رومانیہ کا رومان

آج کے کالم کے عنوان پر ایک نظر ڈال لیں‘ تو آگے بڑھیں۔ رومانیہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ جنوب مشرقی یورپ کے ایک ملک کا نام ہے؛ اگر آپ نوجوان ہیں تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آپ رومان کامفہوم بھی ضرور جانتے ہوں گے۔ رومان کا تعلق محبت اور ان لطیف جذبات سے ہے ‘جن کا مسکن دِل ہوتا ہے۔ یہ بیانیہ بھی حقیقت کے برعکس ہے؛ چونکہ دل تو ماسوائے دھڑکنے کے اور گردشِ خون کا نظام چلانے کی کلیدی ذمہ داری سنبھالنے کے ‘ کوئی اور کام نہیں کرتا۔ انسانی جذبات (رومانی ہوں یا غیر رومانی) کا منبع اور ماخذ بھی دماغ کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ کالم نگار اپنے بڑھاپے کو نظر انداز کرتے ہوئے 20 ستمبر کی صبح کو لندن کے چار ہوائی اڈوں میں سے ایک (Stanstead)سے پرواز کرتا ہوا رومانیہ جاپہنچا۔ یہ محض رومانیہ کی رومانی اور مقناطیسی کشش کا کمال تھا۔ نہ کام نہ کاج۔ سفر کا مقصد چند نئے لوگوں کو ملنا اور دوستی کی پینگیں بڑھانا تھا۔ رومانیہ پہنچا تو تین دن کے مختصر قیام میں کالم نگارپر رومانیہ کے درو دیوار‘ وہاں کی سیرگاہوں‘ دریائوں (جن میں Danube بھی شامل ہے) جھیلوں ‘پہاڑوں‘ سبزہ زاروں اور قدیم خوبصورت عمارتوں کا جادو چل گیا۔ قدرت اور انسان نے مل کر رومانیہ کے ہر شہر اور ہر گائوں کو اس طرح بنایا اور سنوارا کہ سارا ماحول فنون لطیفہ کا زندہ مظہر بن گیا۔ میں ابھی سے اگلے سال میں کرنے والے ضروری کاموں کی فہرست بنا رہا ہوں۔ رومانیہ ایک بار پھر جانا اس فہرست میں شامل ہے۔ مجھے مان لینا چاہیے کہ رومان کا لفظ مجھے بار بار اس شک و شبہ میں مبتلا کرتا ہے کہ غالباًمیں نے یہ لفظ درست استعمال نہیں کیا۔ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی شائع کردہ لغاتوں سے رجوع کیا۔ انگریزی اُردو ایڈیشن کے صفحہ نمبر1465 سے اور اُردو انگریزی ایڈیشن کے صفحہ نمبر660 سے۔نوجوانوں کو کالم نگار پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ انہیں رومان کا مطلب جاننے کیلئے لغات کے مطالعہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اسے بطور ایک لطیف اور حسین جذبہ کے اپنے دل میں محسوس کر سکتے ہیں۔ خوشبوکی طرح۔ راگ کی موسیقی کی طرح۔ قوس قزح کے رنگوں کی طرح۔
آیئے اب ہم رومانیہ چلیں۔ کل آبادی ڈھائی کروڑ جس میں ہر سال صرف ایک فی صد اضافہ ہوتا ہے۔ اوسط عمر 70 برس‘ کل رقبہ 92699 مربع میل جس میں ساحل صرف 160میل لمبا۔ آبادی کا 55 فیصد حصہ دارالحکومت بخارسٹ اور پانچ بڑے شہروں میں رہتا ہے۔ صدیوں سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہنے کے باوجود مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر‘ آبادی کی بڑی اکثریتRomaniaonOrthodox اور رومن کیتھولک مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ سرکاری زبان وُہی ہے جو قومی زبان ہے اور قومی زبان وہی ہے‘ جو مادری زبان ہے۔ پاکستان میںصورتحال بالکل متضاد ہے۔ مادری اور علاقائی زبانیں اپنی جگہ‘ مگر قومی زبان اُردو اور سرکاری زبان انگریزی۔ رومانیہ کی درس گاہوں میں (قومی زبان کے ساتھ) انگریزی‘ فرانسیسی اور جرمن زبانیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ مجھے بہت سے مقامی لوگوں سے ملنے اور اُن سے گفتگو کا موقع ملا‘ وہ سب اچھی انگریزی بول سکتے تھے ۔ مہذب شائستہ‘ محنتی‘ خوش شکل‘خوش اطوار‘ خوش گفتار لوگوں کا ملک جو 60 صوبوں پر مشتمل ہے۔ پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہے اور نظام حکومت نیم جمہوری اور صدارتی ہے۔ صدر مملکت براہ راست ووٹوں سے ہر چار سال کے لئے چنا جاتا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ تک رومانیہ میں بادشاہت تھی‘ تند و تیز ہوا چلی اور تخت و تاج کو خزاں کے زرد پتوں کی طرح اُڑا کر لے گئی۔ آخری بادشاہ کا نام مائیکل تھا اور وہ کمال کا شخص تھا کئی خوبیوں کا مالک۔ شاید کوئی مہینہ ایسا ہو جب ملک کی کسی نہ کسی گوشہ میں بادشاہت کو بحال کرنے کے حق میں آواز بلند نہ ہوتی ہو۔ مملکت کے سرکاری نشان ( Coat of Arms)میں بنے ہوئے عقاب کے سر پر عوام فولادی تاج پہنا دیتے ہیں‘ جو بادشاہت کا نشان ہے ۔ پچھلے سال پارلیمنٹ میں اس قرارداد پر بحث ہوئی کہ بادشاہت کو بحال کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ استصواب رائے سے کرایا جائے‘ عوام کی دوتہائی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے‘ مگر پارلیمنٹ نے عین آخری وقت اپنا ذہن بدل لیا۔ جوں جوں رومانیہ کے سیاست دانوں پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی تعداد اور سنگینی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ بادشاہت کی بحالی کے حق میں رائے عامہ کی آواز اتنی بلند ہوتی جاتی ہے۔ 1876 ء میں رومانیہ پر سلطنت عثمانیہ کا تسلط ختم ہوا۔ اس دور کے خاتمہ کے بعد رومانیہ میں صرف چار بادشاہ تخت نشین ہوئے۔ آخری بادشاہ مائیکل نے 1947 ء میں رضا کارانہ طو رپر خود ہی تخت و تاج چھوڑ دیا اور اگلے 60 سال سوئٹرز لینڈ میں پرُ سکون اور خاموش زندگی گزاری۔ 1997 ء میں رومانیہ کی حکومت نے مائیکل کو دوبارہ شہریت دی تو وہ اپنے ملک یہاں واپس آگیا ‘مگر نہ تحت مانگا اور نہ تاج کا مطالبہ کیا۔ ماضی قریب میں شاہ مائیکل نے وفات پائی تو سارے یورپ کے اخباروں میں اس کا تعزیت نامہ شائع ہوا اور مرحوم کی تعریف کی گئی۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ سے لے کر سوویت یونین کے خاتمہ تک رومانیہ سوویت یونین کا حصہ رہا اور اتنا عرصہ وہاں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت رہی۔ اس دور میں رومانیہ کے سربراہ کا نام نکولائی چائو چشکو تھا۔ وہ1945ء سے لے کر 1989ء تک (44 برس) بطور آمر مطلق کے رومانیہ کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا۔ ہر سال 21 دسمبر کی صبح کوایک بڑا ہجوم سرکاری ملازمین کی تگ و دو کی بدولت (جو پاکستان کے غالباً تھانیداروں اور پٹواریوں کے مقابلہ میں ہیچ ہیں) اکٹھا کیا جاتا تھا۔ اس جم غفیر کا کام اپنے قائد کی تقریر کو خاموشی سے سننا ‘مگر وقفوں کے بعد زور زور سے تالیاں بجانا اور زندہ باد کے نعرے لگانا تھا۔ کئی سال سے یہ تقریب بڑی خوش اسلوبی سے منعقد ہوتی رہی‘مگر 1989ء کی 21 دسمبر کو ایک انہونی دیکھنے میں آئی کہ ساڑھے دس بجے صبح کا وقت تھا کہ رعایا (اُنہیں شہری ہر گز نہیں کہا جا سکتا) کے ایک لاکھ کے بڑے ہجوم نے اپنے لیڈر کی شان میں وہ گستاخی کی‘ جو اس وقت تک ناقابل تصور تھی۔ ہجوم نے تعریفی نعروں کی بجائے اپنی شدید ناپسندگی کا اظہار ہوٹنگ کرنے سے کیا۔ (جسے انگریزی میں Jeering اور Booing کہتے ہیں) خود ساختہ مرد آہن پر اتنی گھبراہٹ طاری ہوئی کہ وہ اگلے دن ہیلی کاپٹر پر سوار ہوا اور ملک کے کسی گمنام حصے میں جا چھپا ‘مگر بدقسمتی نے یہاں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا وہ پکڑا گیا‘ایک چھاؤنی میں فوجی عدالت لگائی گئی اور وہاں لیڈر کے خلاف ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے کے الزام کا مقدمہ سنایا گیا۔ عدالت نے لیڈر کے خلاف فیصلہ کیا تو نہ صرف چائوچسکو بلکہ اُس کی بیوی کو بھی سزائے موت دی گئی۔ ایک عبرت ناک انجام ! ایک اور داستان! 
آپ بخارسٹ چاہے ایک دن کے لئے جائیں‘ آپ قصر پارلیمان دیکھے بغیر گھر واپس نہیں آسکتے۔ شہر کے وسط میں اونچائی پر بنائی گئی عمارت جو واشنگٹن میں Pentagon (وزارت دفاع کے دفاتر) کے بعد دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہے۔ کل کمروں کی تعداد ایک ہزار اور زیادہ کمرے اتنے بڑے کہ ان میں ٹینس کھیلی جا سکتی ہے۔ کل منزلیں دس (آدھی زیر زمین)۔ عمارت کی بلندی سو فٹ اور اس کو بنانے میں جو میٹریل استعمال ہوا اُس کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے: پانچ لاکھ پچاس ہزار ٹن سیمنٹ‘ سات لاکھ ٹن فولاد‘ 20 لاکھ ٹن ریت‘ نو لاکھ مربع میٹر لکڑی‘ فانوسوں میں استعمال ہونے والے ساڑھے تین ہزار ٹن کرسٹل‘ دو لاکھ مربع میٹر شیشہ‘2800 فانوس‘ دو لاکھ بیس ہزار مربع میٹر قالین۔ یقینا آپ کا سر یہ اعداد و شمار پڑھ کر چکرا جائے گا۔ یہ کالم نگار ہمدردی کا مستحق ہے کہ جسے اس عظیم الشان عمارت کی سیر کرنا پڑی۔ جب میں تھک کر بیٹھ گیا تو پتا چلا کہ ابھی اس دشت کے صرف ایک حصہ کی سیاحی کی ہے۔ رومانیہ کے رومان کا جادو چاہے کتنا سر چڑھ کر بولے‘کالم نگار اپنے وطن عزیز ہر سال بار بار جاتا رہے گا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے گا کہ اُس نے کالم نگار کو اس خوشی سے بھی نوازا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں