کوئلہ نکالنے والے خود کوئلہ بن گئے

زمانہ طالب علمی میں چند برس فارسی پڑھی تو گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ غازی کے محترم استاد نے کمال کے محاورے سے متعارف کرایا: ''ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد‘‘‘ میرے ہم عصر تو اس محاورہ سے بخوبی واقف ہوں گے‘ مگر نئی نسل کی سہولت کے لئے ترجمہ لکھتا ہوں: '' جو بھی نمک کی کان میں جاتا ہے‘ وہ خود نمک بن جاتا ہے‘‘۔ مفہوم یہ ہے کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔ انگریزی میں کہتے ہیں When in Rome Do as the Romans Do(یہ زبان سکھانے کا پانچ سرکاری سکولوں کو ثواب جاتا ہے‘ جو مظفر گڑھ‘ شاہ پور‘ حافظ آباد‘ گجرات اور ڈیرہ غازی خان میں تھے) میں نہیں جانتا تھا کہ میرے قارئین میں سے کتنے لوگوں نے کھیوڑہ میں غالباًدُنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان دیکھی ہے۔ وہ یقینا ایک عجوبہ ہے اور قابل دید ہے۔ 1984 ء کی بات ہے کہ میں اپنے پرانے اور پیارے دوست راجہ منور احمد صاحب کی دعوت پر ان کے آبائی گائوں چوآسیدن شاہ گیا۔ وہ میری آمد پر اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے مجھے اور میرے بچوں کو کھیوڑہ کی سیر کرانے کا نہایت شاندار بندوبست کرا دیا۔ وہاں ہمارا ایک یادگار دن گزرا۔ ہم کان نمک کے اندر گئے‘ وہاں کافی دیر ٹھہرے اور نمک لیے بغیر باہر آگئے۔ صد افسوس کہ اگر میں کان نمک کا سیاح ہونے کی بجائے کوئلہ کی کان میں کام کرنے والا مزدور ہوتا تو ممکن تھا کہ میں کان کے اندر تو جاتا‘ مگر کبھی باہر نہ آسکتا۔ آج کا کالم انہی بہادر‘ جفا کش اور باعث صد فخر محنت کشوں کا نوحہ ہے۔ یہ سطور مرنے والوں کی یاد میں لکھی جا رہی ہیں‘کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والوں میں سے جو موت کی وادی میں اُتر گئے۔ وہ میری نظر میں شہید ہیں اور اتنے ہی محترم جتنے وطن کی خاطر جان دینے والے سپاہی۔ پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری سلطان محمد خان اور خیبر پختونخوا کے رکن صوبائی اسمبلی شوکت یوسف زئی نے اخبارات کو جو بیانات دیئے ہیں‘ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ میں 97 کان کن جان بحق ہوئے۔ یہ سب کوئلے کی کانوں میں کام کرتے تھے اور اگر ان سب کا نہیں‘ تو اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا کے پسماندہ ضلع شانگلہ سے تھا؛ اگر کوئلہ نکالنے کے لئے کیے جانے والے دھماکوں کے بعد کان میں میتھین گیس بھر جائے تو وہ کان کو منہدم کر دیتی ہے۔ بلوچستان میں کوئلے کی تقریباً400 کانیں ہیں اور ان کانوں میں کام کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے ‘ جن کی عمر میں 13 برس سے لے کر 34 برس تک ہوتی ہیں۔ وہ روزانہ 16 سے 18 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ بڑا حادثہ ہو جائے (جو اکثر ہوتا ہے) تو ہلاک ہونے والے کان کن کے لواحقین کو پچاس ہزار روپے سے لے کر دو لاکھ تک کا معاوضہ دیا جاتا ہے؛ چونکہ مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں ہوتی‘ اس لئے کسی بھی کان میں کام کرنے والوں کی صحیح تعداد کا پتا نہیں ہوتا۔ 2011ء میں ایک کان بیٹھ گئی ‘تو کوئی کہہ رہا تھا کان کے اندر 12 مزدور تھے‘ کوئی 15 بتاتا تھا‘ مگر کھدائی کے بعد پتا چلا کہ کان کے اندر ہلاک ہو جانے والوں کی کل تعداد 43 تھی۔ بلوچستان سے سالانہ 20 ہزار ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ ایک ٹن کوئلہ نکالنے پر مزدور کو 700 سے 1100 روپے مزدور ملتی ہے‘ جبکہ بازار میں ایک ٹن کوئلہ 13 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ ضلع شانگلہ کی کل آبادی آٹھ لاکھ ہے‘ جن میں سے 35 ہزار افراد کوئلے کی کانوں میں کام کرتے ہیں۔ وہ جان کو ہتھیلی پر رکھ کر موت کے کنوئیں میں ہر روز اُترتے ہیں۔ بلوچستان میں کوئلہ نکالنے کا کام 1873ء میں شروع ہوا اور145 سال گزر جانے کے باوجو د کان کنی کے طریق کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
آپ نے کبھی غور فرمایا کہ ہمارے ملک میں ہزاروں مساجد میں امامت کرانے والے امام صاحبان نے کبھی کانوں (خصوصاً کوئلہ کی کانوں) کے بدترین اور غیر محفوظ اور دقیانوسی طریق کار اور کان کنی کی صدیوں پرانی ٹیکنالوجی اور شرمناک ٹھیکیداری کے نظام کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ہمارے گمبھیر سائل کی کئی وجوہ ہیں‘ مگر میری رائے میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی مساجد کو سماجی اور معاشرتی اور معاشی اور سیاسی مسائل کی نشان دہی اور اُن کو حل کرنے کی ضرورت کے لئے استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یورپ کی ترقی صرف وہاں کے جمہوری نظام اور اعلیٰ درجہ کے سیاسی اداروں کی مرہون منت نہیں‘ اس میں زیادہ بڑا کردار وہاں کی سول سوسائٹی نے ادا کیاہے۔ سول سوسائٹی سے مراد‘ وہاں کا چرچ اور کلیسا ہے‘ یونیورسٹیاں ہیں‘ اخبارات اور رسائل ‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو نشریات ہیں‘ لاکھوں سماجی انجمنیں ہیں‘ محنت کشوں کی تنظیمیں (ٹریڈ یونین) ہیں۔ دوسرے الفاط میں آواز خلق ہے ‘جو زبانِ خلق بن جائے‘ تو نقارہ خدا کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔راقم پاکستان کے سارے اخباروں میں کالم لکھنے والوں اور مدیران اور ٹیلی ویژن کے صحافیوں (اگر اس لفظ کا یہ درست استعمال کیا گیا ہے) سے مودبانہ اور دردمندانہ درخواست کرتا ہے کہ وہ میرے مذکورہ بالا مؤقف پر غور فرمائیں اور اگر وہ میرے تجزیہ سے متفق ہوں تو اس کی حمایت میں لکھیں اور بولیں۔ صرف حکومت وقت سے بہتری اور اصلاح اور تبدیلی کی اُمید رکھنا ‘دور غلامی کی سوچ کا ایک نمایاں پہلو ہے‘ جو رعایااور عوام کے درمیان بنیادی فرق کو واضح کرتا ہے۔ اقبالؔ نے بجا طور پر غلامی کو ایک جوئے کم آب اور آزادی کو بحربے کراں کے القابات سے نوازا۔ وکلا‘ اساتذہ‘ محنت کشوں کی تنظیمیں‘سماجی انجمنیں‘ مگر سب سے زیادہ اہم مقام مذہبی عبادت گاہوں (مسجد‘ گرجا گھر‘ مندر اور گوردوارہ) کو دیا جانا چاہئے۔یہ کلیدی (Pivotal) کردار ادا کر سکتی ہیں۔ کان کنوں کے المیہ پر مزید سطور لکھنے سے پہلے میں اپنے اس موقف کو پھر دہراوں گا کہ جب تک سول سوسائٹی کے سارے شعبے (خصوصاً عبادت گاہیں) اور تمام سیاسی ور مذہبی جماعتیں اور حکومت وقت‘یعنی ساری قوم یکجان نہ ہوجائیں ‘ کوئی معنی خیز‘ دیرپا کایا پلٹ نہیں ہونے والی ۔
اب واپس چلتے ہیں ؛ اُن بے حد دکھی لوگوں (خصوصاً نوجوانوں) کی طرف ‘جو کوئلے کی کانوں میں ان برے حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں‘ جہاں وہ یا تو شدید زخمی (ریڑھ کی ہڈی کا ٹوٹ جانا معمول کا حادثہ ہے) ہوجاتے ہیں اور یا جاں بحق۔ بقول فیضؔ:
؎ یہ خون‘ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
انگریزوں نے 1923ء میں Mine Act بنایا۔قریباً ایک صدی گزر گئی‘ اس قانون میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی‘ بلکہ المیہ یہ ہے کہ اس فرسودہ قانون پر بھی پوری طرح عمل نہیں کیا جاتا ۔ کوئلے کی کانوں کے اندر کیمیائی مواد کی موجودگی میں ہوا اتنی زہریلی ہو جاتی ہے کہ اس میں روزانہ بارہ بارہ گھنٹے سانس لینے والے جلد یا بدیر مریض ہو جاتے ہیں۔ کالم میں اتنی جگہ نہیں کہ اُن تمام حادثات کی فہرست گنوائوں‘ جن میں سینکڑوں کان مزدور ہلاک ہو گئے‘ محض کانوں کی بدترین صورت حال کی وجہ سے۔ اس وقت بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہمارے چیف جسٹس صاحب آخر کیا کیا کریں؟ پانی کے ڈیم بنوائیں ‘ اربوں ڈالروں کی چوری کرنے والوں کو پکڑیں‘ تھر کے قحط میں مرنے والوں کو خوراک اور پانی پہنچائیں‘ عدالتی نظام کی کارکردگی کو بہتر بنائیں ‘ صاف پانی کی فراہمی کے انتظامات کی نگرانی کریں‘ قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے ضروری اقدامات اُٹھائیں‘ درگاہوں کو وقف کردہ ہزاروں ایکڑ زمین کو قبضہ گروپوں سے وَاگزار کروائیں؟ ہماری پولیس تو ایک عام قبضہ مافیا (بم اُس کے نام کا حصہ ہے) کو بھی کو بصد مشکل گرفتار کرتی ہے۔ زرداری اور شریف خاندان کی مافیا حکومت نے حکومت کے ہر شعبہ کے انجر پنجر ہلا دیئے ہیں۔ اب جناب چیف جسٹس اور جناب عمران خان کے کندھوں پر یہ بوجھ آن پڑا ہے کہ وہ ہماری ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑیں‘ ہمارے زخموں کی مرہم پٹی کریں۔ وطن عزیز سے چھ ہزارمیل دور 82 سال کا یہ کالم نگار اس اُمید پر زندہ ہے کہ وہ ایسا مبارک دن ضرور دیکھے گا‘ جب کوئلہ نکالنے والے خود کوئلہ نہیں بنیں گے۔ ہم بقول فیضؔ وہ دن دیکھیں گے‘ ضرور دیکھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں