کے تاریخی کردار کی عظمت کا راز ہے۔ ہر دور میں متوسط طبقہ تاریخ کے چوراہے پہ کھڑا ہو کر اپنے آپ سے ایک ہی سوال پوچھتا ہے کہ وہ ظالم کے ساتھ ہے یا مظلوم کے ساتھ۔ سرمایہ دار طبقہ کا اتحادی ہے یا محنت کشوں کا۔ وہ مزدور کی تلخیٔ ایام کم کرنا چاہتا ہے یا اُسے برقرار رکھنے میں مصلحت ‘ عافیت اور خیریت نظر آتی ہے۔ جب امیر مال مست ہوںتو متوسط طبقہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے (جیسی ان دنوں پاکستان میں ہے)۔ وہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود تعلیم اور شعور و آگاہی میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ وہ معاشر ے کے کان‘ آنکھوں اور دماغ کا کام کرتا ہے۔ وہ دیکھ سکتا ہے‘ سُن سکتا ہے اور سوچ سکتا ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کی اعلیٰ ترین سرکاری ملازمت (ICS ) کا رکن ہو کر بھی ہاری رپورٹ لکھنے والا مسعود کھدر پوش بن سکتا ہے‘ یا اس ملازمت سے مستعفی ہونے والا اختر حمید خان‘ جنہوں نے کراچی کا بے مثال اورنگی ٹاؤن بنایا۔ 
کالم نگار اپنی کم علمی کے دفاع میں یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ وطن عزیز سے چھ ہزار میل کے فاصلہ پر نصف صدی سے رہتا ہے۔ اس کے وہ ہم عصر جو عوام دوست اور اشتراکی (سوشلسٹ) نظریات پر یقین رکھتے ہیں‘ وہ تقریباً سب کے سب جلاوطن ہیں یااگلے جہاں جاچکے ہیں‘ جو باقی رہ گئے ہیں وہ اتنے کم ہیں کہ ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن‘ عابد حسن منٹو‘ پروفیسر امین مغل‘ پروفیسر جمال نقوی‘ پروفیسر عزیز الدین احمد‘ زاہدہ حنا‘ فہمیدہ ریاض‘ راشد رحمان‘ عبدالرؤف (فیصل آباد) ‘میاں محمد اکرم‘ حسین نقی۔ میرے اخبار کے ایک کالم نگار ڈاکٹر لال خان اسم بامسمیٰ ہیں‘ افق پر سرخ سویرے کے طلوع ہونے کے منتظر۔ ان کازورِ قلم پہلے ہی اتنا زیادہ ہے کہ میں اس میں مزید اضافے کی دعا نہیں مانگ سکتا‘ مگر ان کی درازیِ عمر کے لئے ضرور دعاگو ہوں۔ ان کا تعلق خالص اشتراکی فلسفہ دانوں کی اس نسل سے ہے جو اب معدوم ہوتی جارہی ہے اور اس لحاظ سے Threatened Species میں شمار کی جاسکتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عروج و زوال کی داستان بڑی عبرت انگیز ہے اور جب انہوں نے روٹی‘ کپڑا‘ مکان اور اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تو پاکستان کے درو دیوار ہل گئے اور سیاسی بساط الٹ گئی‘ مگر جب انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ اقتدار لینے کے بعد معراج محمد خان کے ساتھ چلیں گے یا مصطفی کھر کے ساتھ تو بدقسمتی سے انہوں نے عوام دشمن فیصلہ کیا۔ انہوں نے عوام سے غداری کی اور 1974ء کے انتخابات میں اس طبقہ کے افراد کو اپنی پارٹی کے ٹکٹ دیئے‘ جنہیں وہ 1969ء میں شکست دے کر اقتدار میں آئے تھے۔ اس کا جو نتیجہ نکلا وہ آپ کے سامنے ہے۔ 
مجھے بار بار پرُانے زخموں کوکریدنا اچھا نہیں لگتا ‘مگر اب میرے لئے تحریک انصاف کی قیادت کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجانے کے لئے جناب بھٹو صاحب کی مثال دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ تحریکِ انصاف کو حالیہ انتخابات میں ایک کروڑ76 لاکھ ووٹ ملے۔ اُن میں مڈل کلاس کے ووٹ زیادہ سے زیادہ 76 لاکھ ہوں گے جبکہ ایک کروڑ محنت کشوں کو۔ ہماری نصف آبادی (جو خط افلاس کے نیچے بصد مشکل زندہ ہے) اور نچلا متوسط طبقہ (25 سے لے کر75 ہزار روپے ماہانہ کمانے والا) شدید حالتِ عذاب میں ہے۔ مہنگائی اور (نوجوانوں کی) بے روزگاری کی وجہ سے۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں تحریک انصاف کے بانی اراکین میں سے ایک ہونے کے باوجود اپنے اُس خدشہ کا اظہار کروں کہ اسد عمر صاحب اپنی عوام دشمن معاشی پالیسی (جو اسحاق ڈار اور شوکت عزیز کی فوٹو کاپی ہے) کی بدولت عمران خان کی کشتی میں اتنے سوراخ کر دیں گے کہ عمران کی دیانتداری اور نیک نیتی بھی اسے ڈوبنے سے بچا نہ سکے گی۔ میں میر تقی میر ؔکا ایک معروف شعر نہیں لکھنا چاہتا ‘مگر اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس دوا نے ہمیں اتنا بیمار کیا ہے ہم اُسے مزید استعمال کریں تو کیونکر؟کیانئے وزیر خزانہ کسی ایک بھی کسان یا مزدور یا محنت کش سے ملے ہیں یا ملنا چاہتے ہیں؟ غالباً نہیں۔ میں 23 اکتوبر کو ایک دن کے لئے اسلام آباد جائوں گا‘ تاکہ اُنہیں کراچی سٹیل مل کے مزدوروں کے ایک رہنما اور انجمن مزارعین کے ترجمان سے ملوا سکوں۔ پاکستان میں متوسط طبقہ کی صرف وہی حکومت کامیاب ہوگی‘ جو محنت کشوں کی دل و جان سے اتحادی اور حامی اور ترجمان ہو۔ پاکستان جیسے ملک میں صرف مڈل کلاس کی حکومت (برائے مڈل کلاس) نہیں چل سکتی۔ یہ تاریخ کے قاضی کا فتویٰ ہے‘ بقول اقبالؔ ‘ازل سے دیا گیا فتویٰ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں