خرگوش اور شکاری کُتّا

مجھے یہ بالکل اچھا نہیں لگتا کہ میں اپنی مادری زبان پنجابی اور قومی زبان اُردو جیسی دو فصیح و بلیغ زبانوں کو بولنے‘ لکھنے اور پڑھنے پر عبور رکھنے کے باوجود اپنے کالموں میں اکثر انگریزی محاورے (بطورِ امر مجبوری) لکھتا ہوں۔ میرے قارئین کی مہربانی ہے کہ وہ جابجا ریشم میں ٹاٹ کا پیوند لگا دیکھتے ہیں اور درگزر کر دیتے ہیں ‘ ورنہ آج کل وطن عزیز میں نہ کوئی معافی مانگتا ہے اور نہ کوئی معافی دیتا ہے۔ آج کے کالم کا عنوان جس انگریزی محاورہ سے لیا گیا ہے‘ وہ یوں ہے: Run with the hare and hunt with the houndsسلیس زبان میں اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ آپ بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے اور ایک تکلیف دہ تضاد کی گرفت میں آجائیں گے‘ اگر آپ ایک طرف خرگوش کے ساتھ دوڑیں (جب وہ بے چارہ اپنی جان بچانے کے لئے سرپر پائوں رکھ کر بھاگ رہا ہو) اور دوسری طرف اُس کا شکار کرنے والے خونخوار کتے کا ساتھ بھی دیں۔ آپ کا بھلا اسی میں ہے کہ آپ خرگوش اور شکاری کتے میں سے ایک کا انتخاب کر لیں۔ بدقسمتی سے جب سے ہمارا ملک معرض وجود میں آیا ہے‘ ہم بالکل یہی کرتے آئے ہیں۔ اس کا وہی نتیجہ نکلا‘ جو منطق کے اصول کے تحت نکلنا چاہئے تھا۔ ہرسُو بحران ہی بحران‘تضاد ہی تضاد۔ نہ گھر نہ گھاٹ‘ نہ خرگوش سے دوستانہ تعلق قائم ہوا اور نہ شکاری کتے سے۔ اگر ہم اپنی خیریت چاہتے ہیں (یا میری دل پسند پینڈو زبان میں ''نیک مطلوب چاہتے ہیں‘‘) تو ہمیں اندھا دھند بھاگنے کی بجائے رُک کر سوچنا چاہئے کہ ہم کون ہیں‘ ہمارا عملی کردار کیا ہے؟ ہم اپنے سفر کی کٹھن منزل کس طرح طے کریں گے؟ ہماری منزل کیا ہے‘ ہمارے وسائل کیا ہیں؟ ہمارے دوست کون ہیں اور ہمارے حریف کون ہیں؟بقول جالب :؎ 
دس کروڑ انسانو! زندگی سے بیگانو
دوستوں کو پہچانو! دشمنوں کو پہچانو
71 سال سے ہماری خارجہ پالیسی کی عمارت صرف ایک ستون پر کھڑی ہے اور اُس ستون کا نام ہے‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ جس کی خوشنودی کی خاطر ہم نے پہلے سوویت یونین کی دشمنی مول لی‘اپنے آپ کو افغانستان کی خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا۔ امریکہ کی سرپرستی میں بننے والے تمام دفاعی معاہدوں میں شرکت کی ‘مگر وہ ہندوستان سے لڑی جانے والی جنگوں میں ہمارے کسی کام نہ آیا۔ انگریز سے نام نہاد آزادی حاصل کر لی‘ مگر انگریز کی غلامی کی دلدل میں کئی میل زیادہ گہرائی میں چلے گئے۔ بقول اقبالؔ: ع
طریق کوہکن میں بھی وُہی حیلے ہیں پرویزی
سال کے 365 دنوں میں ایک دن یوم آزادی مناتے ہیں اور باقی 364 دن دربدر کشکول گدائی لے کر بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔آئی ایم ایف کے محتاج ملک پر آزادی کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔ خسارہ (اور وہ بھی اربوں ڈالروں کا) بجٹ بنانے والے حکمران ٹولے (چاہے‘ وہ فوجی ہو یا غیر فوجی) کو ایک دن بھی حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں۔ خسارے کا بجٹ‘ افراط زر‘ کمر توڑ مہنگائی‘ پولیس کی دہشت (رائو انوار سے لے کر عابد باکسر تک )‘ ہماری تاریخ کے اُفق پر کیا نظر آتا ہے۔ پکا قلعہ سے لے کر ماڈل ٹائون کے سانحہ تک‘ 12 مئی کے کراچی میں قتل عام سے لے کر بلدیہ ٹائون فیکٹری کی آگ میں 275 مزدوروں کے جل کر راکھ ہو جانے تک‘ لیاقت علی خان اور ضیا الحق سے لے کر بے نظیر بھٹو اور اُن کے بھائی مرتضیٰ کے اندھے اور پرُ اسرار قتل تک‘حکیم سعید سے لے کر کراچی ہی کی سبین کے قتل تک‘ لاہور قلعہ میں حسن ناصر سے لے کر نواب اکبر بگٹی کی شہادت تک۔ اس اخبار کے فاضل مدیر مجھے کالم کی محدود جگہ کی بجائے اخبار کے سارے صفحات بھی دے دیں‘ تو وہ ساری دُکھ بھری داستان بیان کرنے کے لئے ناکافی ہو ںگے‘ مگر یہ لکھنے کی ضرورت نہیں ؛چونکہ کون ایسا ہوگا ‘جوان واقعات سے اچھی طرح واقف نہ ہو۔اُن حقائق کو بار بار دہرانے کا کیا فائدہ جو کروڑوں لوگوں کے ذہنوں میں نہ بھرنے والے زخموں کی طرح نقش ہو چکے ہوں۔ یہ تو تھا‘قصۂ ماضی اور آپ جانتے ہیں کہ ماضی مُردہ ہوتا ہے۔ ہم ماضی کا بڑے غور سے مطالعہ کر سکتے ہیں‘ مغلوں کے زوال کی طرح ہر عروج وزوال کے اسباب ڈھونڈ سکتے ہیں‘ پیچھے مڑ کر دیکھ سکتے ہیں ‘مگر ہم خود کو ماضی کا قیدی نہیں بنا سکتے‘ ورنہ وہ ہمارے دل و دماغ پر بھاری قفل لگا دے گا اور ہم ماضی پرست بن کر رہ جائیں گے اور غالباً یہی ہمارا ایک بڑا ذہنی المیہ ہے۔ اسلامی فلاحی مملکت کا قیام پاکستان کے قیام کا واحد مقصد ہے‘ تو پھر ہم ان تینوں الفاظ کے درمیان توازن اور تناسب کیوں قائم نہیں کر سکتے؟ ملک کا نام اسلامی لکھے بغیر مکمل نہیں ہوتا‘مگر سارا بینکاری نظام سُود کی بنیاد پرچل رہا ہے‘ ہمیں جاگیرداری بھی قابل قبول ہے ۔ ہمارا آئین اس ملک کے ہر باشندے کو بہت سے انسانی حقوق اور اُن کے احترام کی ضمانت دیتا ہے ‘مگر جس طرح انسانی حقوق ہمارے ملک میں پامال کئے جاتے ہیں‘ اُن کی مثال شاید ہی کسی اور مہذب ملک میںنظر آئے۔ جب تک ہم موجودہ بوسیدہ اور گلاسڑا نظام نہیں بدلتے‘ جس میں قانون کے نافذ کرنے والے اور قانون بنانے والے اداروں سے لے کر ہماری معاشی زندگی کے ہر شعبہ پر بے رحم‘ سنگ دل‘عوام دشمن اور استحصال پسند حکمران اشرافیہ قابض ہے‘بالکل جرائم پیشہ مافیا کی طرح‘ اس وقت تک ہم اپنا ایک بھی مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ ہلاک کر دینے والی دلدل سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکال سکتے ۔اندھیرے سے روشنی کی طرف ایک قدم نہیں بڑھا سکتے۔ جب تک اپنے نظام کو عوام دوست نہ بنائیں‘ تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ٹیکس دینے والوں پر اور بوجھ ڈالنا چاہتی ہے یا ٹیکس نہ دینے والوں پر قانونی شکنجہ کس کر اور اس کے ساتھ معاف شدہ قرضوں اور بیرون ملک چوری کے چھپائے ہوئے اربوں ڈالروں کو وصول کر کے قومی بجٹ سے خسارے کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ شوکت عزیز اور ان کے بعد اسحاق ڈار اور ان کے بعداسد عمر۔ ان تینوں میںکوئی فرق ہے‘ تو کیا ہے؟ یا بدقسمتی سے کہیں ایسا تو نہیں کہ اصل میں تینوں ایک ہیں؟
علم سیاسیات کی ابجد جاننے والا بھی یہ بنیادی سچائی جانتا ہے کہ بالواسطہ ٹیکس (جو ضرورت کی اشیاء مثلاً: گیس‘بجلی‘ پٹرول وغیرہ پر لگائے جاتے ہیں‘ غریب اور امیر میں کوئی امتیاز نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غیر منصفانہ اور عوام دشمن ہوتے ہیں۔ براہ راست اور بلا واسطہ ٹیکس لگا کر ہم تحریک انصاف کے نام کی لاج رکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک نظام انصاف کا تعلق ہے‘تواس میں نہ کوئی نظام اور نہ کوئی انصاف ۔مثال کے طو رپر صرف چند ملزموں کے نام لکھوں گا‘ جو قانون کی گرفت سے باہر ہیں‘ جنرل پرویز مشرف‘ حسین حقانی‘ شوکت عزیز‘ اسحاق ڈار‘ سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ دار پولیس افسران اور انہیں حکم دینے والے حکمران۔مملکت خداداد کے ہر شہری پر اُس امانت کی حفاظت کی ذمہ داری ہے‘ جو اُسے خدائے ذوالجلال کی طرف سے سونپی گئی ہے اور وہ ہے اسلامی فلاحی ریاست کا قیام۔ یہ کام کوہ ہمالیہ کو اپنی جگہ سے ہلانے سے کم مشکل نہیں۔ یہ کسی ایک سیاسی یا مذہبی جماعت کے بس کا نہیں۔ چہروں کی بجائے نظام (نظام کہنہ یعنیStatus Quo ) بدلنے کا کام صرف قومی اتفاق رائے سے ہوسکتا ہے۔ صرف قومی اتفاق رائے ہمیں یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت دے گا کہ ہم دیرو حرم میں‘ کعبہ اور کلیسا میں‘ بت پرستی اور بت شکنی میں کس کو چنیں؟ خرگوش اور شکاری کتے میں سے کس کے ساتھ دوڑیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں